#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالحج ، اٰیت 11 تا 16
}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من الناس
من یعبد اللہ
علٰی حرف فان
اصابہ خیر اطمان بہ
وان اصابتہ فتنة انقلب
علٰی وجھہٖ خسرالدنیا والاٰخرة
ذٰلک ھوالخسران المبین 11 یدعوا
من دون اللہ مالایضرہ ومالاینفعہ ذٰلک
ھوالضلٰل البعید 12 یدعوالمن ضرہٗ اقرب من
نفعہٖ لبئس المولٰی ولبئس العشیر 13 ان اللہ یدخل
الذین اٰمنواوعملواالصٰلحٰت جنٰت تجری من تحتہاالانھٰر
ان اللہ یفعل مایرید 14 من کان یظن ان لن ینصرہ اللہ فی
الدنیا والاٰخرة فلیمدد بسب الی السماء ثم لیقطع فلینظر ھل
یذھبن کیدہ مایغیظ 15 وکذٰلک انزلنٰہ اٰیٰت بینٰت وان اللہ یھدی
من یرید 16
حق کے جن مُنکر لوگوں کا ھم نے کلامِ رَفتہ میں ذکر کیا ھے اِن میں سے حق
کے کُچھ مُنکر لوگ حق کے کنارے پر کُچھ اِس طرح سے کھڑے رہتے ہیں کہ اگر
اِن لوگوں کو حق کے راستے پر پڑی ہوئی غرض کی کوئی ہَڈی نظر آتی ھے تو وہ
اُس کی طرف لَپکتے ہیں اور اگر حق کے راستے پر کوئی کیل کانٹا پڑا ہوا نظر
آجاتا ھے تو فورا ہی حق کے مُخالف راستے پر چل پڑتے ہیں جس سے اِن خسارہ
کار لوگوں کی دُنیا بھی غارت ہو جاتی ھے اور آخرت بھی اَکارت ہو جاتی ھے ،
فکر و نظر کی اِس بربادی کے بعد وہ لوگ اپنے دانا داتا کو پُکارنے کے بجاۓ
اپنے اُن بے دانش داتاؤں کو پُکارتے ہیں جو اُن کو کوئی نفع بھی نہیں دے
سکتے اور کوئی نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتے لیکن یہ اِن لوگوں کی گُم راہی
کا وہ آخری مقام ہوتا ھے جہاں پر اِن کا نقصان اِن کے نفعے سے قریب اور
جہاں پر اُن کا نفع اِن کے نقصان سے قریب ہو جاتا ھے لیکن اِن لوگوں کے
برعکس جو لوگ راہِ حق پر قائم رہتے ہیں اُن لوگوں کو اللہ تعالٰی اِس دیدہ
زمین کے بعد اپنی اُن پوشیدہ زمینوں تک لے جاتا ھے جن زمنیوں کے نیچے وہ
آبِ حیات پوشیدہ ھے جس آبِ حیات میں اِن کی وہ حیاتِ نَو پوشیدہ ہوتی ھے جس
حیاتِ نَو کا اللہ تعالٰی نے اُن سے وعدہ کیا ہوا ھے ، جو شخص اللہ تعالٰی
کے اِن فرماں بردار بندوں کو اللہ تعالٰی کے اِن انعامات سے محرُوم کرنا
چاہتا ھے وہ اپنے ایک خیالی کرتب سے فضا میں تِھگلی لگاتا ھے اور آسمان کی
بلندی سے گر کر زمین کی تَہوں میں اُتر جاتا ھے اور اِس پستی میں گِر نے
اور گِھرنے کے بعد بھی اُس کے غیض و غضب میں کوئی فرق نہیں آتا ھے ، اللہ
تعالٰی نے حق کی راہ پر چلنے والوں اور باطل کی راہ پر بَہٹکنے والوں کی یہ
کُھلی کُھلی عادات و علامات کھول کھول کر بیان کر دی ہیں جن کو دیکھنے کے
بعد اَب جو شخص اللہ سے ھدایت چاھے گا وہ اللہ سے ھدایت پاۓ گا اور جو شخص
اپنی جہالت میں رہنا چاھے گا وہ اپنی جہالت میں رہ جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالحج کی اٰیاتِ رَفتہ سے اٰیاتِ رَواں تک جہاں پر علم و دلیل سے
کُچھ آراستہ لوگوں کا ذکر ہوا ھے تو وہاں پر علم و دلیل سے کُچھ بے راستہ
لوگوں کا ذکر بھی ہوا ھے اور اٰیاتِ رَفتہ و رَواں میں علم و دلیل سے جن بے
راستہ لوگوں کا ذکر ہوا ھے اُن بے راستہ لوگوں میں کُچھ بے راستہ لوگ وہ
ہیں جو حق کے ساتھ بھی کبھی پُورے کھڑے نہیں ہوتے اور باطل کے ساتھ بھی
کبھی پُورے کے پُورے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمیشہ ہی حق و باطل کی اُس
وسطی سرحد پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے وہ جب چاہیں ایک ہی جَست میں حق کی طرف
چلے جائیں ، جب چاہیں ایک ہی چوکڑی میں باطل کی طرف لُڑھک جائیں اور جب
چاہیں ایک ہی لوٹ لگاکر دونوں کے درمیان میں آکر کھڑے ہو جائیں ، اٰیاتِ
بالا میں تیسری بار بھی اُنہی بے راستہ لوگوں کا ذکر کیا گیا ھے جو علم و
دلیل کی ایک مضبوط بُنیاد کے بجاۓ ایک بے بُنیاد گمان کے ساتھ رہتے ہیں اور
اپنے اُسی بے بُنیاد گمان کے مطابق کبھی اہلِ حق کے ساتھ اپنا فاصلہ بڑھانے
کا فیصلہ کرلیتے ہیں اور کبھی اہلِ باطل کے ساتھ اپنا فاصلہ گھٹانے کا
فیصلہ کر لیتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس سے قبل علم سے اِن بے علم اور دلیل
سے اِن بے دلیل لوگوں کا پہلی بار سلسلہِ کلام کی دُوسری اٰیات میں ذکر کیا
تھا ، پھر دُوسری بار سلسلہِ کلام کی آٹھویں اٰیت میں بھی ذکر کیا تھا اور
اَب تیسری بار اٰیاتِ بالا کی آخری اٰیت سے پہلی اٰیت میں بھی اُنہی لوگوں
کا ذکر کیا گیا ھے اور اِس مُؤثر بالتاثیر حوالے کے ساتھ ذکر کیا گیا ھے کہ
یہ لوگ اپنے منافق اَخلاف کو خوش اور اپنے مُسلم مُخالف کو نا خوش دیکھنے
کے لیۓ کس حد تک پَستی میں جا سکتے اور کس حد تک گر کر جا سکتے ہیں ، اِن
لوگوں کے اِس انتہا پسدانہ چال اور انتہا پسندانہ خیال و اَعمال کو اللہ
تعالٰی نے اِس مثال سے واضح کیا ھے کہ اِن میں سے جو شخص اللہ تعالٰی کے
فرماں بردار بندوں کو اللہ تعالٰی کے اِن انعامات دُنیا و انعاماتِ آخرت سے
محروم کرنا چاہتا ھے تو وہ اپنے ایک خیالی کرتب سے فضا میں تِھگلی لگاتا ھے
اور آسمان کی بلندی سے گِر کر زمین کی تَہوں میں اُتر جاتا ھے اور اِس
پَستی میں گِرنے اور گِھرنے کے بعد بھی اُس کے غیض و غضب میں کوئی فرق نہیں
آتا ھے ، قُرآنِ کریم کی یہ ایک مُشکل اٰیت ھے اور عُلماۓ روایت نے اِس
مُشکل اٰیت کے جو مُختلف مفاہیم بیان کیۓ ہیں اُن میں ایک مفہوم یہ ھے کہ
اِس اٰیت سے مُراد وہ شخص ھے جو اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالٰی
اپنے رسُول کی دُنیا و آخرت میں مدد کرے اور اللہ تعالٰی نے اُس شخص کو یہ
ناقابلِ عمل مشورہ دیا ھے کہ وہ گھر کی چَھت پر رَسی لَٹکا کر اور پھر اِس
رَسی کا اپنے گَلے میں پَھندا لگا کر اپنا گلا گھونٹ لے تو شاید اُس کے غیض
و غضب میں کُچھ کمی آجاۓ ، یا پھر وہ ایک رَسّہ لے کر آسمان پر چڑھ جاۓ اور
آسمان سے اِس رسُول پر جو وحی آتی ھے اُس وحی کو بند کرادے تو شاید اِس سے
اُس کا کلیجہ کُچھ ٹھنڈا ہو جاۓ لیکن ظاہر ھے کہ یہ مُہمل دماغوں سے کشید
کیا ہوا وہ مُہمل مفہوم یا نتیجہِ مفہوم ھے جس کا اٰیت کے نَفسِ مضمون کے
ساتھ دُور پار کا کوئی تعلق بھی نہیں ھے بلکہ اٰیت کے مضمون سے مُراد وہی
منافق شخص ھے جو حق کے کنارے پر اِس غرض سے کھڑا ھے کہ وہ اہلِ ایمان سے
کُچھ فائدہ پالے یا کم اَزکم اہلِ ایمان کو کوئی خاطر خواہ نقصان ہی پُنہچا
دے اور اہلِ ایمان کو چونکہ اللہ تعالٰی کی مدد حاصل ھے اور وہ اِن سے کوئی
نفع پا سکا ھے اور نہ ہی اِن کو کوئی نقصان پُہنچا سکا ھے اِس لیۓ وہ اپنی
پَستی و مَستی کی ہر حد سے بڑھنے کے بعد بھی ابھی تک اپنے اُسی شیطانی غیض
و غضب میں اُلجھا ہوا پیچ و خَم کھا رہا ھے ، اٰیت ھٰذا میں حق کے کنارے پر
کھڑے ہوۓ اُس منافق شخص کو حرام موت مرنے کا کوئی مشورہ نہیں دیا جا رہا ھے
بلکہ اُس کی اُس منافقانہ کیفیت کو بیان کیا جا رہا ھے جس کیفیت کا اٰیت 11
میں ذکر کیا گیا ھے اور اُس کی یہ کیفیت اِس لیۓ بیان کی جا رہی ھے تاکہ
اہلِ ایمان کو اُس منافق انسان کی ناکامی اور اپنی کامیابی پر ایک گونہ
تسلی ہو جاۓ اور اہلِ ایمان اطمینان و سکون کے ساتھ اپنا کارِ حیات جاری
رکھ سکیں !!
|