پرانے چھوٹے چوہے اور بڑے امریکن چوہے

کنٹینر توڑنے اور پھر ان پر حملوں کے نتیجے میں جہاں بدامنی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا وہیں پر پشاور کے مختلف علاقوں میں عجیب و غریب قسم کے چوہوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اتنے لمبے اور بڑے بڑے چوہے نظر آنا شروع ہوگئے کہ لوگوں کو خوف محسوس ہونا شروع ہوا، اتنے لمبے چوہے جنہیں دیکھ کر بلی بھی راستے کاٹ دیتی تھی اور ڈر کے مارے نزدیک نہیں ہوتی. حالانکہ اس سے قبل چھوٹے سائز کے چوہے ہوتے جو صرف بلی کی آواز سن کر ڈر جایا کرتے اور دبک جایا کرتے، لیکن کنٹینر پر حملوں کے نتیجے میں رنگ روڈ کے ملحقہ علاقوں سے نکل کر پیدا ہونیوالے ان بڑے چوہوں کی وجہ سے جہاں لوگوں کا خوف بڑھ گیا، بلکہ چھوٹے سائز کے چھوٹے بھی نایاب ہوگئے، حالانکہ یہ مقامی طور پر چھوٹے سائز کے چوہے ہوتے تھے.
غالبا آج سے کم و بیش چودہ سال پرانی بات ہے پشاور کے رنگ روڈ پر مختلف مقامات پر ٹرکوں اور کنٹینر کے بڑے بڑے اڈے ہوا کرتے تھے، جس میں کراچی کے بندرگاہ سے آنیوالا سامان جو کہ کنٹینروں میں بند ہوتا تھا یہاں پر رکھا جاتا، ا س وقت کنٹینرز کے اڈوں میں بڑا پیسہ تھا. امریکی افواج سمیت نیٹو کو اسی رنگ روڈ کے سائیڈ پر بنے اڈوں سے چیزیں ملتی تھی، اس کاروبار میں زیادہ تر اس وقت کے خیبر ایجنسی جو کہ ابھی ضلع خیبر ہے کے لوگ وابستہ تھے، جو پٹرول کی سپلائی سے لیکر مختلف چیزوں کی سپلائی کا کام کرتے تھے اور بڑا مال تھا. اس میں بہت سارے لوگوں نے بڑا مال کمایا.
پھر قبائلی اضلاع میں آپریشن کا سلسلہ شروع ہوا سیکورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں رنگ روڈ کے مختلف مقامات پر بنے کنٹینر کے اڈوں پر جس میں بیشتر نیٹو کا مال ہوا کرتا تھا رات کے وقت حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، حملہ آور آتے، کنٹینر کو آگ لگاتے اس میں سے قیمتی سامان نکالتے، پھر دھماکے ہوتے اور ان دھماکوں کی وجہ سے بہت سارے چینل کے صحافیوں کی رات کی ڈیوٹی لگی رہتی کہ اگر کچھ ہوا تو اس نے فورا اپنے ڈی ایس این جی سے رابطہ کرکے متعلقہ جگہ پہنچ کر کوریج کرنی ہے، یہ بریکنگ نیوز ہوا کرتی تھی اس لئے بڑے بڑے ٹی وی چینل نے رات کی شفٹیں شروع کردی-ان دنوں ایسی گاڑیاں بھی جن میں پٹرول اور جہازوں کو فراہم ہونے والا تیل ہوتا تھا راستے میں کھڑے کھڑے دھماکوں کا شکار ہوتے تھے. چونکہ یہ سب کچھ انشورنس ہوتا تھا اس لئے ڈرائیوروں اور مالکان کو بھی زیادہ پروا نہیں ہوا کرتی، ان دنوں یہ افواہ بھی پھیل گئی تھی کہ کچھ لوگ اس میں خود ملوث ہیں اور پٹرول او ر دیگر سامان چوری کرکے گاڑیاں اڑا دیتے ہیں. واللہ عالم. اس بارے میں کچھ کہنا اپنے آپ کو " شیر کے منہ" میں سر رکھنے کے مترادف ہے.اس لئے ایسی باتوں کو چھوڑیں آتے ہیں..کنٹینرز توڑنے پر..
کنٹینر توڑنے اور پھر ان پر حملوں کے نتیجے میں جہاں بدامنی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا وہیں پر پشاور کے مختلف علاقوں میں عجیب و غریب قسم کے چوہوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اتنے لمبے اور بڑے بڑے چوہے نظر آنا شروع ہوگئے کہ لوگوں کو خوف محسوس ہونا شروع ہوا، اتنے لمبے چوہے جنہیں دیکھ کر بلی بھی راستے کاٹ دیتی تھی اور ڈر کے مارے نزدیک نہیں ہوتی. حالانکہ اس سے قبل چھوٹے سائز کے چوہے ہوتے جو صرف بلی کی آواز سن کر ڈر جایا کرتے اور دبک جایا کرتے، لیکن کنٹینر پر حملوں کے نتیجے میں رنگ روڈ کے ملحقہ علاقوں سے نکل کر پیدا ہونیوالے ان بڑے چوہوں کی وجہ سے جہاں لوگوں کا خوف بڑھ گیا، بلکہ چھوٹے سائز کے چھوٹے بھی نایاب ہوگئے، حالانکہ یہ مقامی طور پر چھوٹے سائز کے چوہے ہوتے تھے.
اس وقت ہمارے ایک دوست نے ایک راز کی بات کہہ دی کہ رات کے وقت رنگ روڈ پشاور کے کنٹینر کے اڈوں پر ہونیوالے حملوں میں بعض اوقات کنٹینرز کو توڑا جاتا اس میں سے خوراک اور اس وقت اسلحہ او ردیگر سامان جو چرایا جاتا تھا ان میں سے بعض کنٹینرز میں امریکہ سے چوہے آئے تھے یہ چوہے کنٹینرز کے ذریعے آئے تھے اور کنٹینرز کے کھلنے ک باعث انہوں نے مقامی طور پر نہ صرف مقامی چوہوں کیساتھ اختلاط کرکے نئی نسل پیدا کردی بلکہ چھوٹی نسل کی چوہے بھی غائب کردئیے.
یہ چھوٹے نسل کے بڑے شریف قسم کے چوہے ہوا کرتے تھے گھر میں داخل ہوتے تو بڑے خیال سے، اور اگر کہیں پر کسی نے چپل مار دی، یا جھاڑو مار دیا تو پھر غریب ایک ہی مار سے بعض اوقات مر بھی جایا کرتے تھے کیونکہ ایک تو چھوٹی نسل سے تھے بلکہ شریف النسل بھی تھے کیونکہ مقامی تھے.. لیکن پھر...
رنگ روڈ پشاور سے نکل کر پشاور کے اندرون شہر میں بڑے سائز کے چوہوں نے انت مچا دی، اور یہ حال ہوا کہ بے شرم قسم کے چوہوں نے راتوں کے بجائے دن دیہاڑے گھروں میں جانا شروع کردیا، چھوٹے سائز والے چوہے تو گھروں کے دروازوں پر جا کر داخل ہونے کی کوشش کرتے لیکن امریکن کنٹینروں سے نکل کر پیدا ہونیوالے ان چوہوں نے دروازوں کے بجائے ہر اس جگہ سے گھروں میں داخل ہونا شروع کردیا جہاں پر انہیں راستہ ملتا تھا، نالے سے لیکر گٹر کے ذریعے گھروں میں داخل ہونا ان بڑے چوہوں نے شروع کردیا، اور تو اور ان میں ڈر بھی نہیں تھا اور اتنے بے شرم اور کم بخت قسم کے چوہے تھے کہ پشاور شہر کے بعض علاقوں میں راتوں کو گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کے پاؤں، ناک اور جسم کے مختلف حصوں کو کاٹنے کی متعدد واقعات بھی ہوئے..
اسی دوران حکومت بھی تبدیل ہو گئی او رپھر نئی حکومت نے آتے ہی ایک سکیم شروع کردی کہ جو چوہا پکڑے گا اسے پچاس روپے دئیے جائیں گے اور یہ اعلان بھی ڈسٹرکٹ پشاور کے ضلعی ناظم کی جانب سے ہوا تھا فی چوہا پچاس روپے کی اس مہم میں بعض لوگوں نے بڑے بڑے چوہے مار کر بڑی رقم کما لی لیکن پھر ایک دم یہ مہم بھی ختم کردی گئی، بعد میں ضلعی انتظامیہ نے ان بڑے سائز کے چوہوں کو ختم کرنے کیلئے انہیں پرانے طریقے سے مارنے کی کوشش بھی کی لیکن منہ پر بال نہ رکھنے کے باوجود سونگھنے کی اچھی خص رکھنے کی وجہ سے یہ پھندوں سے بھی بچ گئے اور مرنے سے بھی، ان بڑے چوہوں کی بڑی تعداد کم و بیش آٹھ سے دس سالوں سے شہر میں راج ہے. اور اب پشاور کا کوئی بھی شہری یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ اس کے علاقے میں بڑے سائز کا چوہا دستیاب نہیں، باتھ روم کے گٹر سے داخل ہونیوالے ان بدفطرت چوہوں پر مار بھی اثر نہیں کرتی، نہ ہی ان میں کوئی شرم ہے کہ اگر کوئی انسان انہیں دیکھ لے تو بھاگ جائے بلکہ بعض اوقات تو اگر کوئی ان بڑے سائز کے چوہوں پر چپل مارنے کی کوشش کرے تو پھر مارنے والے کے پیچھے لپکتے ہیں اور مارنے والا انسان بھی بھاگ جاتا ہے جبکہ اب ان بڑے سائز کے چوہوں اور بلی میں بھی باہمی معاہدہ برائے امن و اتفاق ہو چکا ہے.. اور بلی ان چوہوں کے سامنے خاموش ہوتی ہیں یا پھر آنکھیں بند کرکے دوسری طرف چلی جاتی ہیں.
کم و بیش چودہ سال گزرنے کے بعد اب پشاور کے بعض علاقوں میں حال حال ہی چھوٹی نسل کے چوہے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، جنہیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے کیونکہ یہ اتنے شریف چوہے ہیں کہ انسان کو تو چھوڑیں بلی کو دیکھ کر بھی بھاگ جاتے ہیں حالانکہ یہ بڑے بڑے چوہوں کی وجہ سے غائب ہوگئے تھے لیکن اب پھر آہستہ آہستہ پشاور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ملک کے دیگر علاقوں میں چوہوں کے حوالے سے مقامی افراد خود ہی جان سکتے ہیں..
ان چوہوں کودیکھ کر یقینا ہم جیسے لوگوں کا دل خوش ہوا ہے کہ چلو شریف اور چھوٹے سائز کے چوہے اب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، حالانکہ ایک زمانے میں یہ چھوٹے چوہے ہمیں بہت برے لگتے تھے لیکن اب ان چوہوں کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے کہ کم از کم حیاشرافت تو ان چھوٹے سائز کے چوہوں میں ہیں اور بھاگ بھی جاتے ہیں، اب تو ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس بڑے سائز کے امریکن چوہوں سے نجات دلائے.. امین..
نوٹ.. کسی بھی قسم کی سیاسی حالات سے مماثلت دیکھنے والوں کی اپنی مرضی پر ہے. لکھنے والا "پرانے چھوٹے اور نئے بڑے چوہوں "پر لکھ کر گیا ہے.. شکریہ
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420559 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More