از قلم: عصمت اسامہ۔۔ عالمی وبائی مرض جسے اس صدی کی سب
سے بڑی آفت کہا جاۓ ،وبا کہا جاۓ یا گناہوں کی سزا کہا جاۓ، اس نے تقریباً
دو سال سے عالم_انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یوں تو بلا تفریق_رنگ
و ملت ،اس نے سب پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں لیکن سفید پوش اور غریب طبقہ کی
حالت بیان سے باہر ہے۔اس لحاظ سے کہ ایلیٹ کلاس ،کاروباری طبقہ ،زمیندار
برادری اپنے معاشی حالات کو کسی نہ کسی طرح سنبھال لیتی ہے کیونکہ ان کے
پاس کچھ نہ کچھ سرمایہ محفوظ ہوتا ہے ۔اسی طرح خوشحال گھرانوں کے پاس کم از
کم اپنا گھر اور سواری موجود ہوتی ہے اس لئے وہ نسبتاً کم فکرمند ہوتے ہیں
ان لوگوں کے جو روزانہ (Daily wages)کمانے والے ہوتے ہیں۔حالیہ لاک ڈاؤن کے
دوران مزدوروں پہ سروے کیا گیا تو سب سے ابتر حالت انھی کی تھی ۔ہندوستان
کے ایک دیہاڑی دار مزدور نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ کرونا وائرس سے کتنا
خطرہ ہے لیکن میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا ! پاکستان کے سابق
وزیر خارجہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق "موجودہ صورتحال کی
وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظرنامہ جنم لے رہا ہے اور مزید تیس سے
پچاس لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ سکتا ہے۔معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد
کی تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ لاک ڈاؤن کے طویل ہونے سے ایک کروڑ سے
زائد افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں _" (بحوالہ بی بی سی)
دو سال قبل ماہ_رمضان میں عید سے پہلے خریداری عروج پر ہوتی تھی اور ہر
چھوٹے بڑے دوکان دار کو کمانے کا موقع مل جاتا تھا ،لیکن اس بار لاک ڈاؤن
کے دوران پولیس کی گاڑیاں رات دیر تک گشت کرتی رہیں ۔ چھوٹے دوکاندار
بیچارے کرایہ ادا نہ کرنے کے سبب فٹ پاتھ پر سامان بیچنے پر مجبور ہوگئے۔
کئ ریڑھی بانوں کی ریڑھیاں الٹا دی گئیں ، کچھ کو ماسک نہ پہننے پر پولیس
جرمانہ کرتی رہی ،کچھ موٹر سائیکل سوار افراد کی پکڑ دھکڑ کی گئ۔ سفید پوش
والدین نے اپنے بچے پین اور کلر بک پکڑا کر سڑک پہ کھڑے کردئیے، کچھ سکرین
وائپر اور غبارے بیچتے دکھائی دئیے ۔۔۔۔بقول شاعر :۔ ~ بھوک چہروں پہ لئے
چاند سے پیارے بچے بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے ! کووڈ 19 کی تیسری
لہر کے بارے میں طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ زیادہ شدید ہوسکتی ہے
کیونکہ اس کی علامات زیادہ واضح نہیں ہیں۔اب لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئ ہے
تو عوام کو صحت و صفائی کے معاملات کا خود خیال رکھنا ہوگا۔ ایلیٹ کلاس کو
کرونا کے علاج کے لئے مہنگے ہاسپٹل اور ڈاکٹر کی سہولت میسر ہوتی ہے۔وہ گھر
پہ آکسیجن کے سلنڈر لا کے اپنا علاج کرواسکتے ہیں جبکہ غریب اس کا تصور بھی
نہیں کرسکتے۔دنیا کے کئ ممالک مثلاً ترکی نے غریب سٹوڈنٹس کی ان لائین
کلاسز کی خاطر انٹرنیٹ کو فری کردیا ہے تاکہ شعبہء تعلیم متاثر نہ ہو لیکن
ہمارے وطن میں ہر شعبہ کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے سبب زوال پزیر ہے۔ ان حالات
میں عوام کو خود ہی کچھ سوچنا ہوگا ۔اگر ہر انسان اپنی ذات کے دائرے سے
باہر نکل کے ،اپنی کچھ خواہشات و ضروریات کو کم کرکے دوسروں کو کچھ فایدہ
پہنچانے لگ جائے تو سب مل کر ایک دوسرے کو سنبھال سکتے ہیں کیونکہ بہترین
انسان وہی ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے نفع بخش ہو۔دنیا کے بعض ممالک نے
اپنے سپر سٹورز کو کھانا دینے والے مراکز میں تبدیل کردیا ہے جہاں سے ضرورت
مند افراد کھانا لے جاسکتے ہیں۔کچھ رفاہی تنظیموں جیسے "الخدمت"اور کئ
ڈاکٹرز نے اپنے طور پر آن لائین طبی مشوروں اور علاج کی سہولیات فراہم کی
ہیں کچھ پرائیویٹ اداروں نے اپنے ورکرز میں سے مستحق ورکرز کو لاک ڈاؤن کے
دوران گھر بیٹھے تنخواہ کی سہولت دی ہے۔اسی طرح اب لوگ متبادل روزگار اور
آمدنی کے ذرائع تلاش کر رہے ہیں ،جیسے گھریلو مصنوعات کی تیاری، کپڑے کا
کاروبار ،ڈیکوریشن پیس بنانا، اس طرح آن لائین تجارت ،فری لانسنگ،سوشل
میڈیا مارکیٹنگ ،آن لائین کوچنگ کلاسز نے بہت رواج پکڑا ہے ۔اس ضمن میں
ماہرین کو سامنے آکے عوام کو رہنمائی دینے کی ضرورت ہے۔
حرف آخر یہ کہ اس عالمی وبائ مرض اور اس کے اثرات سے نجات پانے کے سواۓ خدا
کی ذات کے کوئ سہارا نہیں ہے ۔وہی اس مرض کو ہٹا سکتا ہے اور غریب کی ڈوبتی
ناؤ کو پار لگا سکتا ہے ! بقول شاعر اختر شمار : قریہ ،قریہ گریہ پیہم ،یا
رحیم یا کریم ! مر رہی ہے نسل _آدم ،یا رحیم یا کریم ہم خطاؤں پر ہیں نادم
،سب کہیں مل کر شمار دور کردے ہم سے ہر غم یا رحیم ،یا کریم ! #
|