#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالحج ، اٰیت 25 }}}
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لا کھ
سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
ان
الذین کفروا
ویصدون عن سبیل
اللہ والمسجد الحرام الذی
جعلنٰہ للناس سواء ن العاکف فیہ
والباد و من یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ
من عذاب الیم 25
اہلِ ایمان کے عملِ ہجرت و تاریخِ ہجرت کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی مُکمل
تصدیق ہو چکی ھے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی اِس کتابِ نازلہ کے اَحکامِ
نازلہ کا انکار کر رھے ہیں وہ لوگ اِس کتاب کے اَحکامِ نازلہ کا اقرار کرنے
والوں کو اِس کتاب کے اَحکامِ نازلہ سے بالعموم ہر جگہ پر روکنے اور
بالخصوص اُس مسجدِ حرام میں بیان کرنے سے روکنے میں لگے ہوۓ ہیں جس مسجدِ
حرام کے اَندرونی حلقہِ زمین اور بیرونی رَقبہِ زمین پر اللہ تعالٰی نے ہر
ایک انسان کو آنے جانے کا ، رہنے سہنے کا اور علم و ہُنر سیکھنے سکھانے کا
ایک دائمی و مساوی اور ایک غیر مشروط حق دیا ہوا ھے ، چاھے اُن میں سے کوئی
انسان زمینِ حرم میں پیدا ہو کر زمینِ حرم میں رہ رہا ہو یا کوئی انسان
زمینِ حرم سے باہر پیدا ہونے کے بعد زمینِ حرم میں جاکر رہنے لگا ہو اور
اَب جو لوگ ھمارے اِس حتمی حُکم کے بعد بھی ھمارے اِس حتمی حُکم سے سرکشی
یا انحراف کریں گے تو ھم اُن لوگوں کو سخت سے سخت تر سزا دیں گے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اِس سُورت کی اِس اٰیت کا حرفِ اَوّل "اِنَّ" حرفِ تحقیق ھے جو ہجرتِ مکہ
اور فتحِ مکہ کے درمیانی عرصے میں پیش آنے والے اُن سارے صبر آزما حالات کے
واقع ہونے کی تصدیق کرتا ھے جو اِس اٰیت میں بیان ہوۓ ہیں اور یہی حرفِ
تحقیق اُن سارے تکلیف دہ واقعات کی بھی توثیق کرتا ھے جو اِس عرصہِ ستم کے
دوران اُن سارے اہلِ ایمان پر گزرے تھے جنہوں نے مُشرکینِ مکہ کے اُن مظالم
سے تنگ آکر زمینِ مکہ سے زمینِ مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اَب جب وہ
مُہاجر لوگ ایک صبر آزما انتظار کے بعد ایک فاتحانہ پیش قدمی کے ساتھ شہرِ
مکہ کے دروازے تک آگۓ تھے تو اُس وقت بھی اِن مظلوم لوگوں کے سامنے مکے کے
وہی پرانے ظالم لوگ اپنے نۓ ظالمانہ آلات کے ساتھ کھڑے تھے جن کے مظالم نے
اِن مظلوم لوگوں کو اللہ تعالٰی کے گھر سے اور اُن کے اپنے گھر سے بھی
نکلنے پر مجبور کردیا تھا ، اٰیت ھٰذا میں اُن ظالم لوگوں کے اِن مظلوم
لوگوں پر جو دو بڑے ظلم بیان ہوۓ ہیں اُن میں پہلا ظلم اُن مظلوم لوگوں کو
توحید کے اُس راستے سے ہٹانا تھا توحید کا جو راستہ اُن کو قُرآنِ کریم نے
دکھایا تھا اور دُوسرا ظلم یہ تھا کہ اُن ظالم لوگوں نے اُن مظلوم لوگوں کو
اُس مسجدِ حرام میں آنے جانے سے بھی روک دیا تھا جس مسجدِ حرام کے اَندر و
باہر کی زمین پر آنے جانے اور رہنے سہنے کا اللہ تعالٰی نے زمین کے ہر ایک
انسان کو برابری کا وہ حق دیا ھے جس حق کی بنا پر اللہ تعالٰی نے زمین کے
ہر صاحبِ علم و صاحبِ استطاعت انسان کو ہر سال اِس مسجد میں آنے کا ، اِس
مسجد میں رہنے کا ، اِس مسجد میں تعلیم دینے کا اور اِس مسجد سے تعلیم لینے
کا حُکم دیا ھے اور اِس حُکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دینے کا اعلان
کیا ھے ، لَفظِ حج و الحج سے مُراد ھماری وہ علم و دلیل ہو جس کا ھم نے اِس
سُورت کے آغاز میں حرفِ حج کی لُغوی توضیحات میں ذکر کیا ھے یا لَفظِ حج و
الحج سے مُراد وہ مُختلف اَعمال و افعال ہوں جن کا ہر سال ہر اجتماعِ حج کے
دوران ہر مُسلمان عملی مظاہرہ کرتا ھے لیکن حج کی اِن علمی و عملی صورتوں
میں سے ہر ایک صورت میں انسان کا اپنے مُلک سے نکل کر مسجدِ حرام تک جانا
لازم ہوتا ھے اور انسان کا یہی عمل ، عملِ حج و دعوتِ حج کی وہ بُنیاد ھے
جس بُنیاد کا اِس سُورت کی اِس اٰیت سے آغازِ کلام ہوا ھے اور عملِ حج کے
اِس آغازِ کلام میں سب سے پہلے قُرآنِ کریم کا بیان کیا ہوا یہ اصول سمجھ
سامنے آیا ھے کہ حج کا عمل ایک مُسلمان کے لیۓ ہی اللہ تعالٰی کا مقرر کیا
گیا کوئی خاص عمل نہیں ھے جس عمل کو ایک مُسلمان انسان ہی سر اَنجام دے
سکتا ھے بلکہ حج کا یہ عمل ہر انسان کے لیۓ ایک ایسا ہی عام عمل ھے جس کو
ہر ایک انسان اَنجام دے سکتا ھے اور حج کے اِس عمل کا مقصد ہر ملک کے ہر
انسان کا اپنے اپنے ملک کے قابلِ ذکر معاشی و معاشرتی مسائل کو لے مسجدِ
حرام میں منعقد ہونے والی اِس عالمی بین الانسانی کانفرنس میں جانا ھے اور
مسجدِ حرام کے اُس انسانی مرکز کے صاحبِ علم لوگوں سے اُن مسائل کا ایک
قابلِ عمل علمی حل لے کر اپنے اپنے ملک میں واپس آنا ھے اور قُرآنِ کریم کے
اُس پہلے اصول کے بعد قُرآنِ کریم کا جو دُوسرا اصول سمجھ آیا ھے وہ یہ ھے
کہ مقامِ حرم اور زمینِ مقامِ حرم کو اللہ تعالٰی نے مقامی اور غیر مقامی
اور مُسلم و غیر مُسلم انسانوں کے درمیان انسانیت کی بُنیاد پر مساوی طور
پر تقسیم کیا ہوا ھے اور اِس تقسیم کے مطابق زمینِ حرم کا کوئی حصہ کسی
مقامی و غیر مقامی ، کسی مُلکی و غیر ملکی اور یا مُسلم و غیر مُسلم کی
شخصی ملکیت نہیں ھے ، جو لوگ اِس زمین پر باہر سے آتے ہیں یا اِس کے قُرب و
جوار میں رہتے ہیں وہ اِس کی زمین کو استعمال تو کر سکتے ہیں لیکن اِس
بیچنے خریدنے اور اِس کو کراۓ پر اُٹھانے اور انفرادی طور پر اِس سے کوئی
نفع حاصل کرنے کے مجاز نہیں ہوتے ، ہر چند کہ پچھلی صدی میں بعض عُلماۓ سُو
نے حرم کی زمین پر شخصی ملکیت کے حق میں ایک فتوٰی صادر کر کے شاہانِ حرم
کی شخصی ملکیت کا راستہ ہَموار کرنے کی کوشش کی ھے لیکن قُرآنِ کریم کے اِس
کُھلے حُکم کے خلاف کسی مفتی کا ایسا فتوٰی کسی بھی اہمیت کا حامل نہیں ھے
اور اِس بات سے کہیں زیادہ اَھم بات یہ ھے کہ حرم کی زمین پر شخصی ملکیت کی
نفی دَر حقیقت اللہ تعالٰی کی ساری زمین پر غیراللہ کی شخصی ملکیت کی نفی
اور غیر اللہ کے شخصی اَحکام کی بھی مُکمل نفی ھے !!
|