گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں کرونا وبا کی وجہ سے
نظام صحت کے ساتھ معاشی نظام بھی دباؤ کا شکار رہا۔ اس وبا نے ملک میں
گزشتہ پچیس سال میں غربت کے خاتمے کے لئے کی گئی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
سال 2015 میں بیس سال کی کوششوں کے بعد غربت کی شرح 64 فیصد سے کم ہو کر 24
فیصد پر آ چکی تھی۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرونا
وبا کے دوران غربت کی شرح میں اضافے ہوگا اور امکان ہے کہ شرح غربت رواں
سال 40 فیصد سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان
کا جی ڈی پی بھی کرونا وبا سے متاثر ہو گا۔ وبا کے نتیجے میں مسلسل لاک
ڈاؤن نے زراعت، صنعت، ٹرانسپورٹ، لیبر اور کنزیومر مارکیٹ سے متعلق
ایکٹیویٹیز کو۔متاثر کیا ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریبا بیس فیصد زراعت
پر منحصر ہے جس سے 43 فیصد لیبر وابستہ ہے۔ کرونا نے زراعت اور صنعت سے
وابستہ لاکھوں لوگوں کے روزگار کو متاثر کیا ہے۔ کرونا وبا کی وجہ سے
پاکستان میں اس وقت تقریبا 43 ملین لوگوں کے پاس مناسب خوراک کے وسائل
موجود نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی
گزار رہے تھے۔ ان مشکل حالات میں روزگار بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی
تعداد کا خط غربت سے نیچے جانے کا امکان تھا۔ اس حوالے سے گورنمنٹ نے ایک
مربوط حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جس سے تیزی سے
بڑھتی ہوئی غربت میں عارضی طور پر کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں غربت کے
خاتمے کے لئے اس وقت تین مختلف پروگرامز پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔
پہلا احساس پروگرام ہے جس کو گورنمنٹ نے 2019 میں متعارف کروایا۔ کرونا کے
دورانیے میں لاکھوں بے روزگاروں کو احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مدد
فراہم کی گئی۔ اب تک 12 ملین خاندانوں کو اس پروگرام کے تحت راشن کی خرید
کے لئے 12000 فی کس رقم فراہم کی جا چکی ہے۔ دوسرا بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام ہے جس کا آغاز 2008 میں ہوا۔اس پروگرام کا مقصد خط غربت سے نیچے
زندگی گذارنے والے لوگوں کو مدد فراہم کرنا تھا۔ غربت کے خاتمے کے لئے یہ
پاکستان میں اب تک ک سب سے بڑا پروگرام ہے جس کے تحت پانچ ملین سے زیادہ
لوگوں میں اب تک نوے ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اس پروگرام کا زیادہ
فائدہ خواتین اور اقلیتی کمیونٹی کو حاصل ہوا۔ تیسرا کامیاب جوان پروگرام
ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام ہے جس کے تحت نوجوانوں
کو نئے کاروبار کے لئے آسان شرائط پر چھوٹے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ اس
پروگرام سے پندرہ سے انتیس سال کے وہ نوجوان فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اپنا
کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غربت کی دلدل میں پھنسے ہنر مند نوجوانوں
کے لئے غربت سے نکلنے کا اچھا ذریعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل وقت میں ملنے والا ایک روپیہ بھی اپنی اہمیت
رکھتا ہے مگر احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والی
امداد غربت میں خاتمے کے لئے کوئی مستقل حل نہیں۔ اس کے برعکس کامیاب جوان
جیسے پروگرامز کا تسلسل غربت میں خاتمے کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ غربت
میں خاتمے کے لئے حکومتی پالیسیز ہی کافی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام لوگوں
کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ خواتین کو معاشی مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ چھوٹے
کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضے کے ساتھ نوجوانوں اور خواتین کو ٹیکنیکل
ٹریننگ بھی دینا ہو گی۔ UNDP کی رپورٹ کے مطابق ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں
189 ملکوں میں پاکستان 154 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا کی کامیاب اکانومیز کے
مطالعہ سے واضح ہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ میں بہتری ہنرمندانہ ٹریننگ کے بغیر
ممکن نہیں۔ موجودہ حالات میں ٹیکنیکل ٹریننگ فراہم کرنے والے اداروں کی
اہمیت اور ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ
ملک میں ایسے ہنر مندانہ تربیت فراہم کرنے والے ادارے فنکشنل کئے جائیں۔
نئے کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضے کے ساتھ رہنمائی فراہم کی جائے اور
چھوٹے کاروبار کے لئے ملکی ماحول کو سازگار بنایا جائے۔ اگر تسلسل کے ساتھ
ایسے اقدامات اٹھائے جائیں تو کم وقت میں غربت میں واضح کمی لائی جا سکتی
ہے۔ |