اللہ رب العزت کے نزدیک مقبول اور جلدی قبول ہونے والی توبہ، توبہ نصوح ہے،
جس کا خود قرآن شریف میں ذکر ہے،
قال اللہ تعالی: ”یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی
اللّٰہِ تَوْبَةً نَصُوْحًا ”
اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو“۔ امام کلبی نے فرمایا کہ
توبہ نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے اور دل میں نادم ہو اور اپنے بدن
واعضاء کو آئندہ اس گناہ سے روکے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سوال کیا گیا
توبہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا جن میں چھ چیزیں جمع ہوں: (۱) اپنے گذشتہ برے
عمل پر ندامت (۲) جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا (۳)
کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا تو اس کی واپسی (۴) کسی کو ہاتھ یا زبان سے
ستایا تھا اور تکلیف پہنچائی تھی تو اس سے معافی (۵) آئندہ اس گناہ کے باس
نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ (۶) جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی
کرتے ہوئے دیکھا ہے اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن: ۸/ ۵۰۶)
بعض مفسرین نے اس آیت '' یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَى
اللّهِ تَوْبَهً نَصُوحاً '' (١) اے ایمان لانے والوں خدا کی بارگاہ میں
خالص توبہ کرو ۔ کی تفسیر میں ''نصوح '' کے معنی اس طرح کئے ہیں : توبہ
نصوح سے مراد وہ توبہ ہے جس کی لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اس کی طرح
توبہ کریں کیونکہ اس کے آثار توبہ کرنے والے میں ظاہر ہوجاتے ہیں ، یا توبہ
کرنے والے کو نصیحت کرتے ہیں کہ گناہوں کو بالکل ختم کردے اورکبھی بھی
گناہوں کی طرف نہ جائے اور بعض علماء نے اس کو خالص توبہ سے تفسیر کی ہے
اور بعض علماء اس کو مادہ نصاحت سے سلائی کے معنی میں سمجھتے ہیں ، کیونکہ
گناہوں کی وجہ سے دین اور ایمان کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو توبہ دوبارہ سے سی
دیتی ہے۔یا توبہ کرنے والے کو اولیاء اللہ سے الگ کردیا گیا تھا اور اب
دوبارہ اس کو ان میں واپس پلٹا دیا گیا ہے (٢) ۔
(٣) ۔ توبہ نصوح سے مراد وہ توبہ ہے جس کے ذریعہ توبہ کرنے والا گناہوں کو
بالکل ختم کردیتا ہے اور ان کی طرف واپس نہیں پلٹتا ۔ بعض علماء اس کو خالص
توبہ اور بعض علماء اس کو مادہ نصاحت سے سلائی کے معنی میں سمجھتے ہیں ،
کیونکہ گناہوں کی وجہ سے دین اور ایمان کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو توبہ دوبارہ
سے سی دیتی ہے ۔
حضرت عمر،حضرت اُبَیّ بن کعب اور حضرت معاذ رضی الله عنہم فرماتے ہیں :
”التوبة النصوح أن یتوب، ثم لا یعود إلی الذنب، کما لا یعود اللبن إلی
الضرع “․ توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ توبہ کرے اور پھر اس گناہ کی طرف دوبارہ نہ
لوٹے ،جس طرح دودھ تھنوں میں لوٹ کر واپس نہیں جاتا۔ (تفسیر الثعلبي، سورة
التحریم:9/350، تفسیر الخازن، سورة التحریم:7/121، تفسیر القرطبي، سورة
التحریم:18/197، تفسیر البحر المحیط، سورة التحریم:8/288)
حسن فرماتے ہیں کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ بندہ اپنی سابقہ گناہ آلودزندگی
پرنادم ہو، دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنے کے عزم کے ساتھ۔کلبی نے کہا کہ توبہ
نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے،دل سے ندامت اختیار کرے اور اپنے بدن کو
قابو میں رکھے۔قتادہ نے کہا کہ سچی نصیحت آمیز توبہ کو نصوح کہتے
ہیں۔(تفسیر الخازن:7/121)
سعید بن جبیررحمہ الله فرماتے ہیں کہ نصوح مقبول توبہ کو کہتے ہیں اور توبہ
اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی ہے جب تک اس میں تین چیزیں نہ پائی جائیں:عدم
قبولیت کا خوف ہو،قبولیت کی امیدہو،طاعات پر ثابت قدمی ہو۔محمد بن سعیدقرظی
کہتے ہیں کہ توبہ نصوح چار چیزوں کے پائے جانے کا نام ہے:زبان سے استغفار
کرنا، بدن سے گناہوں کو اکھیڑ پھینکنا،دل سے دوبارہ لوٹنے کے ترک کا اظہار
کرنا۔حضرت ابن عباس رضی الله عنہماسے بھی یہی منقول ہے۔
(البحرالمدید:8/127) برے دوستوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنا،ذو النون نے
کہا: اہل خیر کی صحبت اختیارکرنا۔(تفسیر الخازن:7/122،تفسیر السلّمي:2/337)
سفیان ثوری رحمہ الله نے فرمایا کہ چار چیزیں توبہ نصوح کی علامت
ہیں:”القلّة“یعنی گناہوں کو زائل کرنا،”العلّة“ یعنی اللہ کی یاد سے دل
بہلانایاتشویش میں مبتلا ہونا یعنی نادم ہونا، ”الذلّة“ یعنی انکساری اور
تابع داری اختیار کرنا، ” الغربة “یعنی گناہوں سے دوری وجدائی اختیار
کرنا۔فضیل بن عیاض رحمہ الله نے فرمایا کہ( توبہ کے بعد)گناہ اس کی آنکھوں
میں کھٹکے، گویا وہ اسے برابر دشمنی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔ابوبکر واسطی
رحمہ الله نے فرمایا :توبہ نصوح (خالص) توبہ کا نام ہے۔ نہ کہ عقد معاوضہ
کا،اس لیے کہ جس نے دنیا میں گناہ کیا اپنے نفس کی سہولت اور مفاد کی خاطر
اور پھر توبہ کی اسی نفس کی سہولت کے پیش نظر تو اس کی توبہ اپنے نفس کے
لیے ہوگی، نہ کہ اللہ کے لیے۔(تفسیر الثعلبی:9/350)
ابوبکر مصری رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح مظالم کے لوٹانے یعنی حقوق
والوں کے حقوق ادا کرنے،دعوے داروں سے حقوق معاف کروانے اور طاعات پر
مداومت کرنے کو کہتے ہیں۔رابعہ بصریہ نے کہا:ایسی توبہ جس میں گناہ کی طرف
واپس لوٹنے کا خیال نہ ہو۔ذوالنون مصری رحمہ الله نے کہا: توبہ نصوح کی تین
علامتیں ہیں: قلتِ کلام، قلتِ طعام، قلتِ منام۔شقیق بلخی رحمہ الله نے کہا
کہ توبہ نصوح کرنے والا بکثرت اپنے نفس پر ملامت کرے اور ندامت اس سے کبھی
جدا نہ ہو ؛تاکہ وہ گناہوں کی آفتوں سے سلامتی کے ساتھ نجات پاسکے۔سری سقطی
رحمہ الله نے کہاکہ توبہ نصوح ایمان والوں کو اصلاح نفس کی فہمائش کیے بغیر
نہیں ہو سکتی،اس لیے کہ جس کی توبہ درست قرار پائی تو وہ اس بات کو پسند
کرے گا کہ سب لوگ اس کی طرح توبہ نصوح کرنے والے ہوں۔(تفسیر الثعلبی:9/350)
جنید بغدادی رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ گناہوں کوایسے بھول
جائے کہ پھر ان کا تذکرہ بھی نہ کرے؛کیوں کہ جس کی توبہ درست قرار پاتی ہے
وہ اللہ سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور جس نے اللہ سے محبت کی وہ اللہ
کے ماسوا کو بھول گیا،سھل تُستری رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح اہلِ سنت
والجماعت کی توبہ کا نام ہے،اس لیے کہ بدعتی کی کوئی توبہ نہیں،حضور صلی
الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ اللہ نے ہر صاحب بدعت کو توبہ
کرنے سے محجوب کردیا ہے۔فتح موصلی رحمہ الله کہتے ہیں کہ اس کی تین علامتیں
ہیں: نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنا،بکثرت رونا، بھوک اور پیاس کی مشقت کو
برداشت کرنا۔ یعنی قلتِ طعام و شراب۔ (الکشف والبیان :9/351)
حضرت عمر رضی الله عنہ سے توبہ نصوح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے
فرمایاکہ آدمی برے عمل سے توبہ کرے اور پھر کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہ
جائے۔حضرت حسن رحمہ الله نے فرمایا: توبہ نصوح یہ ہے کہ تو گناہ سے ویسے ہی
نفرت کر جیسے تو نے اس سے محبت کی اور جب تجھے یاد آئے تو اس سے توبہ و
استغفار کر۔(تفسیرابن کثیر:8/168،189) ابو بکر وراق رحمہ الله نے کہا :توبہ
نصوح یہ ہے کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو جائے، جیسا کہ غزوہ
تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں نے توبہ کی تھی۔(الجواہر الحسان في تفسیر
القرآن:4/316،تفسیر السراج المنیر:۱/۵۱۹،تفسیر القرطبی:8/287،
81/197،198)ابو عبد اللہ رحمہ الله کہتے ہیں کہ دس چیزوں کا نام توبہ نصوح
ہے: جہل سے نکلنا، اپنے فعل پر نادم ہونا، خواہشات سے دوری اختیار کرنا،
سوال کیے جانے والے نفس کی پکڑ کا یقین،ناجائز معاملات کی تلافی کرنا،ٹوٹے
ہوئے رشتوں کا جوڑنا،جھوٹ کو ساقط کرنا، برے دوست کو چھوڑنا،معصیت سے خلوت
اختیار کرنا،غفلت کے طریق سے عدول کرنا۔(حقائق التفسیر للسلّمي:2/337)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ الله لکھتے ہیں کہ توبہ نصوح سے مراد صاف دل
کی توبہ ہے، وہ یہ ہے کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے، اگر توبہ کے
بعد انہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے
اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی۔ رزقنا اللّٰہ منھا حظاً وافراً بفضلہ
وعونہ، وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر․(تفسیر عثمانی، سورة تحریم : 8)
|