حالیہ برسوں چین میں قیام کے دوران متعدد صوبوں اور شہروں میں جانے کا
اتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے وہاں اسلامی ثقافت کے مختلف رنگوں کو بھی قریب
سے دیکھنے کا موقع ملا۔ رمضان المبارک سمیت عیدین کے مواقعوں پر بھی چین کے
مختلف شہروں کے دورے کیے اور وہاں کی تاریخی مساجد میں عبادت کی سعادت ملنا
کسی بھی مسلمان کے لیے خوش قسمتی سے کم نہیں ہے۔
دفتری مصروفیات کے سلسلے میں تبت آنا ہوا تو یہاں بھی اسلامی ثقافت کے
مختلف رنگوں کا بغور مشاہدہ کیا۔چین میں رہنے والے پاکستانیوں کو تبت آنے
کے مواقع نسبتاً کم ہی ملتے ہیں ،ایک وجہ تبت کی بیجنگ اور دیگر بڑے شہروں
سے دوری ہے اور دوسرا یہاں کا شدید موسم بالخصوص آکسیجن کی کمی جیسے مسائل
ہیں ۔تبت کا شمار چین کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے جو آج کل اپنی
تعمیر و ترقی میں جدت اور سیاحت کے باعث بھی معروف ہے۔تبت میں مختلف
قومیتیں آباد ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد آزادانہ اپنے
مذہبی عقائد کی پیروی کر سکتے ہیں۔چینی حکومت کی مذہبی پالیسیوں کی روشنی
میںیہاں تمام مذاہب کو یکساں درجہ حاصل ہے ۔مجموعی طور پر تبت میں بدھ مت
سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے ۔تبت میں مسلمانوں کی تعداد 12،000
سے زائد ہے جبکہ مساجد کی تعداد چار ہے،کچھ کے نزدیک یہ تعداد چھ ہے۔ ایک
کیتھولک چرچ بھی موجود ہے جس میں 700 سے زائد پیروکار ہیں۔
تبت کے دارالحکومت لہاسا کی بات کریں تو یہاں کی عظیم مسجد اسلامی روایات
اور فن تعمیر کا ایک عمدہ شاہکار ہے ۔لہاسا کی عظیم مسجد کو ہیبلن مسجد کے
نام سے بھی جانا جاتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ مسلمان تاجر 08 ویں صدی کے آس
پاس مختلف علاقوں سے تبت آنا شروع ہوئے ۔بعد میں 12 ویں صدی میں زیادہ سے
زیادہ مسلمان تاجروں نے لہاسا کا رخ کیا اور انہوں نے مقامی تبتی لڑکیوں سے
شادیاں کیں جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا۔یوں آہستہ آہستہ شادیوں اور
سماجی باہمی رابطوں کے ساتھ ہی مسلمان آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا
اور لہاسا کے آس پاس ایک مسلم کمیونٹی تشکیل پائی.مسجد عظیم کے امام محمد
علی اور محمد عمر سے تفصیلی بات چیت ہوئی کیونکہ یہ دونوں صاحبان اردو بول
سکتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ اس قدیم مسجد کی تاریخ 1000سال سے زائد ہے
،نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے لہاسا شہر کے آس پاس کام کرنے والے چینی
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مسجد میں موجود ہوتی ہے اور عیدین کے مواقعوں پر
تو یہ تعداد تین ہزار سے بھی تجاوز کر جاتی ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر سے متعلق
انہوں نے بتایا کہ عرب ممالک سے تبت آنے والے کچھ مسلم تاجروں نے یہ مسجد
تعمیر کروائی تھی ۔آغاز میں اس مسجد کا رقبہ صرف 200 میٹر تھا بعد میں
1793 میں اس مسجد کی توسیع کی گئی ۔چینی حکومت کی مسلسل دلچسپی کے تحت عظیم
مسجد کی تعمیر نو 1959 میں کی گئی اور اب اس کا کل رقبہ 2،600 مربع میٹر پر
محیط ہے جس میں تعمیر شدہ رقبہ 1،300 مربع میٹر شامل ہے۔
اس تاریخی مسجد میں متعدد مرکزی عمارتیں موجود ہیں جن میں ادائیگی نماز کا
مرکزی ہال ،ایک مدرسہ جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید عصری تعلیم بھی دی
جاتی ہے، واٹر ہاؤس ، غسل خانہ اور وضو خانہ وغیرہ شامل ہیں۔نماز کی
ادائیگی کے لیے مرکزی ہال 285 مربع میٹر کے رقبے پر محیط ہے ۔ یہ ہال
انتہائی کھلا ،روشن اور ہوادار ہے ۔مسجد کی تعمیر کو بلاشبہ اسلامی اور
مقامی تعمیراتی خصوصیات کا خوبصورت امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جب آپ
مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو مسجد کا فن تعمیر اور خوبصورتی یقیناً آپ کے دل
و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔مسجد کا مینار دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے
اور جوں جوں آپ مسجد کے نزدیک آتے جاتے ہیں ایک عجب سا سکون اور اطمینان
محسوس ہوتا ہے۔ امام صاحبان نے بتایا کہ تبت میں رہنے والے مسلمان اپنے
روایتی تہوار مذہبی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اور اس وقت عید الاضحیٰ
کی مناسبت سے جانوروں کی قربانی سے متعلق انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی
ہے۔چینی حکومت کی جانب سے تبت میں مساجد سمیت اسلامی ثقافت کے تحفظ کے لیے
ہر ممکن تعاون اور حمایت فراہم کی جاتی ہے۔
مسجد کے ساتھ ہی حلال کھانوں کی بھی کئی دکانیں موجود ہیں جہاں سے گوشت
سمیت دیگر اشیاء باآسانی مل جاتی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت نماز جمعہ کے
بعد یہیں سے خریداری کرتی ہے۔ تبت میں جابجا حلال ریستوران بھی ایک کثیر
تعداد میں موجود ہیں لہذا کھانے پینے کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا ہے۔
تبت کی یہ خوبی ہے کہ قدیم زمانے سے ہی یہ خطہ نسلی گروہوں کے مابین تبادلہ
خیال ، رابطے اور ایک دوسرے سے روابط کی عمدہ روایت رکھتا ہے۔ سن 1978 میں
چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے تبت کے نسلی گروہوں کے مابین بھی
معاشی اور ثقافتی تبادلے قریب تر ہو چکے ہیں اور قومی شناخت کا احساس مضبوط
تر ہو گیا ہے۔چینی حکومت کی جانب سے تبت میں مسلمانوں سمیت دیگر تمام نسلی
اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ سمیت ان کے مذہبی رسوم و رواج ،
روایتی تہواروں اور اقلیتی ثقافت سے جڑی تمام روایات کا نہ صرف بھرپور تحفظ
کیا گیا ہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اسے مزید فروغ مل رہا ہے۔
|