حضرت ابراھیم اللۀ تعالیٰ کے پیغمبر تھےانکے لخت جگر کا
نام حضرت اسماعیل تھا اک دن حضرت ابراھیم نے خواب دیکھاجس میں انہیں کہا
گیا کہ اپنی سب سے قیمتی چیز الله کی راہ میں قربان کر دو۔ انٹ اس دور میں
مال و دولت میں شمار ہوتےتھےاور قیمتی تصور کۓجاتے تھےانہوں نے بہت سے اونٹ
قربان کر دۓ ۔پھر انھوں نے یہی خواب دوبارہ دیکھا جس میں کہا گیا کہ اپنی
سب سےقیمتی جیز قربان کر دو۔انھوں نے پھربہت سا مال و متا ع اللہ کی راہ
میں قربان کر دیا۔مگر پھر بھی انھیں وہی خواب آیا تو وہ سوچنے پر مجبور ہو
گۓ کہ میں نے مال و متاع قربان کر دیا مگر پھر بھی قربانی مطلوب ہے۔سب سے
قیمتی اور پیا ری چیز میرے پاس سواۓ میرے لخت جگر کے اور کوئ نہیں ہو سکتی
۔اسکا ذکر حضرت اسماعیل سے کیا وہ بھی پیغمبر ہی تھے مگر ابھی چھوٹے تھے۔جب
انھوں نے اپنے والد کا خواب سنا تو عرض کیا ابا جان!خدا کے حکم اور آپ کی
خواہش کے لۓ میری جان بھی حاضر ہے آپ رب کے حکم میں تاخیر نہ کریں مجھے اس
امتحان میں ثا بت قدم پائیں گے۔حضرت اسماعیل کے دل میں شیطان نے بہت وسوسے
ڈالنے کی کو شش کی مگر انکے ارادے کمزور نہ پڑے بلکہ انھوں نے باپ سے عرض
کیا کہ اباجان ہم دونوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ لینی چاہۓ تا کہ پدری شفقت
اس فریضہ کی ادائیگی میں حا ئل نہ ہو ۔اللۀتعالی کو صرف اپنے پیغمبر حضرت
ابراھیم عہ کا امتحان مقصود تھا ۔حکم دیا کہ چھری چلنے سے پہلے حضرت اسما
عیل کی جکہ دنبہ پہنچ جاۓ انکا ایک رونگٹا بھی نہ کٹنے پاۓ ۔حضرت جبرا ئیل
نے حکم کی تعمیل کی اور انکی جگہ دنبہ ذبح ہو گیا۔
یہ فرمانبرداری اور اطاعت کا ایسا واقعہ ہے کہ اسکی مثال تریخ عالم میں
کہیں نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لۓ
مسلمانوں پر عیداضحی کے موقع پر قربانی دینا سنت ابراھیم قرار دے دیا گیا
ہے اس لۓ اسے عید قرباں بھی کہا جاتا ہے الله کو حضرت ابراہم اور حضرت
اسماعیل کی ادا اتنی پسند آئ کہ اسے ہر سال دہرانے کا حکم صادر فر
مایا۔لہذا ہر صاحب ثروت مسلمان پر قربانی فرض ہے سب سے افضل قربانی دنبے کی
ہے مگر بکرا،اونٹ،گاۓ اور بیل پھی جائذہے لوگوں کی سہو لت کے لۓ گاۓ,بیل
اور اونٹ کی قربانی سات افراد مل کر دے سکتے ہیں۔
قربانی سے اطاعت خداوندی کا سبق ملتا ہے اور قربانی کے ایک تہائ گوشت
یتیموں,مسکینوں اور غریبوں میں تقسیم کرنے پر خیرات کا ثواب بھی ملتا
ہے۔قربانی کا اصل مقصد اطاعت خداوندی اور لوگوں سے پیار و محبت کا جذبہ
پیدا کرنا ہے اس عمل سے ہم میںایثار اور قربانی کا جوہر پیدا کرنا مقصود
تھا جس میں صرف خلوص ہی خلوص ہو دکھاوے کا پہلو ہرگز نہ ہو گویا عیدالاضحی
منانے کا مقصد غیر محدود ہے ۔
|