|
|
بلوچستان میں اب تک 18 کیچڑ فشاں یا مَڈ والکینو دریافت
ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک پہاڑ چندرا گپ کو دنیا کا بلند ترین مَڈ والکینو
کہا جاتا ہے۔ یہ کیچڑ فشاں صدیوں سے ہندو مت کے لیے انتہائی مقدس مقام کی
حیثیت رکھتا ہے۔ |
|
بلوچستان عجائبات کی سر زمین ہے۔ یہاں مسحور کن مناظر
کثرت سے ہیں، مگر وسیع رقبے پر کم آبادی، امن و امان کی کشیدہ صورتحال اور
حکومتوں کی غفلت کے باعث ان میں سے زیادہ تر عجائبات نا صرف دنیا بلکہ خود
پاکستانیوں کی نظر سے بھی پوشیدہ ہیں۔ انہی میں گرم گارا اگلتے "کیچڑ فشاں"
ہیں، جنہیں انگریزی میں مَڈ والکینو (Mud Volcano) کہا جاتا ہے۔ |
|
دنیا کے گنے چنے علاقوں میں ایسے مَڈ والکینو دریافت
ہوئے ہیں جن میں سے ایک بلوچستان بھی ہے۔ بلوچستان میں ان کے دو پہاڑی
سلسلے ہیں، جن میں سے ایک چندرا گپ اور دوسرا جبل غورب کہلاتا ہے اور اس
میں سات کیچڑ فشاں ہیں۔ |
|
|
|
کیچڑ فشاں یا مَڈ والکینو کی تشکیل |
ماہرین کے مطابق کیچڑ فشاں ایک جیو تھرمل عمل ہے جو
ارضیاتی پلیٹوں کے آپس میں ملنے کے مقام پر زیر زمین گیسوں مثلا میتھین،
کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن وغیرہ کے دباؤ کے تحت، مٹی، پانی اور
چٹانوں کے کیمیائی عمل سے وقوع پزیر ہوتا ہے۔ جب ان مقامات پر درجۂ حرارت
اور گیسوں کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے تو یہ مرکبات گرم گارے کی شکل اختیار کر
لیتے ہیں جو نکاسی کے لیے آتشیں لاوے کی طرح باہر لپکتا ہے۔ گارے میں نظر
آنے والے بڑے بڑے بلبلے عموما میتھین گیس ہوتی ہے۔ مسلسل کیچڑ کے اخراج سے
بعض مَڈ والکینو کی اوپری کنارہ ایک 'کون‘ یا مخروطی نوکیلی چوٹی کی صورت
اختیار کر جاتا ہے جو بہت دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے۔ |
|
بلوچستان میں کیچڑ فشاں |
بین الاقوامی ارضیاتی ماہرین ہنگول نیشنل پارک میں واقع
مختلف عجائبات پر ایک عرصے سے سٹیلائٹ تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ
پاکستان کے ساحلی علاقے میں بحیرۂ عرب کی ٹیکٹونک پلیٹ، برصغیر کی یورشیئن
پلیٹ کے نیچے جاتی ہے۔ ارضیاتی پلیٹوں کے اوپر نیچے ہونے کا یہ عمل دنیا
بھر میں آتش فشاؤں کو جنم دیتا ہے مگر بلوچستان کی ساحلی پٹی کی خشک ریت
زیر زمین کیمیائی عمل سے کھول کر ابل پڑتی ہے۔ ان میں سب سے قابلِ ذکر چندر
ا گپ ہے۔ اس کا گڑھا گارے کی جھیل سے بھرا ہوا ہے، جو ریاضی کے ہندسے 8 کی
شکل کا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی دور میں یہاں دو جڑواں مَڈ والکینو ہوں گے،
جو اب آپس میں مد غم ہو چکے ہیں۔ |
|
|
|
چندرا گپ کا حُسن |
دنیا کے بلند ترین کیچڑ فشاں کی اونچائی تقریبا 330 فٹ
اور دہانے کی چوڑائی یا قطر 49 فٹ ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف
ٹریولر محمد حنیف بھٹی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ نوجوانی سے بلوچستان
کے دور دراز علاقوں کی سیاحت کے شوقین رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی دفعہ سن 2010
میں چندرا گپ کو دیکھا تو چند لمحوں کے لیے وہ سحر زدہ ہو گئے تھے۔ یہ پہاڑ
ہنگول نیشنل پارک میں ہنگلاج وادی کے قریب واقع ہے اور اُس وقت اِس پہاڑ تک
پہنچنا آسان نہیں تھا کیونکہ یہاں تک صرف (4x4) گاڑی کے ذریعے پہنچنا ممکن
تھا، مگر مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد یہ سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ |
|
ماؤنٹ مہدی |
حنیف بھٹی بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں چندرا گپ کو دنیا
کا بلند ترین کیچڑ فشاں سمجھا جاتا ہے مگر انہوں نے اپنے دوست مہدی حسین کے
ساتھ مزید کچھ مَڈ والکینو دریافت کئے ہیں جو چندرا گپ سے پانچ گنا زیادہ
اونچے ہیں اور ان میں سے ایک کا نام نے مہدی حسین کے نام پر "ماؤنٹ مہدی"
رکھا ہوا ہے۔ ماضی کی نسبت اب سیاحوں کی تعداد بڑھ جانے سے یہاں آلودگی
بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاح پلاسٹک کے شاپر اور کولڈ ڈرنکس کے کین کیچڑ فشاں میں
پھینک دیتے ہیں، جو انتہائی نامناسب فعل ہے۔ ایسے نایاب مقام کی صفائی و
حفاظت پاکستانی قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ |
|
چندرا گپ، ہندو مت کا ایک مقدس پہاڑ |
چندرا گپ کا نام موریہ سلطنت کے بانی چندر گپت موریا کے
نام پر ہے۔ اس عظیم بادشاہ نے موریا سلطنت تین سو بائیس برس قبل از مسیح
ہندوستان میں قائم کی تھی۔ یہ بلوچستان کی وادی ہنگلاج میں ہندوؤں کے اہم
ترین مقامات میں سے ایک "نانی مندر" یا ہنگلاج ماتا مندر کے قریب ہے، اس کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی قدیمی مندر ہے اور ہزاروں یاتری
یہاں سالانہ میلے میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ چندرا گپ پر چڑھائی اس یاترا کا
ایک اہم حصہ ہے اور اس کے بغیر یاترا مکمل نہیں ہوتی۔ شدید گرمی میں 330 فٹ
اونچے پہاڑ کی چڑھائی ہندو یاتریوں کے لئے ایک دشوار ترین عمل تھا لہذا ان
کی آسانی کے لیے اب یہاں سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں۔ |
|
مقامی افراد کے مطابق ہندو یاتری چندرا گپ پر چڑھائی کے
بعد اُبلتی ہوئی گارا نما مٹی کو جسم پر ملتے ہیں تاکہ انھیں مختلف
بیماریوں سے شفا کے علاوہ روحانی طاقت حاصل ہو۔ |
|
|
|
Partner Content: DW Urdu |