باپ کا پیار

راجہ صاحب کی بیگم کو ان کی کبھی کبھار کی شراب نوشی سے بہت چڑ تھی دل کے عارضے اور جگر کی خرابی کے بعد ڈاکٹروں نے شراب نوشی اُن کے لیے زہر قرار دی تھی راجہ صاحب کی صحت کی وجہ سے بار بار روکنے اور لڑائی جھگڑوں کے بعد راجہ صاحب نے شراب چھوڑ دی تھی لیکن حلقہ دوستاں جن کے ساتھ بیٹھ کر یہ شغل کر تے تھے ان کے مجبور کر نے پر کبھی کبھار یہ غلطی کر جاتے جن پر خود بھی پشیمان ہو تے اور بیگم سے لڑائی الگ بات تھی راجہ صاحب کے گھر جب میر ا آنا جانا شروع ہو ا تو ایک دن وہ بیچاری مُجھ سے مدد کی خواہشتگار ہوئی کہ بھائی جان آپ سے راجہ صاحب بہت پیار کر تے ہیں آپ کی ہر بات مانتے ہیں آپ اِن کو سختی سے منع کر یں گے تو شراب نوشی نہیں کریں گے اب میں نے ایک ترکیب سوچھی اور راجہ صاحب کی بیگم سے کہا کہ جس دن یہ دوبارہ یہ غلطی کریں تو آپ نے اگلے دن مجھے فون کر کے بتا دینا ساتھ ہی بیگم صاحبہ کو ترکیب بھی بتا دی اب ہم دونوں انتظار کر نے لگے کیونکہ جس دن یہ دوستوں کی محفل میں جاتے اُس دن اکثر یہ گناہ کر کے واپس آتے تھے آخر وہ دن آگیا جب دوستوں نے پھر راجہ صاحب کو اِس گناہ پر مجبور کیا تو بیگم صاحبہ نے مجھے فون کر کے روتے ہو ئے بتایا بھائی جان آج یہ وہی حماقت کر کے رات کو آئے ہیں اب آپ سنبھال لیں اگلے دن حسب معمول جب راجہ صاحب اپنی رانی بیٹی کے ساتھ سڑک سے گزرتے ہوئے مجھے سلام کر کے گزرنے لگے تو میں پلان کے تحت سر سری سا جواب دے کر اپنے گھر کے اندر چلا گیا پہلے میں کچھ دیر رک کر گپ شپ لگا تا تھا اگلے دن بھی جب میں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو رات کو راجہ صاحب اکیلے میرے پاس تشریف لائے اور شرمندہ شرمندہ سا بولے جناب آپ سے بات کرنی ہے اور ساتھ میں چائے بھی پینی ہے تو میں اُن کو لے کر ڈرائینگ روم میں چلا آیا گھر سے چائے لوازمات آگئے تو راجہ صاحب بولے آپ مُجھ سے ناراض ہیں کل اور آج میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے روکھے لہجے میں جواب دیا پہلے والی گرم جوشی آشنائی نہیں تھی مُجھ سے کوئی غلطی گستاخی ہو گئی ہو تو میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں تو میں منصوبے کے مطابق بولا راجہ صاحب میں آپ کے گھر کو اپناگھر بھابھی کو بہن اور رانی بیٹی کو اپنی سگی بیٹی مانتا ہوں آپ کے دئیے ہوئے جائے نماز پر عبادت کر تا ہوں رات کو جب آپ کے لیے دعائیں کر رہا تھا تو مجھے رانی بیٹی بہت تکلیف میں نظر آئی پریشانی کی وجہ پوچھی تو انداز ہ ہو اکہ آپ نے پرسوں رات کوئی غلط کام یا گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے گھر پر برکت کے اثرات نہیں بلکہ نحوست کے سیاہ بادل نظرآرہے تھے آپ کو دیکھا تو آپ بھی ہوش میں نہیں بلکہ کسی نشے میں تھے آپ اﷲ والوں کی باتیں کرتے ہیں مُجھ فقیر سے بھی محبت کا دم بھرتے ہیں لیکن راتوں کو نشہ کر کے گھر آتے ہیں آپ کے اندر کہاں سے اتنی زیادہ ہمت آتی ہے کہ نشہ کر کے پاک نیک بیٹی کے سامنے آجاتے ہیں اُ س کو ہاتھ لگاتے ہیں یہ میرے لیے بہت شرم کی بات ہے میرا تیر عین نشانے پر لگا راجہ صاحب اِس کو میری کرامت یا کشف سمجھ رہے تھے اٹھ کر میرے قدموں میں گر نے کی کو شش کر نے لگے میں نے اٹھا کر صوفے پر بٹھا یا لیکن وہ زارقطارروئے جارہے تھے وہ میری روحانی کرامت یا کشف سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئے تھے بلک بلک کر روتے ہوئے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آج کے بعد وہ زندگی بھر کبھی شراب پینا تو دور کی بات ہے ہا تھ بھی نہیں لگائیں گے اور پھر انہو ں نے واقعی ساری عمر کسی بھی قسم کے نشے کو سونگھا تک نہیں اِس واقعے کے بعد میرااور راجہ صاحب کا تعلق بہت پکا اور گہرا ہو گیا ۔ اب ہمارے تعلقات کا نیا دور شروع ہو گیا اب وہ مُجھ گناہ گار مشت غبار کو کوئی نیک بندہ سمجھنا شروع ہو گئے تھے میں نے تو ان کی بیگم کے ساتھ مل کر یہ کھیل کھیلا تھاتاکہ وہ شراب چھوڑ دیں لیکن ہمارا یہ کھیل راجہ صاحب کی زندگی بد ل گیا اب انہوں نے ذوق شوق سے نماز کی پابندی ذکر اذکار جائے نماز پر وقت دینا شروع کر دیا تسبیح وہ پہلے بھی کرتے تھے لیکن اب پکے ارادے سے اﷲ کے ناموں کا ورد دن رات کر نا شروع کر دیا برائیوں سے تائب ہوئے تو تبدیل ہو کر رہ گئے ان کی یہ مثبت تبدیلی ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بہت حیرا ن کن تھی جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی اِس خوشگوار تبدیلی کی وجہ میں ہوں تو وہ بھی میرے پاس آنا شروع ہو گئے اب راجہ صاحب میرے اور قریب آگئے تو میں نے ایک خاص بات نوٹ کی کہ رانی بیٹی اور راجہ صاحب کی ایک دوسرے میں جان تھی یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے تھے راجہ صاحب آنے والے مختلف کرایوں کی وجہ سے گھر میں ہی ہو تے تھے صرف شام سے پہلے واک کے لیے گھر سے نکلتے تو رانی بیٹی کویہ تھوڑی سی جدائی بھی قبول نہ تھی رانی بیٹی کی کل کائنات باپ راجہ صاحب اور راجہ صاحب کی جنت دونوں جہاں رانی بیٹی تھی اب راجہ صاحب اکثر آتے ہوئے پکوڑے سموسے کوئی سویٹ ڈش بنا کر لے آتے جو میں اور راجہ صاحب چائے کے ساتھ نوش فرماتے اِ س دوران رانی بیٹی پھولوں پر منڈلاتی تتلیوں کے پیچھے چھلانگیں مارتی نظر آتی تھوڑے تھوڑے وقفے سے آ کر راجہ صاحب کو گلے مل جاتی کبھی چوم جاتی کبھی ہاتھ لگا جاتی رانی کا محبوب دوست اور ساتھی اُس کا باپ تھا دونوں کا رشتہ نہایت مثالی اور قابل رشک تھا اب میں نے بھی رانی بیٹی کا مشاہدہ کر نا شروع کیا پتہ چلا کہ وہ پیار محبت ایثار میں گندھی بچی ہے جو دن رات اپنے باپ سے محبت کا اظہار کر تی رہتی تھی ۔ اب کیونکہ راجہ صاحب مُجھ فقیر سے بے پناہ محبت کر نا شروع ہو گئے تھے اِس لیے اب میں بھی رانی کا آئیڈیل مر شد بابا جان تھا ایک دن راجہ صاحب نے میرے سامنے رانی سے کہا تمہارے مرشد بھٹی صاحب ہیں ساری زندگی اِن سے محبت عقیدت کر نا ہر کام اِن کے مشورے سے کرنا باپ کی بات رانی کے لیے پتھر پر لکیر تھی اب چونکہ راجہ صاحب رانی کو پیار سے رانی دیوانی کہا کر تے تھے بھٹی صاحب یہ میری رانی دیوانی بیٹی ہے جو دنیا میں مُجھ سے پیار کر نے کے لیے آئی ہے اب راجہ صاحب کی وجہ سے میں نے بھی رانی کو اصل نام کی بجائے رانی بیٹی رانی دیوانی کہنا شروع کر دیا وقت کا بے راس گھوڑا بھاگتا رہا پتہ نہیں کس وقت حق تعالی کو مُجھ گناہ گار میں کیا نظر آیا مُجھے خد مت خلق کے لیے چن لیا لوگوں کا ہجوم شروع ہوا تو راجہ صاحب بہت خوش ہوئے اب رانی بیٹی بھی بچپن کی دہلیز پار کر کے جوانی کے خواب نگر میں آگئی تھی لیکن باپ بیٹی کا رشتہ دیوانہ وار اُسی طرح جاری رہا جوانی کی امنگوں بھرے دور میں بھی رانی کو کسی جوان لڑکے میں کشش محسوس نہ ہوئی بلکہ وہ اب بھی باپ کے سائے کی طرح اُس کے ساتھ لپٹی رہتی رانی بیٹی کو باپ کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا رانی جوان ہو گئی تھی راجہ صاحب کو شادی کی فکر ہوئی تو رانی نے اعلان کر دیا باپ سے جدائی کا سوچ بھی نہیں سکتی بلکہ مر جائے گی لیکن باپ سے دور نہ ہو گی ۔ اِسی دوران میری ٹرانسفر مری سے لاہور ہو گئی اب راجہ صاحب ہر ماہ میرے پاس لاہور چکر لگانے لگے اور پرانی یادوں کو تازہ کر تے جب ہم مری میں گھنٹوں اکٹھا وقت گزارتے تھے ایک دن راجہ صاحب رانی بیٹی جو اب مکمل جواب مکمل جوان ہو چکی تھی کو لے کر لاہور میرے گھر تشریف لائے اور علیحدگی میں التجا یہ لہجے میں بولے یہ دنیا میں میرے بعد صرف آپ کی بات مانتی ہے اس کو سمجھائیں کہ شادی کے لیے مان جائے مجھے دو ہارٹ اٹیک ہو چکے ہیں تیسرا جان لیوا ہو گا اُس سے پہلے میں رانی کی شادی کر نا چاہتا ہوں لہذا میں نے رانی سے بات کر نے کا فیصلہ کیا ۔ ( جاری ہے )
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.