مطلب افراد کا ایک ایسا گروہ جو مشترکہ مفاد کے لیئے وجود
میں آتا ہے۔ معاشرہ افراد کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا - معاشرہ اجتماعی
زندگی کی اساس ہے - کسی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے
افراد کے فکروعمل میں ذہنی ہم آہنگی پائی جائے - جب معاشرے میں موجود افراد
کے مابین نظریات ٹکرا جائیں،اگر معاشرے میں تفرقات پیدا ہوجائیں تو اس
معاشرے کی جڑیں کمزور ہو کر مفلوج ہوجاتی ہیں تب اس معاشرے میں سڑاند پیدا
ہونی شروع ہو جاتی ہے اور ایسا بیہنگم گروہ کبھی بھی معاشرہ نہیں کہلائے گا
-
یہ تو طے ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے آپسی رقابتوں، رویوں،
نظریوں،کمزوریوں، حسد، جھوٹ بہتان، غینبت، شراب نوشی،رشوت چور بازاری اور
بیشُمار گندگی میں دھنستا آج کا انسان ثابت بھی کررہا ہے کہ وہ حیوان سے
کہیں بڑھ کر ہے۔
جبکہ ایک اسلامی معاشرے میں اسلامی زندگی، اسلامی اقدار کا تصور ریڑھ کی
ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے - جس میں خدا ترسی، ہمدردی، عدل، دیانت، اخوت،
مساوات، رواداری، کو بنیادی اہمیت حاصل ہے - لیکن تعفن زدہ گڑھوں کی پستی
میں گرتا انسان معاشرے کو ایک نئی سمت ایک نئی جہت سے روشناس کروا رہا ہے
جہاں معاشرہ '' کوٹھے '' کی شکل اختیار کرتا ہوا دلالی کو بامِ عروج پر
پہنچا رہا ہے - ایک چکلے سے مشابہ یہ معاشرہ جہاں عزتیں اور غیرتیں نیلام
ہو رہی ہیں - اچھائی اور برائی میں امتیاز نا ہونے برابر رہ گیا ہے - میڈیا
کی بدولت معاشرے میں رہن سہن کے اصول بدل گئے یں - اب کسی بھی نازیبا بات
پر بھائی / بہن سے اور باپ/ بیٹی سے نظریں نہیں چراتا بلکہ پوری ڈھٹائی سے
ہنسی مذاق میں بڑی سے بڑی بیحیائی کو مشاقی سے پی لیا جاتا ہے، کیونکہ ہم
'' جدید معاشرے '' کے پروردہ ہیں- جس معاشرے میں شیطانیت عروج کو پہنچ جائے
پھر وہاں سے قوموں کا زوال شروع ہوجاتا ہے اور الحمدﷲ ہم بڑی خوش اسلوبی سے
ترقی سے تنزلی کی جانب گامزن ہیں اور بڑے ہی شاداں و فرحاں ہیں۔۔
'' عدل''
عدل کی بات ہو اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ذکر نہ ہو یہ کیسے
ممکن ہے۔ میں فقط ایک ہی قصے پر اکتفا کروں گی جس سے واضح ہوتاہے '' عدل ''
کسے کہتے ہیں؟۔
حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ آگیا۔ آپ نے چور کے ہاتھ کاٹ
دینے کا حکم صادر فرمایا کہ اتنے میں عدالت میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ
نمودارہوئے۔ انہوں نے پوچھا کہ ’’اے خلیفۃ المسلمین! کیا آپ نے چوری کی وجہ
پوچھی؟‘‘ اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ’’نہیں‘‘ جواباً حضرت علی کرم اﷲ
وجہہ نے فرمایا کہ ’’پہلے چوری کی وجہ پوچھی جائے کیونکہ نان و نفقہ کا
بندوبست کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘‘ جب چورسے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا
کہ اس نے فاقوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کی ہے۔ اس جواب کے بعد اسکی سزا
کو معاف کردیا گیا۔
عدل کا مطلب ہے انصاف - آج کل انصاف وہ نہیں کہلاتا جو حضرت عمر فاروق رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کیا جاتا تھا -
بلکہ آج کل عدل کے معنی و مفہوم یکسر بدل چُکے ہیں - آج عدل سے مراد ہے
اعلیٰ حکومتی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی صرف دوچار ممالک میں جائیداد رکھنا،
بھرے پیٹ کے ساتھ غریبوں کے پیٹ پر لات مارنا، امراء کے بچوں کے لیئے اعلیٰ
تعلیمی ادارے قائم کرنا اور غریبوں کے بچوں کے لیے آج اِس دور میں بھی
بیٹھنے کے لیے ٹاٹ فراہم کردینا عدل کہلاتا ہے - اپنے علاج کے لیئے باہر کے
ملک کی راہ لینا اور ہم وطنوں کے لئے علاج معالجے کی سہولیات کا ناپید
ہونا، ادویات کا فُقدان ہونا عدل ہے -
عدل وہ ہے جو ایک پاکباز بیوی کے ہوتے ہوئے، اولادِ نرینہ کے ہوتے ہوئے،
مساوات سے یکسر انجان ہوتے ہوئے بھی دوسرا بیاہ رچا لینا کہ اﷲ نے اجازت دی
ہے - شادی ہی کر رہے ہیں جی کوئی گناہ تھوڑی - عدل وہ ہے جب بارسوخ امیر
کبیر باپ کا بیٹا گاڑی کے نیچے کسی کو روند ڈالے اور پرچہ کسی بھی جدی پشتی
خاندانی نمک خوار ملازم کے نام کٹوایا جائے کہ آخر نمک کھایا ہے اس ملازم
نے حق تو ادا کرنا ہے نا؟۔ اصل گنہ گار سینہ تانے پھرتے ہیں اور بیگناہ
سُولی پر چڑھے نظر آتے ہیں۔ سو یہ ٹھہرا عدل و انصاف۔ عدل کی ایک شِق سے تو
آپ قطعاً ناواقف ہیں -
بھائی کو لڑکی پسند آگئی خواہ وہ بہن کی دوست ہی کیوں نہ ہو - بہن سے دن
رات منتیں کر کینمبر لیا - بات چیت کی - میل ملاقات کی - ہر حد پھلانگ کر
جب دل بھرگیا تب تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے
کسی اور کی تلاش شروع کر ڈالی۔۔۔۔۔۔۔
اور بہن کے متعلق شُبہ بھی ہوگیا تو غیرت کے نام پر قتل کر دینا عدل و
انصاف کہلاتا ہے - موجودہ دور میں ہر شخص کو خود احتسابی کے کڑے عمل سے
گذرنے کی اشد ضرورت ہے۔
'' مظلوم ''
مظلوم کے لغوی معنیٰ ہیں '' ستایا ہوا '' ستم رسیدہ'' جس سے ناانصافی کی
گئی ہو۔
اب دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج کل مظلوم ہے کون؟۔۔
ہر دوسرا بندہ اپنا شُمار مظلوم ترین ہستی میں کیئے بیٹھا ہے۔
شوہر، بیوی پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے اور خود مظلومیت کا
رونا روتا ہے کہ سارا دن گدھوں کی طرح کام کرنے کے بعد گھر آؤ تو گھر میں
بیوی کی چخ چخ سے دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ بیوی شک کرتی ہے۔ بیوی نگرانی کرتی
ہے۔ بیوی پیسے پیسے کا حساب مانگتی ہے، گویا شوہر سے بڑھ کر کوئی مظلوم
نہیں۔
اسی طرح بیویوں نے شوہر کی نافرمانی پر کمر کسی ہوئی ہے۔ بنا اجازت باہر
آنا جانا۔ پارلر کے چکرلگانا۔ بیجا شاپنگ کرنا۔ شوہر کی ایک بات کے جواب
میں دس سنانا۔ میکے میں یا دوستوں سے شوہر کی نام نہاد سختی کے خود ساختہ
قصے سنانا۔ سسرال والوں کی غیبتیں کرنا۔ شوہر سے بات بات پر بیزاری کا
اظہار کرنا اورپھر خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے کہنا میرا شوہر مجھ پر
مظالم کے پہاڑ توڑتا ہے اسے تو اﷲ پوچھے گا۔
بچے ماں باپ کی بیجا روک ٹوک سے عاجز ضد میں ہر الٹا کام کر کے مظلوم بن
جاتے ہیں اور ماں باپ بچوں کے ہاتھوں بیوقوف بن کر مظلوموں کی فہرست میں
شامل ہیں۔
مالک نوکر پر ظلم کرتا ہے تو نوکر بھی ادھار نہیں رکھتا کہیں نہ کہیں ڈنڈی
مار کر بدلہ لے کر مظلومیت کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔
حکمران عوام پر مہنگائی اور لاقانونیت لاگو کرنے کے بعد بھی مظلوم کہلاتا
ہے اور عوام بطور احتجاج اپنی ہی املاک کو دہشت گردی کی نذر کرتے ہوئے
مظلوم بن جاتی ہے۔
غرض مظلومیت کے نام پر ہر شخص اپنا بدلہ خود لے رہا ہے اور جب بدلہ خود ہی
لے لیا تو آخرت میں کس منہ سے انصاف طلب کرو گے؟
ہمارا اسلام ہمیں ظلم کی ممانعت کرنا سکھاتا ہے لیکن افسوس ہم ظلم کا پرچار
کرتے ہیں۔ اور بھول جاتے ہیں کہ مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے اس دنیا میں بھی
اور آخرت میں بھی۔ ہم انسانیت کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتے جا
رہے ہیں - غریب طبقہ مظلوم ترین طبقہ ہے جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں
جن کے خوابوں کو یوں مسمار کیا جاتا ہے جیسے ریت پر بنے گھروندے کو سمندر
کی لہریں بہا کر لے جائیں۔۔
مظلوم تو حکومتِ وقت کے سامنے عوام ہے جو مختلف ٹیکسوں کی ادائیگی کے سلسلے
میں ہلکان ہوئی جاتی ہے۔ زرعی ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، بجلی اور گیس کا بل، اور
پیٹرول کے بوجھ تلے دبی جاتی ہے اور حکمران رشوت۔ چور بازاری، ناجائز
تجاوزات، اور مہنگائی کا بازار گرم کیئے بیٹھے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے
گا کہ اصل مظلوم ہے کون؟۔۔
|