بھارت میں اس وقت کوروناکی لہر تیزی کے ساتھ پھیل رہی
ہے،اس لہر میں ہر ذات ،مذہب ومسلک کے لوگ ہلاک ہوتے جارہے ہیں۔ان سنگین
حالات میں اکثر وبیشتر لوگوں کی حالت آتم نربھر یعنی خود انحصاری کے تحت
جو لوگ بچ سکتے ہیں وہیں بچ رہے ہیں۔کوئی کسی کا ہمدرد،ہمنوانہیں رہا،خصوصاً
حکومتی سطح پر مثبت رائے رکھنا بے وقوفی ہی ماناجاسکتاہے۔اس میں سے بھی
اقلیتوں کے تعلق سے حالات نہایت خستہ ہیں،کوئی اُمید نہیں کہ اقلیتوں کا
ہاتھ تھامنے کیلئے حکومتی امداد ملے۔اس وقت کرناٹک کی حکومت نے اقلیتوں کے
تعلق سے بھلاسوچانہیں ہے،البتہ مساجدکے علماء ،موذنین ودیگر علماء کے تعلق
سے کچھ بھلاسوچتے ہوئےریاستی وقف بورڈکے توسط سے 3 ہزار روپئے کی مالی
امداد دینے کافیصلہ کیاہے۔آج کے دورمیں یقیناً یہ3ہزار روپئے کوئی معنی
نہیں رکھتے اور نہ ہی ان3 ہزارروپیوں سے کسی کے گھر کا گذران بھی ممکن
ہے۔باوجود اس کے حکومت نے3 ہزار روپئے دینے کا فیصلہ کیاہے اور ان 3 ہزار
روپیوں کو لینے کیلئے کئی علماء نے عرضیاں دی ہیں۔صحیح معنوں میں یہ
کہاجاسکتاہے کہ ریاست کی حکومت نے ایک طرح سے مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ
کیاہےاور مسلم علماء کو3ہزار روپئے دیکر ناک کو شہد چٹایاہےاوریہ افسوسناک
بات ہے۔لیکن اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ علماء کی اس بدحالی کے دوران
ریاستی وقف بورڈ کو دریادلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا،لیکن وقف بورڈنے
ایسانہیں کیا۔بھلا بتائیے کہ کیسے کوئی3-4 ہزار روپئے میں زندگی گذار
سکتاہے۔درحقیقت آج وقف بورڈ کو مستقل منصوبے لانے کی اشدضرورت ہے،جس میں
علماء وموذنین کو ماہا نہ 3ہزار روپئے دینے کے بجائے علماء کی صحت بگڑنے پر
مکمل علاج کے اخراجات اٹھانے کیلئے منصوبہ بناناہوگا،اگر علماء فوت ہوجاتے
ہیں یاکسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں تو ان کے لواحقین کیلئے معقول مالی
امداد رائج کرنے کی ضرورت ہے۔علماء کے بچے زیرتعلیم ہیں تو انہیں وقف
بورڈکی طرف سے مالی امداددینے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں ریاست کےہرپن ہلی
تعلقہ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک امام کی طبیعت بگڑ گئی تھی اور ان
امام صاحب کاتعلق شمالی ہندسے تھا۔ابتداء میں کسی نے ان کی طبیعت پر توجہ
نہیں دی،بعدمیں جب طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو انہیں اسپتال میں داخل
کرایاگیا،جہاں پر خرچ بہت زیادہ تھا،لیکن خرچہ دینے والے کوئی نہیں
تھے،بلآخر امام صاحب کی موت واقع ہوئی،جس کے بعد ان کے کچھ چاہنے والوں نے
ان کی جسدخاکی کو ایک لاکھ روپئے خرچ کرتے ہوئے ان کے آبائی گائوں
پہنچایا۔سوال یہ ہے کہ اگر جیتے جی ان کو مالی امدادملی ہوتی تو کیا وہ
اچھے اسپتال علاج نہ کرواتے؟۔درحقیقت ہمارے یہاں زندہ لوگوں کوپریشانی میں
ساتھ دینے کے بجائے مرنے کے بعد ساتھ دینے والے بہت آجاتے ہیں۔پیٹ بھرنے
اور جسم ڈھانپنے کی جس وقت ضرورت پڑتی ہے تو اُس وقت تو کوئی نہیں آتا،جب
قبر بھرنے اور کفن ڈھانپنے کا وقت آتاہے تو ہر کوئی ثواب جاریہ سمجھ کر ہر
کوئی آگے آجاتاہے۔اصل میں احترام،خدمت اور ضرورت جتنی مردے کو ہوتی ہے
اُس سے کئی گنا زیادہ ضرورت زندوں کو ہوتی ہے۔وقف بورڈکے پاس کروڑوں روپیوں
کی املاک ہے،وہ چاہے تو علماء وموذنین کو اپنے بل بوتے پر تاحیات مالی
امداددے سکتاہے۔اب جو کچھ تنخواہیں اوقافی مساجدکے اماموں وموذنین کو دی
جارہی ہے وہ بہت ہی معمولی ہے مگر علماء کی بدقسمتی ہے کہ یہ پیسے بھی اکثر
صدروسکریٹری ہضم کرجارہے ہیں۔اگر مسلمان واقعی میں انبیاء کی میراث علماء
کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں اور وقف بورڈ کو چاہیے کہ وہ علماء
کیلئے اچھے منصوبے رائج کریں نہ کہ ایسے منصوبے جس سے ہونٹ بھی نہ
بھیگیں۔ریاستی وقف بورڈ کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور موجودہ
افسروں پر اس سمت میں دبائوڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔
|