ابلاغیات کا جنازہ

میڈیا یا ابلاغ عامہ ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے جسکا کام لوگوں کو آگاہی دینا، تعلیم پہنچانا اور ساتھ ہی معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ابلاغ عامہ کی تمام اشکال موجود ہیں جس میں پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ڑیجیٹل شامل ہیں ۔ بظاہر تو میڈیا کے اعراض و مقاصد نیک اور مفید ہیں مگر ہمارے ملک کے دوسرے اداروں کی طرح میڈیا کا ادارہ بھی اپنے فرائض و مقاصد کے برخلاف چل رہا ۔ اگر پاکستانی پرنٹ میڈیا کی بات کریں تو اسکی حالت الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا سے قدرے بہتر ہے ۔ چونکہ یہاں سب کچھ تحریری ہوتا ہے اسی لیے اخلاقیات کا تھوڑا بہت بھرم رہ جاتا ہےکیونکہ اخبار اگلے دن شائع ہوتا اسی لیے غیر ضروری مواد حذف کر دیا جاتا ہے ۔ مگر پیسوں کی دوڑ اور جھوٹی خبریں اس میں بھی شامل ہیں ۔ اخبارات محض پیسوں کے حصول کے لیے جعلی عامل بابوں سے لے کر غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات بھی شائع کرتے ہیں جنکا مقصد صرف عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے ۔ صرف پیسے کے لئے عوامی فلاح و آگاہی کے اشتہارات کو رد کر کے کرپٹ محکموں کے اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ایک اخبار نے جماعت اسلامی کے کے ۔ الیکٹرک مخالف اشتہار کو صرف اس بنیاد پر شائع نہیں کیا کیونکہ کے۔ الیکٹرک اس اخبار کو جماعت اسلامی کے مقابلے میں زیادہ پیسے دے رہی تھی۔ دوسری طرف اگر الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو اسکا حال بدحال ہے ۔ ریٹینگ کے چکر میں تمام تر مذہبی، اخلاقی اور سماجی قدرے پامال کی جارہی ہیں ۔ سیاسی ٹاک شوز میں مخالفین بسا اوقات ایسی بدزبانی سے کام لیتے ہیں جسکا تصور ہی شرمناک ہوتا ہے ۔ ٹی وی ڈراموں کے ذریعے نظریاتی سرحدوں کی پامالی عروج پر ہے ۔ پیمرا بھی اس قسم کے مواد کی روک تھام کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہا ہے جسکے نتائج بوائے فرینڈ و گرل فرینڈ اور فیمنیزم جیسے تصورات کی صورت میں برآمد ہورہے ہیں ۔ بات صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ کچھ چینلز تو مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں ۔ غیر جانبداری سے کام لینے کے بجائے کچھ چینلز حکومتی تو کچھ حزب اختلاف کے ترجمان معلوم ہوتے ہیں ۔ رہی سہی کسر وہ ٹی وی میزبان نکالتے ہیں جنھیں ابلاغیات کا کچھ علم نہیں ہوتا ، نہ انکے پاس معلومات ہوتی ہیں اور نہ ہی صحیح اردو بول سکتے ہیں ۔ یوں الیکٹرانک میڈیا آج کل ہر پہلو سے تنزلی کا شکار ہے ۔ اب ابلاغ عامہ کی جدید اور نئی شکل ڈیجیٹل میڈیا کی بات کرتے ہیں جو الیکٹرانک میڈیا سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکا ہے ۔ ڈیجیٹل میڈیا کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ دکھائی دے رہے ہیں ۔ ڈیجیٹل میڈیا پر گردش کرنے والی زیادہ تر خبریں جھوٹی ہوتی ہیں ۔ اسکی تازہ مثال حالیہ اسرائیلی جارحیت ہے جس میں کچھ ڈیجیٹل میڈیا چینلز نے پاک فوج کو اسرائیل پر حملہ آور کردیا تھا جبکہ کچھ چینلز تو دو ہاتھ آگے نکل کر اسرائیل کے خلاف میزائل بھی نصب کرکے اور تل ابیب کو تباہ کر بیٹھے تھے ۔ یہ تو ایک مثال ہے جبکہ ڈیجیٹل میڈیا ایسی کئی جھوٹی خبروں سے بھرا پڑا ہے ۔ یوٹیوب چینلز سے پیسے کمانے کی ہوس میں لوگ اندھا دھند جھوٹ کا بیوپار کر رہے ہیں ۔ یوٹیوب چینلز کے ٹیکرز اور سرخیاں کچھ اور ہوتی ہیں مگر جب ویڈیو کھولی جائے تو اندر سے کچھ اور نکلتا ہے ۔ بغیر تحقیق کے دوسروں کی کردار کشی کی جاتی ہے جو جذباتی اور بیانک سانحات کو جنم دیتا ہے ۔ میڈیا کے منفی کردار کی یہ تو صرف چند جھلکیاں ہیں۔ طوالت کے سبب دیگر موضوعات کو جگہ نہیں دے رہا وگرنہ پاکستانی میڈیا کے منفی کردار پر تو کئی ضیغم کتب تحریر کی جاسکتی ہیں ۔ پاکستانی میڈیا اگر اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا کرتا تو آج ہمارا ملک و معاشرہ کئی مسائل سے بچ سکتا تھا ۔ اب بھی ہم اس نہج پر نہیں پہنچے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام خامیوں کے باوجود بھی ہمارے میڈیا سے کئی مخلص ، سنجیدہ اور ذمہ دار افراد وابستہ ہیں ۔ ایسے افراد کو آگے بڑھ کر میڈیا کے مثبت استعمال کو ممکن بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ سچائی ، حقائق اور مذہبی و سماجی قدروں پر مبنی مواد عوام تک پہنچایا جائے ۔
 

Babar Ayaz
About the Author: Babar Ayaz Read More Articles by Babar Ayaz: 19 Articles with 16224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.