جنت ماں کے قدموں تلے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم تھااور مہینہ میں دو تین بار سیالکوٹ کا چکر لگایا کرتا تھا۔میری آمد پر گھر کا سارامنظر بالکل بدل جاتا تھا۔خاموش فضا میں نغمے گونجنے لگتے تھے ، درو دیوار سے قہقہوں کی صدائیں سنائی دینے لگتی تھیں، ہاسوں اور خوشیوں کے پھول کھل جاتے تھے اور ایسے لگتا تھا کہ میرے بغیر یہ گھر خاموشی ،اداسی اور تنہائی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے ۔ میری موجودگی نہ صرف زندگی کی رمق کا احساس دلاتی تھی بلکہ والدین کے افسردہ چہرو ں پر مسرتوں کے رنگ بھرنے کا معجزہ بھی سر انجام دیتی تھی ۔والی بال سے مجھے عشق کی حد تک لگاؤ تھا لہذا جیسے ہی گھر پہنچتا سب سے پہلے والی بال گراؤنڈ میں رونق افروز ہوتا۔ایک طرف صوفی ادریس احمد قریشی، خالد محمود فاروقی اور صغیر احمد قریشی کی دوستی کی خوشبو مجھے اپنی جانب کھینچتی تو دوسری طرف عابد حسین قریشی ،عبدالکریم بٹ ،محمد سلیم بٹ،جعفر رضا ،مظہر حیات شیر پنجہ ،جاوید پاشا اور دوسرے کھلاڑی میرے منتظر ہو تے تھے لہذا میری آمد سے والی بال گراونڈ کی رونقیں ایک دفعہ پھر پورے جوبن پر آ جاتیں ،جوش و جذبہ عود آتا اوررعنائیوں کی محفل سج جاتی ۔ محبت کا ایسا دل آویز چلن دیکھنے کو ملتاکہ روح وجد میں آ جاتی۔ہر سو دوستی،محبت ،چاہت اور اپنائیت کی کلیاں کھل اٹھتیں ۔ خزاں میں بھی بہار کے رنگ نظر آنے لگتے ۔ جی چاہتاتھا کہ یہ لمحے یوں ہی قائم و دائم رہیں اور یاروں کی دلکش ادائیں اس کائینات کا حسن قرارپائیں لیکن وہ جس نے جدائی اور وچھوڑے کا موسم بھی تخلیق کیا ہوا ہے ایسا نہیں ہونے دیتا ہے۔اپنے بچھڑ جاتے ہیں جن کی کسک دلِ ناتواں کو جان لیوا بھنور کے حوالے کر دیتی ہے۔ دھوپ چھاؤں کا یہ کھیل انسان کی زندگی کے ساتھ ہی انجام پذیرہوتا ہے۔ (بازیچہِ اطفال ہے دنیا میرے آگے ۔،۔ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے)۔،۔

میری آمد پر میری والدہ کی خوشی دیدنی ہو تی تھی۔وہ لب سے تو کچھ نہیں کہتی تھیں لیکن ان کے من میں محبت کا جو طوفان ٹھاٹھیں ماررہا ہوتا تھا وہ ان کے افعال سے منعکس ہو تا تھا۔ان کی آنکھوں میں چمک کا ایک ایساجہاں آباد ہوجا تا تھا جس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ابھی تک وہ پیمانہ ایجاد نہیں ہوا جوماں کے لا محدود اور لازوال جذبوں کی مکمل عکاسی کر سکے ۔ والدین سے محبت تو فطری عمل ہے لہذا ان کے سائے میں زندگی کا سبھاؤ الگ ہو تا ہے ۔ان کے زیرِ سایہ ہر سو بے فکری ، لا ابا لی پن اور رنگوں کی حسین دنیا جگمگ جگمگ کرتی ہے ۔جس کی ماں زندہ ہے اسے کوئی فکر دامن گیر نہیں ہونی چائیے کیونکہ ماں دعائے نیم شبی میں اپنی سسکیوں ، آہوں ،مناجات اور آنسوؤں سے قضا کے تیروں کا رخ موڑ کر زمانے کی ساری بلاؤں کو بھسم کر دیتی ہے۔ میرے دوست عباس تابش کا شعر ممتا کے جذبوں پر حرفِ آخر ہے ( ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش ۔،۔ اک بار کہا تھا میں نے، مجھے ڈر لگتا ہے)ماں اس دھرتی کا سب سے بڑا سچ ہے جو ایثار کا پیکر ہو نے کی جہت سے اپنا سب کچھ اپنی اولاد پر قربان کر نے کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتی ہے ۔ یاد رکھو ماں اپنے ظاہری خدو خال سے نہیں ،اپنے قد کاٹھ سے نہیں، اپنے حسن و جمال سے نہیں،اپنی رعنائی سے نہیں ،اپنی نزاکت سے نہیں، اپنی دلکشی سے نہیں،اپنی جاذبیت سے نہیں ، اپنے علم و عرفان سے نہیں ، اپنی اعلی تعلیم سے نہیں،اور نہ ہی اپنے اعلی لباس سے مقامِ ممتا پرفائز ہوتی ہے بلکہ ماں اپنی اس عظمت کی بدولت اولاد کے دل میں جاں گزین ہوتی ہے جس میں ایثار اور قربانی کا لازوال جذبہ ٹھا ٹھیں مارتاہے(یاد سے تیر ی دلِ درد آشنا معمور ہے ۔،۔جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے)۔خود بھوکا رہ کر اولاد کونعمائے زندگی سے سرفراز کرناممتا کی شان ہو تی ہے جو ربِ کریم کواتنی پسند آئی کہ خود کو بھی ماں سے تشبیہہ دے ڈالی ۔ اسی لئے تو مولائے کائنات ﷺ نے اپنی زبانِ مبارکہ سے اعلان فرما دیا کہ (جنت ماں کے قدموں تلے ہے)یہ ایک ایسا اعلان ہے جس میں ماں کی ساری عظمت،شان ،رفعت اور تقدس پو شیدہ ہے اور جو اس راز کو پا گیا اس کی کشتی کنارے پر لگ گئی ۔میں اپنی ماں کی عظمت کو سلام پیش کرنے کیلئے اسے روزدیکھتا تھا لیکن پھر بھی تشنہ ہی رہا ۔انگنت شب و روز ممتا کی گود میں گزارے لیکن پھر بھی ممتا کو دیکھنے کی تشنگی ختم نہ ہوسکی ۔یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ فیض نے تو کہا تھا( نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش۔۔ دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا ) لیکن اگر ہم سلطان باہو کی بات کریں تو وہ کہتا ہے کہ (لوں لوں دے وچ لکھ لکھ چشماں،اک کھولاں اک کجاں ھو ) گویاکہ لاکھوں آنکھوں کا مل کر تکنا بھی دلِ بیتاب کو ماں کی دید سے سیراب نہیں کر سکتا ،تشنگی گھٹ نہیں سکتی اور ممتا کی گود میں سر رکھ کرسد ا جینے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔ انسان کا ایک ایک انگ ماں کے وجود کی گواہی دیتا ہے لہذا اسے دیکھنے کی حسرت کبھی ختم نہیں ہوتی ۔انسان ہرمشکل،ہر آزمائش،ہر مصیبت اور ہر امتحان میں اپنی ماں کو پکارتا ہے جوماں کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے لہذا ایک مضمون میں ممتا کی عظمت کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ (ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے ۔،۔ سفینہ چائیے اس بحرِ بیکراں کیلئے۔،۔

میری ماں ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن ان میں خوداری اور استغنا اتنا زیادہ تھا کہ انھوں نے کبھی اپنے باپ کی زمینوں اور مربعو ں پر فخر نہیں کیاتھا ۔ماں کو اپنا وقار ،احترام اورتقدس ہر حال میں عزیز تھا لہذا انھوں نے اپنے والد شالم خاں بھٹی کے سامنے بھی کبھی دستِ سوال دراز نہیں کیاتھا۔ جن کے دلوں میں استغناء کا نور بھر جائے روشنی ان کا مقدر ضرور بنتی ہے۔ماں کی امیدیں اپنی اولاد کے ساتھ وابستہ تھیں اور وہ انہی سے اس کائنات میں کامیابیوں کامرانیوں اور خوشیوں کی دولت سمیٹنا چاہتی تھیں ۔ماں نے یہ دولت سمیٹی،خوشخالی اورفارغ البالی ممتا کا مقدر بنی، خوشیوں کی کہکشاں ما ں کے آنگن میں اتری لیکن ماں پھر بھی صابرو شاکر رہی ۔میری ماں ایک با وقار،سنجیدہ،دلیر اور با ہمت خاتو ن تھیں جھنوں نے ہمیں خوداری سے جینے کا درس دیا ۔غیبت،حسد،کینہ پروری جیسی کسی منفی سوچ کا میری ماں کی زندگی میں کوئی گزر نہیں تھا۔وہ ایک با وقار خاتون تھیں جن کی گھٹی میں انسانیت کی تکریم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ کم گو تھیں لیکن فیصلہ کرنے میں انھیں ملکہ حاصل تھاکیونکہ ان کا شعوری افق بہت بلند تھا ۔ علامہ اقبال نے اپنی والدہ کی یاد میں یہ شعر لکھ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے (کس کو ہو گا اب وطن میں آہ میرا انتظار ۔، ۔ کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار) یہ شعرممتا کی ساری بے قراریوں کا اظہار ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ماں کے علاوہ کوئی انسان انتظار کے معنوں سے آشنا نہیں ہوتا ۔ ماں کی بے قراریوں کواہلِ دل ہی محسوس کر سکتے ہیں۔رنگ بدلتی دنیا میں دلی مراد یں پانے کیلئے ضرور ی ہوتا ہے کہ ممتا کی خوشنودی کی خاطرمتاعِِ جاں کو لٹا یا جائے کیونکہ کچھ لٹانے کے بعد ہی تو اصلی محبت کی گہرائی کا احساس ہو تا ہے۔ محبت میں لٹا یا گیا مال ہی اصلی سرمایہ ہوتا ہے لیکن اکثر کو اس کی خبر نہیں ہو تی۔جو لٹانا نہیں جانتا وہ پاتا بھی نہیں جانتا ۔محبت میں لٹانا ضروری ہو تا ہے وگرنہ وہ نا پختہ رہتی ہے۔جن کیلئے ماں مکہ مدینہ کا مقام رکھتی ہے ا ور جو اپنی ماں کی خوشنودی کی خاطر اپنا تن من دھن لٹانے کا جذبہ رکھتے ہیں ان کی دلی دعا یہی ہوتی ہے کہ ( آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے ۔سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے)دورِ حاضر میں ما ں کو مقامِ بلند پر فائز کرنا غیر معمولی معرکہ ہے جسے وفورِ عشق سے ہی سرکیا جا سکتا ہے ۔بقولِ اقبال (عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولین عشق ۔ ،۔عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہِ تصورات)سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطبے ﷺکا یہ فرمانا کہ حالتِ نماز میں اگر میری ماں مجھے محمدﷺ کہہ کر پکارتیں تو میں نماز توڑ کر ان کا حکم بجا لاتا ایک ایسا اعلان ہے جس نے ماں کی عظمت کو چار چاند لگا کر عرشِ معلی تک پہنچا دیا ہے۔مسجدِقرطبہ میں لکھی گئی علامہ اقبال کی دعا شائد اسی مخفی راز کو کھول رہی ہے۔ گہرائی میں جائیے اور وجد میں آ جائیے ۔ ،۔

(ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو۔،۔ میری نواؤں میں ہے مرے جگر کا لہو)۔،۔(صحبتِ اہلِ صفا نورو حضورو سرور ۔،۔ سرخوش و پر سوز ہے لالہ لبِ آب جو )۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.