یاک کی دلچسپ کہانی

حالیہ دنوں چین کے علاقے تبت میں قیام کے دوران مختلف دلچسپ موضوعات کو سمجھنے کا موقع ملا اور کئی منفرد کہانیوں سے آشنائی ہوئی۔انہیں کہانیوں میں یاک بھی شامل ہے۔پہلی بات جو پتہ چلی کہ یاک انگریزی زبان کا لفظ نہیں ہے ۔انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ یاک دراصل چین کی تبتی زبان سے لیا گیا ہے۔ یاک کا شمار قدیم گھریلو جانداروں میں کیا جاتا ہے جو چین سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بھی پایا جاتا ہے۔یاک کو تبت کے سماج میں اہم ترین جاندار کا درجہ حاصل ہے۔ یاک یہاں دودھ ،گوشت کے حصول سمیت باربرداری،کھیتی باڑی اور دیگر گھریلو کاموں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ تبتی لوگوں کی یاک سے گہری محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تبت میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ "یاک اور تبتی شہریوں کا وجود لازم و ملزوم ہے "۔

یاک کی تاریخ انتہائی قدیم ہے اور بتایا جاتا ہے کہ آج سے پچیس سے تیس لاکھ سال قبل یاک یوریشا خطے میں نظر آئے۔ ابتداء میں ان کا شمار جنگلی حیات میں کیا جاتا تھا جبکہ بعد میں چینی سماج میں یاک کو سدھایا گیا اور اسے ایک گھریلو جاندار کے طور پر گھروں میں رکھا گیا۔آہستہ آہستہ یاک دیگر گھریلو جانداروں کے ساتھ گھل مل گئے اور گھریلو کاموں میں مدد فراہم کرنے لگے۔ تبت میں آج بھی ایک تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں یاک کو کھلے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور لوگ یاک سے اپنی عقیدت کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔

افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ یاک کی بعض اقسام معدوم ہو چکی ہیں اور اکثر معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں جن میں سنہرے رنگ کا یاک بھی شامل ہے۔یاک کی یہ قسم صرف برفانی علاقوں میں سطح سمندر سے پانچ ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پرہی زندہ رہ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے یاک کی مجموعی تعداد دو سو سے بھی کم رہ گئی ہے۔ چین میں یاک کی بقاء اور تحفظ کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے اور یاک کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔تبت میں یاک میوزیم کے دورے کے دوران یاک کے ایسے ڈھانچے بھی دیکھنے کو ملے جو پینتالیس ہزار سال قدیم ہیں۔یاک کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ سطح سمندر سے انتہائی بلند مقام پر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔چار سے چھ ہزار میٹر بلندی انتہائی موزوں ہے وگرنہ یہ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ تبت کی پر امن آزادی کے سفر میں بھی یاک نے اہم کردار ادا کیا اور چینی کارکنوں ،کسانوں اور ریڈ آرمی کی تاریخی لانگ مارچ میں بھی یاک کے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے جس کی بدولت تبت جیسے دشوار گزار علاقے میں داخلہ ممکن ہو پایا۔یاک کے چمڑے سے بنی مختلف مصنوعات بھی تبتی سماج میں انتہائی مقبول ہیں، اس کے علاوہ بیوٹی مصنوعات میں بھی یاک کا دودھ استعمال کیا جاتا ہے۔تبت میں کہا جاتا ہے کہ یاک کا پورا جسم ہی ایک قیمتی خزانہ ہے۔ یاک کی کھال ،بال ، گوشت ،دودھ ،ہڈیاں ،سینگ حتیٰ کہ یاک کا گوبر بھی تبتی طرز زندگی میں مختلف اعتبار سے استعمال کیا جاتا ہے۔یاک مصنوعات کو تبت میں مختلف ادویات کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
قدیم وقتوں میں یاک کے چمڑے سے چھوٹی کشتیاں بھی بنائی جاتی تھیں جن میں چھ سے آٹھ لوگ باآسانی سفر کرتے تھے۔ تبت کے لوگ برفباری کے دوران دیگر سامان کی منتقلی کے ساتھ ساتھ نمکین جھیلوں سے نمک نکالنے اور ترسیل کے لیے بھی یاک سے مدد لیتے تھے۔ تبتی سماج میں آج بھی یاک کی افزائش کو خصوصی اہمیت دی جاتی تھی اور گھر کے ایک لازمی فرد کی مانند یاک کا خیال رکھا جاتا ہے۔یاک کے کھانے پینے سے لے کر سجاوٹ تک ہر چیز لازمی ہے۔سیاح جب تبت آتے ہیں تو اُن کی یاک سے ملاقات بھی کروائی جاتی ہے ۔یاک کے ساتھ یادگار ملاقات اور تصویر اتارنے کے لیے آپ کو دس یوان خرچ کرنا ہوں گے ،تب آپ یاک کی سواری سے لطف اٹھا سکتے ہیں ۔اس طرح آج یاک تبت کے باشندوں کے لیے سیاحت کی بدولت آمدن کا بھی مفید ذریعہ ہے۔یہ بات اچھی ہے کہ چین میں یاک کے تحفظ کی کوششیں انتہائی عمدہ ہیں اور یاک کا تحفظ باقاعدہ سائنسی تحقیق کا حصہ ہے۔

یاک کی افزائش کے حوالے سے پتہ چلا کہ نر اور مادہ یاک کے ملاپ کا بہترین وقت ستمبر ہے اور مادہ یاک نو ماہ بعد ایک بچے کو جنم دیتی ہے ۔خوراک کے حوالے سے یاک برفانی پہاڑی علاقوں میں خودرو جڑیں بوٹیاں اور گھاس کھاتے ہیں ، ان میں بعض جڑیں بوٹیاں انتہائی نایاب اور قیمتی ہیں جو صرف برفانی علاقے میں ہی اگتی ہیں۔ یاک کی جسمانی ساخت کئی اعتبار سے بیل، گائے اور بھینس سے مختلف ہے جو اسے انتہائی شدید موسم میں بھی زندہ رکھتی ہے۔ یاک اونٹ کی مانند مضبوط جسم کا حامل ہوتا ہے اور شدید برفباری میں بھی گزارا کر لیتا ہے۔

مجموعی طور پر یاک کی نوے فیصد آبادی تبت سمیت چین کے مختلف علاقوں میں موجود ہے ، بقیہ ممالک میں منگولیا ،قاذقستان ،کرغزستان ،تاجکستان ،افغانستان ،پاکستان، بھارت ،نیپال اور بھوٹان شامل ہیں جہاں یاک کی دس فیصد آبادی موجود ہے۔ اس نایاب جانور کے تحفظ کے لیے چین سمیت دیگر ممالک کی کوششیں بھی درکار ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616369 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More