زندگی کے نشیب و فراز

قرآن پاک میں اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ ہم جس انسان کی عمردراز کرتے ہیں اس کی بساعت الٹ دیتے ہیں ۔اس کاتو صاف مطلب ہے کہ وہ جسمانی اعضا جن پر جوانی میں ناز کیا جاتا تھا ،عمرڈھلتے ہی اس قدر بے جان ہو جائیں گے ،کہ دوڑنا تو دور کی بات ہے زمین پر پاؤں رکھ کر چلنا بھی محال ہو جاتا ہے ۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ غربت کے اس زمانے میں جب میرے والد پاکستان ریلوے میں کیبن مین /شنٹنگ پورٹرکی حیثیت سے ملازم تھے تو ان کی تنخواہ اتنی کم تھی کہ گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی خرچے پورے نہیں ہو سکتے تھے ۔چنانچہ والد صاحب اپنی ڈیوٹی کے علاوہ ریلوے بوگیوں سے لدی ہوئی لکڑیاں اتارنا کا کام شروع کردیا ، اس وقت لکڑیوں سے بھری ہوئی ریل کی بوگی( جس میں ایک ہزار من تو لکڑیاں ہونگی ) خالی کرنے کے عوض شام ڈھلے ہمیں صرف تین روپے ملا کرتے تھے جس پر ہمارا پورا خاندان خوشی خوشی گھر چلے آتا ۔ والد صاحب کے ساتھ ساتھ ، دوبڑے بھائی( رمضان اور اکرم) اور میں بھی ان کی مدد کیا کرتا تھا، میرے پاؤں کی انگلیاں آج بھی ان زخموں کی یادیں تازہ کرتی ہیں ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے ۔گھر کا چولہے میں جلانے کے لیے لکڑیاں پھاڑنا اور موسم برسات کے لیے سوکھی لکڑیوں کا ذخیرہ کرنا بھی ہمارے معمولات میں شامل تھا ۔میں جن دنوں کی بات کررہا ہوں ان دنوں سوئی گیس کا تصور بھی نہیں تھا ۔

جب میں شاید آٹھویں یا نویں میں پڑھتا ہوں گا۔میرا بڑا بھائی اکرم جس کے دلچسپی تعلیم حاصلِ کرنے کی جانب ہرگز نہیں تھی ، وہ پتنگ اڑانے اور کٹی پتنگوں کو دوڑ کر پکڑنے کا بے حد شوقین تھا ۔ نشانہ ٹھیک ہونے کی بنا پر اسے اخروٹ کھیلنے کا فن بھی خوب آتا تھا، جبکہ رنگ برنگے بانٹوں کا کھیل دائیں ہاتھ کی انگلی سے کھیلا جاتا ہے ،اس کھیل میں بھی بھائی اکرم اپنی مہارت کا خوب اظہار کرتا ۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوتا کہ ہم دونوں گھر سے سکول کی جانب جا رہے ہوتے تو راستے میں کٹی پتنگ ہچکولے کھاتی ہوئی دکھائی دیتی تو بھائی اکرم اپنا بستہ مجھے پکڑا کرخود پتنگ کے پیچھے دوڑ پڑتا اور مجھے حکم دے جاتا کہ جب تک میں واپس نہیں آجاتا اس وقت تک تم نے یہاں سے ہلنا نہیں ہے ۔بھائی اکرم چونکہ مجھ سے بڑے تھے پھر غصہ بھی ان کے ناک پر دھرا رہتا تھا ۔اس لیے میں ان کی حکم عدولی سے ہمیشہ اجتناب ہی کرتا اوراگر کبھی خلاف ورزی ہو بھی جاتی تو وہ مجھے خوب پیٹتا اور میں روتا ہوا گھر آکر والدہ کو بتاتا تو والدہ اس کو خوب پھینٹی لگاتیں ۔ سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں ،لیکن والد صاحب نے بھائی اکرم کو ریلوے میں کچا پانی والا بھرتی کروا دیا ۔ہر بڑے اسٹیشن پر ایک پکا پانی والا ہوا کرتا تھا جبکہ ایک کچا پانی والا بطور خاص گرمیوں کے موسم میں سپیشل بھرتی کیا جاتا جس کی ملازمت کا دورانیہ صرف تین چار مہینے ہی ہوا کرتا تھا ۔کسی کو دے دلا کر بھائی اکرم کچا پانی والا بھرتی تو ہوگیا لیکن ملازمت پر کھڑا ہونے کے بعد ہی اسے ٹائیفائیڈ کا بخا ر چڑھ گیا یہ بخار اس قدر موذی تھا کہ انسان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیتا تھا۔جسم کی رہی سہی طاقت بھی ختم کردیتا تھا ۔بھائی اکرم کے بیمار ہونے کے بعد والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے(اسلم ) سکول سے گرمیوں کی دو ماہ کی چھٹیاں تو ہوچکی ہیں ،کیا ہی اچھا ہو کہ اسلم ( مجھے ) بھائی اکرم کی جگہ کچلا پانی والا بنا دیں ۔ والدین کے حکم پر میں ایک بالٹی تھوڑی سی برف ڈال کی دو تین گلا س ہاتھ میں پکڑے اور جو بھی ٹرین لاہور کینٹ اسٹیشن پر رکتی ،میں پہلے سے منتظر ہوتا اور بھاگ بھاگ کر ٹرین میں سوار پیاسے مسافروں کو ٹھنڈا پانی پلاتا ۔ خیبرمیل ، تیزگام ، چشم آہو ،تیزرو،جیسی تیزرفتار ٹرینوں کے مسافر بطور خاص گرمی کے موسم میں بہت پانی مانگا کرتے تھے ۔اس دوران میں نے محسوس کیا کہ کچا پانی والا کے فرائض میں صرف مسافروں کو پانی پلانا ہی نہیں ہوتا بلکہ اسٹیشن ماسٹر اور اے ایس ایم کے گھروں ریل گاڑی میں سوار ہوکر جو دودھ فروخت کرنے والے دودھی آتے ،ان سے مفت دودھ لے کر اسٹیشن ماسٹر اور اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹروں کے گھروں میں بھی پہنچانا میرے فرائض میں شامل تھا ۔پکا پانی والا محمد بشیر تھا جس کی ایک آنکھ خراب تھی ، رہتا تو وہ ہمارے ہی کوارٹر کے ساتھ تھا لیکن وہ مجھ پر بہت رعب جھاڑتا ۔کیونکہ وہ پکا پانی والا تھا اور میں کچا پانی والا۔

میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد والدین نے یہ کہہ کر آگے پڑھنے سے روک دیا کہ اتنی ہی تعلیم کافی ہے ۔اور ملازمت کی تلاش کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہوگئی ۔ ایک شخص کی مہربانی سے پائلٹ انجنیئرنگ لمیٹڈ ( یہ سلائی مشینیں بنانے والی فیکٹری تھی )60روپے ماہانہ پر مجھے ملازمت مل گئی ۔ وہاں میرے فرائض میں سلائی مشینوں کی ہتھی میں لگنے والے بڑے سے پیچ میں جھریاں ڈالنا شامل تھا۔صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بھرپور کام کرنے کے باوجود جب چھٹی کا وقت ہونے لگتا تو ایک تسلہ بھر کر پیچوں کا یہ کہتے ہوئے میرے سپرد کردیا جاتا کہ ان پیچوں میں بھی جھریا ں ڈال کر چھٹی کرنا ۔گویا اضافی کام کرتے کرتے رات کے آٹھ بج جاتے ۔جو کپڑے پہن کر ہم یہ کام کرتے وہ توپہلے ہی سیاہ ہوچکے تھے ،میرے چہرے ، ہاتھوں اور پاؤں کا رنگ بھی کالا ہوتا جارہا تھا ، صبح سویرے ماں ایک کپڑے میں روٹی اور اچار باندھ دیتی جو دوپہر کو میں کھا کر رب کا شکر ادا لیتا ۔زندگی اس قدر مشکل اور دشوار راستوں سے گزر رہی تھی ،کئی بار ذہن میں یہ خیال ابھرتا کہ ہمارے والدین چونکہ غریب ہیں ،پھر ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ، شاید ساری عمر ہماری اسی طرح محنت مزدوری کرتے ہی گزر جائے گی ۔لیکن شاید قدرت کی جانب سے یہ ہمارا امتحان تھا ۔جو ہیکو آئس کریم کی فیکٹری مجھے لوڈر کی ملازمت مل گئی ۔فریج کا تصور اس وقت نہیں تھا ۔شہر میں جہاں جہاں آئس کریم فروخت کے لیے رکھی جاتی وہ لکڑی کی ایک بڑی سی پیٹی میں ہوا کرتی تھی جس کے چاروں اطراف برف کے پیڈ چوبیس گھنٹے تک آئس کریم کو جمائے رکھتے ۔برف کے یہ پیڈ ہیکو آئس کریم کی فیکٹری کے ایسے کیمیکل تالاب میں برف کی شکل اختیار کرتے ۔ اس زمانے میں کولنگ ٹینگ میں برف جمانے کے لیے بھاری کیمیکل مشینری استعمال کی جاتی تھی ۔اس کولنگ ٹینک سے برف جمے پیڈ نکال کر رکشے میں لکڑی کی بند پیٹی میں محفوظ کرنا اورپھر پورے شہر میں آئس کریم پارلر کے مقامات پر جا کر وہ پیڈ لگانا اور پگھلے ہوئے پیڈ نکال کر فیکٹری واپس لانا اور پھر کولنگ ٹینک میں ان پگھلے ہوئے پیڈوں کو دوبارہ لگانا میری ذمہ داری ہوا کرتی تھی ۔ڈیوٹی تو آٹھ گھنٹے بتائی گئی تھی لیکن سولہ سولہ گھنٹے مسلسل کام کرکے میری کمر دوہری ہوجاتی ۔تنخواہ وہاں بھی شاید 80روپے تھی ۔میرے کپڑے چونکہ کیلشیم سے بھرے ہوتے اس لیے مجھے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ ایک مرتبہ شپنگ آفس کے کرسی پر میں غلطی سے بیٹھ گیا تو حکومت حسین جو شپنگ کلرک تھے وہ مجھ پر غصے بھی ہوئے اور کرسی سے اٹھا کر باہر بینچ پر بیٹھنے کا حکم بھی انہوں نے دے دیا۔ایک دن میرے پاؤں پر برف کا پیڈ گر گیا جس سے میرے پاؤں کے انگوٹھے میں شدید درد ہورہا تھا ،اس لمحے شپنگ کلرک نے گھنٹی مار کر مجھے بلایا میں درد کی وجہ سے جلدی نہ پہنچ سکا تو وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آئے اور مجھے کان سے پکڑ کر کہا تم نے نوکری کرنی ہے یا نہیں ۔میں گھنٹی بجا رہا ہوں اور تم گھنٹی سن کر کیوں نہیں پہنچے ۔میں نے کہا سر میرے پاؤں پربرف کا پیڈ گرا ہے جس سے مجھے شدید تکلیف ہورہی ہے یہی وجہ تھی کہ میں گھنٹی سن کر آپ کی خدمت میں حاضر نہیں سکا۔ معذرت خواہ ہوں۔

ایک مرتبہ رکشے پر ہم برف کے پیڈ لگانے شہر کی جانب نکلے جب شاہ عالم مارکیٹ پہنچے تو رکشا خراب ہو گیا ۔اب رکشے کو دھکا لگانا میرے ذمہ داری میں شامل تھا ۔شاہ عالم مارکیٹ سے رکشے کو دھکا لگا لگا کر میں رات کے بارہ بجے گلبرگ تھرڈ میں واقعہ فیکٹری پہنچا ۔اس وقت میری حالت غیر تھی اور مجھے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔ یہ گرمیوں کی رات تھی پسینے سے پورا جسم نہا رہا تھا ۔

جب مشکلات حد سے بڑھ جائیں تو قدرت بھی مہربان ہو جاتی ہے ، ایک دوست عبدالرزاق خاں مجھے اردو مرکزی بورڈ لے گیا، جہاں اس وقت اشفاق احمد ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے، وہاں سے اردو ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ کر لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے "تعلیم بالغاں"کے پندرہ روزہ خدمت میں ساتویں سکیل میں سٹینو گرافر کی ملازمت مل گئی ۔اسی ملازمت کے دوران کریسنٹ کالج اچھرہ لاہور سے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔چند سال بعد شبلی کالج گڑھی شاہو سے تیاری کرکے بی اے کا امتحان دیا ۔اﷲ کے فضل سے کامیابی حاصل ہوئی ۔جب قدرت مہربان ہوتی ہے تو ترقی کے راستے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں ۔کچھ مہینے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان ، پندرہ سال پنجاب ترقیاتی بورڈ میں بطور اردو سیٹنوگرافر ملازمت کی ۔ 1994ء میں بنک آف پنجاب میں بطور اردو سٹینو گرافر بھرتی ہوگیا ۔20سال بنک آف پنجاب میں ملازمت کرنے کے بعد 3دسمبر 2014کو بنک سے ریٹائر ہوگیا ۔

زندگی کے بہترین 45سال ہر چھوٹی بڑی ملازمت کرنے کے بعد میں جسمانی طور پر بوڑھا ہوچکا ہوں ۔پہلے مجھے گھٹنوں کے درد نے بے حال کیا ۔ہومیوپیتھک ڈاکٹر ، مستند حکیموں اور ڈاکٹروں کو بار بار چیک کروانے کے باوجود گھٹنوں کا درد نہ ختم ہوا اور نہ ہی کم ہوا ۔ڈاکٹر ذکا اﷲ گھمن کی تشخیص کردہ ادویات تو استعمال کرتا رہا لیکن جب درد زیادہ بڑھ گیا تو ایک دن ڈاکٹر جمشید جسا والا کے کلینک جا پہنچا ۔ انہیں صورت حال سے آگا ہ کیااور بتایا کہ دونوں گھٹنوں درد کا شدید احساس رہتا ہے ، ادویات کے استعمال کے باوجود کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے میری بات سننے کے بعد کہا پھر آپ اپنے گھٹنے تبدیل کروا لیں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ڈاکٹر جمشید کی بات سن کر میں سوچ میں پڑگیا اور سوچنے لگا کیا یہ کسی گاڑی گھٹنے ہیں، جو تبدیل ہوسکتے ہیں ۔میں نے گھٹنوں کے آپریشن کے بارے میں سنا تو تھا لیکن گھٹنوں کے آپریشن کا تصور کرکے ہی پریشان ہوجاتا ،ڈاکٹر کیسے ہڈیوں کو کاٹیں گے اور کیسے مصنوعی گھٹنے اوپر اور نیچے والی ہڈیوں سے جوڑیں گے ،یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔کچھ معالجین نے گھٹنوں میں درد کی وجہ وزن میں اضافہ قرار دیا ۔ان کا اصرار تھا کہ صبح کی سیر لازمی کی جائے اور دو تین کلومیٹر روزانہ چلنے کے ساتھ ساتھ ورزش بھی کی جائے ۔وزن کم ہونے کے بعد گھٹنوں کا درد خودبخود کم ہوجائے گا۔میں نے جواب دیا کہ مجھ سے تو صحیح طریقے سے چلا بھی نہیں جاتا اور آپ کہتے ہیں کہ دو تین کلومیٹر روزانہ واک کی جائے ۔اس کا تو ایک ہی حل ہے کہ میرے پیچھے کتے لگوا دیں ،ہوسکتا ہے جان بچانے کے لیے بھاگ پڑوں ۔میری اس بات پر وہ ہنس پڑے اور معاملہ پھر وہیں رکا رہا ۔

مسلسل صبح و شام پین کلر ٹیبلٹ کھاتا رہا ، 2005ء میں پین کلر ٹیبلٹ کھانے کی وجہ سے ایک دن میرے دونوں کانوں نے سننا بند کردیا ۔پہلے گھٹنوں نے پریشان کررکھا تھا اب کانوں کی بیماری نے بے حال کردیا ۔حسن اتفاق سے میں اس وقت بنک آف پنجاب میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر کی حیثیت سے جاب کررہا تھا ،بنک کے نئے پریذیڈنٹ کے آنے کے بعدمیں اس اہم ترین عہدے پر فائز ہوا تھا ۔میری ذمہ داری میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے توسط سے بنک کے تمام اشتہارات کا اجرا کرنا اور قومی اخبارات میں ان کی اشاعت یقینی بنانا شامل تھا ۔ بنک کے پریس ریلیز تیارکر نا اور اسے تمام اخبارات میں شائع کرانا بھی میری ہی ذمہ داری تھی ۔ ہر صبح لاہور سے شائع ہونے والے اردو انگلش اخبارات کو گہری نگاہ سے پڑھنا ،اپنے اور دوسرے بنکوں کے حوالے سے وہ خبریں ، تجزیئے ، سٹیٹ بنک کی جانب سے وقتا فوقتا جو ایڈوائز جاری ہوتی تھی ، اسے بنک مینجمنٹ کے سامنے ایک فائل بناکر پیش کرنا ۔چونکہ پنجاب بنک ، حکومت پنجاب کا بنک کہلاتا تھا کیونکہ اس کے 51فیصد شیئر حکومت پنجاب کے پاس تھے ، یہ بنک 1989ء میں میاں نواز شریف کے دور وزارت اعلی میں اس وقت پنجاب اسمبلی کے ایک آرڈی ننس کے ذریعے قائم کیا گیا تھا جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی چیرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم کی حیثیت سے عہدے پر براجمان تھی ۔ میں نے 1994ء میں بنک میں ملازمت کا آغاز کیا تھا ،لیکن ابتدا میں بنک کے شیئر ،سٹاک ایکس چینج میں سب سے نمایا ں اور قیمتی تصور کیا جاتا تھا یہ بنک کے پہلے چیرمین تجمل حسین اور ڈاکٹر محمد عارف کے محنتوں کا ثمر تھا ۔

بہرکیف بات کچھ لمبی ہوگئی ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے بنک کو جو احکامات جاری کیے جاتے ، اور وزارت فنانس حکومت پاکستان کے وقتا فوقتا پالیسیاں جو اخبارات میں شائع ہوتیں، انہیں اخبارات میں تلاش کرکے ایک فائل تیار کی جاتی ۔ بنک میڈیا کوارڈی نیٹرکے دستخطوں سے بنک کے ایم ڈی (اور بعد میں یہ عہدہ پریذیڈیٹ کہلانے لگا)کو پیش کی جاتی ۔ان کے بعد یہ فائل بنک کے تمام جنرل منیجروں کو باری باری بجھوائی جاتی ۔جب تمام جی ایم کے دستخط ہو جاتے تو وہ فائل میرے پاس واپس آجاتی ۔میں اس پریس کلپنگ کو ایک باکس فائل میں محفوظ کرلیتا ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے میڈیا کوارڈی نیٹر کا عہدہ اس قدر اہم تصور کیا جاتا تھا کہ معمولی سی غلطی بھی ناقابل یقین نقصان پہنچا سکتی تھی ۔پھر بنک کی نئی سکیموں اور پالیسیوں کا احاطہ کرنے والے مضامین بھی تیار کرنا میری ذمہ داری تھی جس میں بنک کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اخبارات پڑھنے والوں کو بنک پالیسیوں سے آگاہی فراہم کرنا ہوتی تھے ۔اس حالت میں جبکہ مجھے گھٹنوں کے درد نے بے حال کررکھا تھا ، قوت سماعت نے بھی جواب دے دیا ۔کچھ بد دماغ افسروں نے قوت سماعت کی کمی کی وجہ مجھے برا بھلا بھی کہا لیکن اچھے افسروں کی بھی کمی نہ تھی جو بات کرنے کے بعد مجھ سے پوچھ لیتے کہ آپ کو بات سمجھ آگئی ہے یا نہیں ۔ اگر میں انکار کرتا تو وہ مجھے لکھ کر بتا دیتے۔ایسے نیک دل افسروں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔ زندگی کے واقعات تو بیشمار ہیں ان کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 672541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.