ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

مہوش کرن (اسلام آباد)
11 سال سے میں سمجھتی چلی آ رہی تھی کہ تم ایک ابنارمل انسان ہو۔ ایسا انسان اس دنیا میں بھلا کیسے سیٹ ہو سکتا ہے۔ مجھے لگتا تھا ایسی سوچ تمہیں سب سے الگ کر دے گی اور تم پچھتاؤ گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج میں اپنے اوپر پچھتا رہی ہوں اور تم مجھے ایک نہایت کامیاب انسان لگتی ہو۔ ایک ایسی عورت جو اپنے فیصلے اور عمل پر ڈٹی رہی اور آج ان حالات میں سرخرو ہوئی۔ وہ بڑے رشک سے کہہ رہی تھی۔ ’’میں کوئی اکیلی تو نہیں ہوں، جانے ایسے کتنے لوگ چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے عاجزی سے جواب دیا تھا۔ ’’ہاں یقیناً ہوں گے، لیکن میری تنگ نظری نے جب تمہیں سامنے موجود ہونے کے باوجود نہ پہچانا تو اور کسی کو کیسے دیکھتی۔‘‘ اس کے لہجے میں شرمندگی تھی۔

’’ہاں شاید یہی وجہ ہو، ورنہ مجھے تو کئی لوگ ایسے ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ تم تو میرے گیارہ سال کا حوالہ دے رہی ہو جب کہ میں تو 18 اور 20 سال سے یہ جہاد کرنے والوں کی ساتھی بن کر سوچتی ہوں کہ میں نے کتنی دیر کر دی۔‘‘ میرے لہجے سے حسرت عیاں تھی۔ ’’یوں نہ کہو، تم نے کہاں دیر کی۔ البتہ آج ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے نظریں ملاتے شرم آتی ہے۔ تم اس شرمندگی سے بچ گئی۔ تم جوابدہ ہونے سے بچ گئی۔ تم ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی رہی۔ تم نے وہ سب کیسے کیا؟ میں سوچتی ہوں کہ اگر میں آج اور ابھی سے ہی وہ سب کرنے لگوں تو کیا مجھے بھی اسی طرح ڈھیروں سال لگیں گے۔ جبکہ جتنے عرصے تم ان چیزوں سے دور رہی ہو اتنے عرصے میں خود ان چیزوں کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔ مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کے جسموں کا رواں رواں ان کے ناموں سے جکڑا ہوا ہے۔ ہماری خواہشات کا نشہ ان کے سامان سے پورا ہوتا ہے۔ ہماری ضروریات کے ٹکڑے بھیک کی صورت ان کے کشکول میں پڑے ہیں اور بدلے میں انہوں نے ہمیں کیا دیا۔ ہائے کیسی شرمندگی سی شرمندگی ہے۔

تم نے کہا تھا کہ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس دنیا کے لیے معیار بنا لیں یا اگلے جہان کے لیے معیار کا تعین کر لیں۔ مجھ سے اکیلے نہیں ہو پائے گا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں اور شاید میرا ایمان بھی اتنا مضبوط نہیں۔ معیار کے اس تعین میں کیا تم میری مدد کرو گی؟‘‘ وہ بڑی امید سے پوچھ رہی تھی۔ میں اسے کیسے انکار کر سکتی تھی۔ آخر کو وہ میرے بچپن کی سہیلی ہے اور یہ گفتگو اس نے مجھ سے حال ہی میں یہودی پراڈکٹس چھوڑنے کے حوالے سے کی تھی، لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ مسئلہ تو میری کسی بھی بہن کو ہو سکتا ہے۔ تو کیوں نہ ایک بہن کے بجائے بہت ساری بہنوں کی مدد کی جائے بلکہ یہ پوسٹ جس جس تک پہنچے اس کی مدد ہو جائے۔ جو ریسرچ اور محنت میں نے اتنے سال لگا کر کی ہے کیوں نہ اس سے بڑے پیمانے پر سب کو فائدہ ہو جائے۔ آج ہر طرف بات ہوتی ہے کہ یہودی پراڈکٹس چھوڑ دی جائیں لیکن پھر یہ سوال بنتا ہے ان کی جگہ کیا استعمال کیا جائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کم از کم خاص یہودیوں کی چیزیں چھوڑ دیں باقی باہر کی کوئی چیز ہو تو استعمال کر لیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب چھوڑ ہی رہیں ہیں تو ہمت کر کے سب کچھ ہی ایک ساتھ چھوڑ دیں، کیونکہ بعض پراڈکٹس بظاہر یہودی کمپنی کی نہیں بھی ہوتی تو بھی اس کے مالکان میں کوئی نہ کوئی یہودی ضرور ہوتا ہے۔ یا پھر کوئی غیر ملکی کمپنی یہودیوں کی کسی بڑی برانڈ کے زیر دست کام کر رہی ہوتی ہے، جیسے کہ میبیلین کاسمیٹکس دراصل لوریل پیرس کے زیرِ تحت کام کرتی ہے۔ یعنی یہ ہر جگہ اندر اندر تک موجود ہیں اور ان کے جال سے بچنا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مسلم ممالک کی پراڈکٹس بھی ہیں لیکن ان ممالک کی یہودیوں سے دوستی اور یہاں تک کہ بھارت سے تعلقات بھی اچھی علامات نہیں۔ جی ہاں میں صرف یہودی نہیں بلکہ ہندوستانی پراڈکٹس کا بائیکاٹ بھی کر چکی ہوں اور آپ کو بھی کھلے دل سے دعوت دیتی ہوں۔ اس لیے بہتر ہے کہ جو بے شمار پاکستانی (مگر قادیانی ہرگز نہ ہو) پراڈکٹس موجود ہیں ان ہی کو استعمال کریں البتہ یہ مسئلہ ضرور ہے کہ ان کی پرموشن نہیں ہوتی یا شاید کرنے نہیں دی جاتی۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں ’’خواتین کے میک اپ‘‘ کی تو دو بڑی مشہور اور بھروسہ مند برانڈز عتیقہ اوڈھو کاسمیٹکس اور مسرت مصباح کاسمیٹکس سالوں سے موجود ہیں۔ ذاتی استعمال کی زنانہ ٹوائلٹریز کے لیے بھی پاکستانی فیکٹری کی تیار کردہ چیزیں موجود ہیں۔ کریم اور لوشن وغیرہ یا فیس واش کے لیے سعید غنی کی بڑی رینج موجود ہے جن کی قیمتیں بھی نہایت مناسب ہیں۔ بالوں کے رنگ کے لیے بھی ان کی مہندی کی رینج موجود ہے۔ البتہ دیگر پاکستانی ہئر ڈائی کمپنی میں کوالٹی اتنی اچھی نہیں ہوتی اس لیے براؤن اور لال مہندی کو ملا کر اسٹائلش شیڈ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اورگینک پراڈکٹس کے طور پر بہت سی کریم، صابن اور شیمپو وغیرہ اب سوشل میڈیا پر بکتے ہوئے با آسانی مل جاتے ہیں۔ ان کی قیمت تھوڑی زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ تسلی ہوتی ہے کہ صاف ماحول میں بنی ہوئی چیزیں ہوں گی۔ اسی طرح بے بی پراڈکٹس کے لیے جونسن اینڈ جونسن کے بجائے ہوم میڈ رینج میں مل جاتی ہیں۔ بیوٹی سوپ کے لیے کیپری کے علاوہ اظہر کارپوریشن کا حور سوپ موجود ہے اور سلک سوپ بھی ہے۔ ساتھ ہی وہ آرگینک صابن موجود ہیں جو آپ آن لائن آرڈر کر سکتے ہیں۔ چائے پتی تو کئی ایک پاکستانی موجود ہیں جس کا ذائقہ لپٹن سے ہزار گنا بہتر ہے۔ کافی بھی نیس کیفے کے بجائے کھلی گرینیولز کی صورت میں مل جاتی ہے اور ذائقے دار ہوتی ہے۔

برتن دھونے کا صابن اور پاؤڈر صوفی کمپنی کا صابون کے نام سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیزیں بھی بہت سے لوگ پہلے بھی نجی طور پر بنا رہے تھے جس میں ’’سپر برائٹ‘‘ میرے اپنے جاننے والے بناتے ہیں۔ ان کی پروڈکٹس میں برتن دھونے کا صابن، پاؤڈر، لیکویڈ ڈش واش، لیکویڈ ہینڈ واش، سپونج، سکورر، جھاواں، گرین پیڈ موجود ہے۔ اب نئے حالات کے بعد بہت سے نئے لوگوں نے بھی بنانا شروع کیا ہے۔ کپڑے دھونے کا ڈٹرجنٹ بھی اظر کارپوریشن کا گائے ایکسٹرا نیٹ ہے جو کہ قیمت میں نہایت کم ہے لیکن دھلائی میں ٹھیک ٹھاک ہے۔ اس کے علاوہ گائے پاور واش ہے جو قیمت میں مناسب اور کوالٹی میں سپریم ہے۔ گائے کے سوپ اور سویاں ہمارے بچپن سے موجود ہیں، ان کا اشتہار بھی شاید آپ کو یاد ہو۔ لیکن ظاہر ہے عام طور پر یہ دونوں چیزیں کچھ جھنجھٹ اور کچھ تیز بو کی وجہ سے ہمارے جیسے گھروں میں استعمال نہیں ہوتی، لیکن یہ دونوں پاؤڈر یقیناً بے دھڑک استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ جب آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں گے تو گائے پاؤر واش کا کافی لمبا ’’ٹیلیویژن کمرشل‘‘ بھی نظر آئے گا۔ جس میں میڈیا کی مشہور ماڈل و اداکار دکھائی دے گی اور آج کل کے مشہور گلوگار بھی سنائی دیں گے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان پاکستانی پراڈکٹس کی پروموشن نہیں کی جاتی اور ٹی وی پر ان یہودی پراڈکٹس کے اشتہار چلنا نہیں رکتے۔ بہرحال ہمیں تو وہ دیکھنا ہے کہ جو ہم اپنے طور پر کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ صوفی کا سپریم واشنگ پاؤڈر جو کہ اورنج پیکٹ میں آتا ہے اور دوسرا صوفی کا ٹوئن ڈٹرجنٹ ہے جو کہ گلابی رنگ کے پیکٹ میں ہوتا ہے۔ دونوں کی نہایت مناسب قیمت ہے، جس سے نہ صرف کپڑوں کو صفائی بلکہ پیاری خوشبو بھی مل جاتی ہے۔ دیگر میں ہیرو واشنگ پاؤڈر، ونٹر واشنگ پاؤڈر، نمبر ون واشنگ پاؤڈر وغیرہ شامل ہیں۔ باتھ روم دھونے کے لیے ہارپک کے بجائے ہیرو کی مکمل رینج موجود ہے۔ جس میں کموڈ دھونے کا لیکیوڈ سے لے کر خوشبو دار فلور کلینر تک موجود ہے اور کنگ کیمیکلز کی بھی چیزیں آتی ہیں۔ مورٹین کے بجائے مچھروں اور کیڑے مکوڑوں کی ادویات کے لیے کنگ کیمیکلز کی پوری رینج موجود ہے جس میں اسپرے، کوائل، لیکور، میٹس، وغیرہ موجود ہیں۔ آٹومیٹک یا ٹاپ لوڈ مشینوں میں کپڑے دھونے کے لیے لیکویڈ ڈٹرجنٹ پر چونکہ میں نے حال میں ہی تحقیق شروع کی ہے سو کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتی۔ لیکن، ان شاء اﷲ! جلد ہی آپ سب کے ساتھ ضرور شیئر کروں گی۔

انتہائی اہم نکتہ ذہن میں رکھیے گا۔ چھوٹے شہروں میں تو یہ چیزیں دکانوں پر مل جاتی ہیں لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ کاسمیٹکس اور اسکن کیئر کی چیزوں کے علاوہ میں نے جن چیزوں کا ذکر اوپر کیا ہے، وہ آپ کے ضلع یا بڑے شہر میں دستیاب نہ ہوں گی۔ یا آپ کے بڑے علاقے میں آس پاس کی دکانوں اور اسٹورز پر رکھی ہوئی نظر نہیں آئیں گی، تو پریشان مت ہوں وہ چیزیں آپ با آسانی ’’دراز‘‘ سے آرڈر کر کے گھر پر منگوا سکتے ہیں۔ میں بھی یہی کرتی ہوں۔ کرونا کے بعد سے چیزیں آن لائن منگوانا تو ویسے بھی اب ایک عام سی بات ہو چکی ہے اور کیا بچہ کیا بڑا سب یہ کام بخوبی کر لیتے ہیں۔

باقی کھانے پینے کی چیزوں کے لیے تو بہت سا نعمل البدل موجود ہے۔ کولڈ ڈرنکس اور پیک فوڈ سے اپنی صحت کی خاطر ویسے ہی اجتناب کرنا چاہیے، لیکن جہاد کی نیت سے اجتناب کریں گے تو یقیناً ثواب بھی ملے گا۔ ساتھ ہی کچھ پیک فوڈ میں حلال یا حرام کا مسئلہ آڑے آتا ہے کہ آیا گوشت ٹھیک طرح ذبح ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ دکانوں پر جو گوشت ہے اس کا بھی نہیں پتا تو بے شک آپ اک حد تک ٹھیک ہیں لیکن غلط میں بھی نہیں۔ ذرا بتائیں تو کیا بچوں یا اپنے چپس کا شوق ایک حد میں رہتے ہوئے کرلیز، سپر کرپس، چیری بال، چیٹی چنز، کریکرز، وغیرہ سے پورا نہیں کیا جا سکتا ہے؟ کیوں صرف اور صرف لیز اور ویویز کھانے سے ہی شوق پورا ہوتا ہے۔ اب خود اندازہ کریں۔ کیسا نشہ ہے جو صرف اسی کو کھانے سے پورا ہوتا ہے؟ اس لیے جو کر سکتے ہیں وہ کرنے کی ٹھان لیں۔

یقین کریں اپنوں کے ساتھ روڈ کے کنارے بیٹھ کر برگر، رول یا تکہ کھانے میں جو مزہ آتا ہے۔ کے ایف سی، میکڈونلڈز یا پیزا ہٹ کے اندر بیٹھ کر بھی اتنا مزا نہیں آتا۔ یا اگر اتنا آ بھی جاتا ہو گا تو اس سے زیادہ بہرحال نہیں آئے گا، لیکن اس مزے سے کیا ملے گا جسے حاصل کرنے کے لیے آپ نے لاحاصل کے پیچھے چلنا شروع کر دیا ہو اور زندگی کا مقصد صرف نفس کی تسکین ہی رہ گیا ہو۔ اگر کوالٹی کا اتنا ہی مسئلہ ہے تو کسی ہوم کچن سے آرڈر کروا لیں لیکن اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کا گوشت تو نہ کھائیں، ان کا خون تو نہ پیئیں۔ اپنے مزوں کے بدلے ان کے لیے گولی تو نہ خریدیں۔

دشمنوں نے جن عیاشیوں کی لت آپ کو لگا دی ہے بدلے میں ہمارے ہی معصوم و مجبور بہن بھائیوں سے زندگی کی ہر ایک بنیادی ضروریات تک چھین لی ہیں اور وہ صرف و صرف اپنے ایمان کی مضبوطی پر انتہائی معمولی وسائل میں نہ صرف زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ہمہ وقت جہاد بھی کر رہے ہیں۔ سلام ہے ان سب پر لیکن ہمارا کام صرف باتیں بگاڑنا نہیں ہے، کیونکہ اب خالی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ ہم تلوار لے کر جہاد کرنے نہیں جا سکتے لیکن اگر ہم دین کے لیے بڑے بڑے کام نہیں کر سکتے تو دل چھوٹا نہ کریں بلکہ ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے کام جمع کر لیں اور یقین کریں چھوٹے ہی سہی لیکن ان کاموں کو کر کے جو بہت سکون نصیب ہو گا اور زندگی جو یک دم آسان ہو جائے گی، وہ آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ شروع میں لگے گا لیکن درحقیقت یہ سب ناممکن تو کیا مشکل بھی نہیں۔ بس اپنے عشق کے ساتھ آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑیں کہ اگر انسان ہمت کرے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔


 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.