نشہ ایک لعنت ہے

7 دسمبر 1987 کو جنرل اسمبلی نے ایک بین الاقوامی معاشرے کے حصول کے لئے 26 جون کو منشیات کے ناجائز استعمال اور غیرقانونی اسمگلنگ یا عالمی منشیات کے استعمال سے پاک ہو کو عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا.

آج اقوام متحدہ منشیات کے استعمال اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف بین الاقوامی دن کو دنیا بھر کی حکومتیں منا رہی ہیں۔

دنیا میں منشیات کے مسئلے کے موثر حل کے لیے ممالک کو مجرمانہ انصاف ، صحت اور سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ جوابدہ اداروں کی ضرورت ہے۔ منشیات کے کنٹرول سے متعلق بین الاقوامی کنونشنوں ، انسانی حقوق کی ذمہ داریوں اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے مطابق مربوط حل فراہم کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے اور ہر سال پوری دنیا میں مختلف تنظیمیں اس عالمی مشاہدے میں شامل ہوجاتی ہیں تاکہ اس بڑے مسئلے سے آگاہی حاصل کی جاسکے جو ناجائز منشیات سے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یوں ہم دنیا میں منشیات کے مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کو عالمی مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے جس پر قابو پانے کے اپنے کنونشنوں کے ذریعے اقوام متحدہ کا مقصد بین الاقوامی معاشرے کو منشیات کے استعمال سے پاک بنانے کے لئے اقدامات اور تعاون کو مستحکم کرنا ہے۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نشے کے عادی افراد نشے کے ساتھ جدوجہد نہیں کرسکتے اور نشہ ان کے چاہنے والوں کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے جس سے معاشرے کا سب سے اہم اور قیمتی اثاثہ یعنی انسانی وسائل کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے۔

پاکستان میں نشہ کے علاج معالجے کی تلاش نہ کرنے کی سب سے عام وجہ ناقابل برداشت اخراجات ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ مل کر علاج معالجے کے دستیاب مراکز کی شدید کمی اور منشیات کے استعمال کی خرابی میں مبتلا افراد کی طویل مدتی نگہداشت ہے.

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کے مطابق کچھ ترقی پذیر ممالک نشے کی عادت کی شرح میں ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے 30 سالوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں کا جرم کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی لت کو پورا کرنے کے لئے جرم کرتے ہیں۔

منشیات کا عادی شخص اپنے خاندان کے لئے نہ تو فعال کردار ادا کرسکتا ہے اور نہ ہی ملک کی بہتری کے لئے اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ منشیات کی فروخت پر پابندی لگائے اور فروخت کرنے والوں کا کریک ڈاؤن کر کے سخت ترین کارروائی کرے اور معاشرے کو زیادہ نقصان پہنچنے سے پہلے پہلے اس مسئلے پر قابو پالے۔

خاص طور پر تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ نسلیں اس شر سے محفوظ رہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ کم عمر کے بیشتر بچے منشیات اس لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے سکون ملتا ہے۔ والدین کو ان کے سامنے اور پیٹھ کے پیچھے نگرانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچے کیا کر رہے ہیں اور کہاں سے آ رہے ہیں۔

انہیں اپنے بچوں کو جیب خرچ کی محدود رقم دی جائے کیونکہ اگر زیادہ رقم دیں تو بچے اسے خطرناک سرگرمیوں جیسا کہ منشیات کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

بہت سے لوگ اس سرگرمی میں اس لیے بھی حصہ لیتے ہیں کیونکہ وہ اداکاروں کو ٹی وی ڈراموں میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ یہ ٹھیک کام ہے۔

طلباء کے مستقبل کی خاطر ذرائع ابلاغ کو منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
 

Rizwan Tahir chohan
About the Author: Rizwan Tahir chohan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.