زارا: "امی کالج کے فارم آگئے ہیں ابو کو بولو نا مجھے
داخلہ لینے دیں۔ "
امّاں: "چپ کر جاؤ! تمہارے باپ نے داخلے کا سنا تو تمہاری زبان کھینچ لیں
گے, خالدہ آپا کی نظر میں ایک اچھا رشتہ ہے تمہارے لیے۔ شام میں آئیں گے وہ
لوگ تمہیں دیکھنے"۔
زارا: "لیکن اماں مجھے ابھی شادی نہیں کرنی پڑھنا ہے آگے۔"...
امّاں: "تم نے بھی اپنی ماں کی طرح باورچی خانہ اور بچے سنبھالنے ہیں۔
لڑکیوں کا پڑھ لکھ کے دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ چپ کر کے شام میں تیار ہو
جانا! ہم تمہارے فرض سے جلدی سپردوش ہونا چاہتے ہیں بس!۔
اور بس ایسی کئی زارا، تعمیری و تخلیقی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود والدین کی
ضد کے آگے سرخ جوڑے میں لِپٹ کر اپنے خوابوں کے ادھورے رہ جانے کا ماتم
کرتی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ رواج اب ہر گھر میں عام ہے۔ ہمارے معاشرے میں عجیب و
غریب کلچر ہے لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں تیار ہو جاؤ!! اسے ختم ہونا چاہیے۔
آپ لوگوں کی بیٹی ہے یا شوپیز؟ جسکو بھی پسند آجائیں بس وہ لے جائے۔ ہمارے
بڑے بلوغت کے فوراً بعد سے بچیوں کے ذہن میں ٹھونس دیتے ہیں کہ لڑکی صرف
شادی اور بچے جننے کے لیے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر دوسرے گھر کا ہے کہ ایک لڑکی
تھی اسکی شادی ہوگئی اس نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی اور اگر تعلیم مکمل کر
بھی لی تو اسنے کوئی جاب نہیں کی، کیریئر اور شناخت نہیں بنائی۔ بالآخر ہوا
یہ کہ شوہر اور سسرال والے ظالم نکل آئے، بچے ہو گئے اور وہ ساری زندگی
بچوں کیلئے ذہنی و جسمانی ٹارچر برداشت کرتی رہی۔
جب لڑکیاں اپنے شناخت نہیں بناتی اپنی تعلیم مکمل نہیں کرتی۔ اسکے شدید
معاشی اور گھریلو اثرات دیکھنے میں آتے ہیں۔
گھریلو اثرات جیسے کہ؛
ہمارے گھر کا جو سربراہ ہوتا ہے وہ پوری فیملی کی کفالت کرتا ہے۔ زیادہ تر
لوگ لڑکوں پر انوسٹ کرتے ہیں وہ اپنی بچیوں کو میٹرک تک پڑھاتے ہیں اسکے
بعد انہیں انکی شادی کی فکر لگ جاتی ہے اور اگر نا بھی لگے تو گھر کی
عورتیں اتنا پریشر دیتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی جہیز جمع کرنے لگ جاتا ہے۔
اسکے بعد بھی گیرنٹی نہیں ہے کہ بچی کی قسمت اچھی ہوگی یا نہیں۔ میرا ماننا
ہے کہ قسمت ان لوگوں کی اچھی ہوتی ہے جو محنت کرتے ہیں ۔ قسمت آپ کے ایکشن
سے اچھی ہوتی ہے۔ اسی بحث میں اقبال کا ایک شعر یاد آیا؛
یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے،
جو ہے راہ عمل میں گامزن، وہی محبوبِ فطرت ہے
سماج کی تشکیل و ارتقاء میں مردوں کے علاؤہ عورتیں بھی نمایاں کردار ادا
کرتی ہیں۔ جب عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو بچوں پر اسکی تعلیم و تربیت کے
اثرات دیکھنے میں آتے ہیں. ایک دانا نے کیا خوب کہا؛ ایک تعلیم یافتہ مرد
کی تعلیم صرف ایک فرد تک ہوتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ عورت کئی نسلیں سنوار
دیتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم آجکل کے دور میں بہت ضروری ہے کیونکہ مہنگائی کے
اس طوفان میں ایک تعلیم یافتہ خاتون کم از کم اپنے بچوں کو گھر میں ابتدائی
تعلیم تو دے سکتی ہے جس سے ٹیوشن جیسی بیماری سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے۔
لحاظہ لڑکیوں کو اپنی قسمت خود سنوارنے دیں۔ انکے ہاتھ پیلے کرنے کے بجائے
قلم پکڑا کر انہیں معاشرے کا چمکتا ستارہ بنائیں۔خواتین کی شناخت شادی سے
پہلے بننی چاہئیے۔
خواتین کی خواندگی کا معاشی حالات پر اثرات کا سرسری جائزہ:
پاکستان کی 49٪ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ آسکا مطلب آگر ہمارے ملک کی
آبادی 22 کڑور کی ہے تو لکھ بکھ 11 کروڑ آبادی عورتوں کی ہے۔ اسکے باوجود
لیبر فورس میں مردوں کے مقابلے عورتوں کی شراکت صرف 24٪ ہے۔
اب اگر بیروزگاری کی شرح کی بات کی جائے تو مردوں کی شرح 5 سے 6 فیصد ہے
اور عورتوں کا 9 سے 10 فیصد ہے۔ اگر شہری علاقوں میں جائیں تو یہ 9 سے 20
فیصد تک چلا جاتا ہے۔
روزگار اور آبادی کی شرح کی بات کریں، ایک پیمائش کے ذریعے یہ پتا چلتا ہے
کہ پاکستان میں 64٪ مرد اور 20٪ عورتیں ایسے ہیں جو کام کرتی ہیں۔ اسکا
مطلب، اگر سو خواتین ہیں تو اس میں سے 20 کے پاس کام موجود ہے اور باقی 80٪
خواتین یا تو اپنی شادی کا انتظار کر رہی ہیں، بچے پال رہی ہیں یا اپنے
شوہر اور سسرال والوں سے لڑ رہی ہیں۔
گلوبل جینڈر رپورٹ 2020؛ اس میں ٹوٹل 153 ملکوں کا سروے ہوا اور نیچے سے
پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ جینڈر رپورٹ وہ ہوتی ہے جو ایک حساب و فارمولے
کے ذریعے پتا لگاتے ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کتنے مواقع ملتے
ہیں۔ صحت، تعلیم، جاب اور معاشی آزادی کتنی ہے اور مجموعی طور پر انکی
زندگی میں انکا کتنا اختیار ہے۔ اس رپورٹ کے حساب سے پاکستان میں عورتوں کے
حالات زندگی بہت خراب ہے۔ IMF کے مطابق پاکستان کا GDP 1/3 بڑھ سکتا ہے اگر
خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آجائیں۔ پاکستان کا موجودہ GDP تقریباً 310 اور
320 ملین ڈالر ہے۔ 1/3 کا مطلب ہے تقریباً 100 ملین کا اضافہ۔ ہم لوگ 2 4
ملین کے لیے imf اور world Bank کے آگے امداد اور قرض کا کٹورہ لیے
ترلےمنتے کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے کچھ نہیں کرنا بس اپنی خواتین کو تعلیم سے
آراستہ کر کہ انہیں معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنانا ہے اور آپ کے GDP میں 100
ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ہمارا ملک بیٹھے بیٹھے دبئی اور یورپ کے
مقابلے میں آجائیں گا۔
میرا یہ ماننا ہے کہ خواتین کو اپنا ٹیلنٹ پوری طرح ایکسپلور کرنا چاہیے۔
اور زندگی میں وہ کسی بھی چیز کے لیے وہ کسی کی محتاج نا ہو۔
|