خیال رہے کہ یہ اُس ’’دوکان ‘‘کا ذکر نہیں، جو
کرونا کی وبا کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن کا شکار ہے، بلکہ یہ اُن’ دوکانوں‘
کی کہانی ہے، جو ’’اینٹینا‘‘ کی طرح اﷲ میاں نے ہمارے سر کے دونوں جانب لگا
رکھے ہیں۔ باہر سے بظاہر تہہ در تہہ دکھائی دینے والے الجھے ہوئے ’دو کان‘
اندر سے نہایت ہی حساس مشینری کے حامل ہیں۔ ذرا سوچیں، اگر کان ایک ہی ہوتا
تو کیا ہوتا، آخر ناک بھی تو ایک ہی ہے۔ مگر خالق نے انسان کو ’’احسنِ
تقویم‘‘ بنایا ہے۔ انسانی جسم میں کان کی اہمیت اس قدر مسلّمہ ہے کہ اِس کے
دسیوں محاورے وجود میں آچکے ہیں، حضرت انسان نے کان سے ایسے ایسے کام لئے
ہیں، کہ خود کان بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرنے پر مجبور ہیں۔ بچپن سے
تو کان سے صرف سُننے کا ہی کام لیا جاتا تھا۔ مگر کانوں کی مظلومیت ملاحظہ
فرمائیے کہ کبھی امّاں یا ابّا کی حکم عدولی ہوئی تو شامت کانوں کی ہی آئی،
یعنی ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کانوں نے سُنااور بات بڑھی تو کانوں کو ہی پکڑ
کر کھینچا گیا، یا پھر کبھی برادرانِ بزرگ اُن کی کھینچا تانی کر لیتے تھے۔
اُستادوں کا کان کھینچنا اور کبھی کانوں پر تھپڑ جڑ دینا تو معمول کی بات
تھی، تاہم سکول داخلے پر اِس کے اور بھی معنی کُھل کر سامنے آئے، جب اُستاد
صاحب اپنے طلبا کو کان پکڑنے کا حکم صادر کرتے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہ
ہوتا کہ کھڑے کھڑے کانوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیں، بلکہ زمین کے قریب تر
ہو کر بازؤں کو اپنی ٹانگوں کے نیچے سے گھما کر کان پکڑنا مراد ہوتا تھا،
جسے عرفِ عام میں مُرغا بننا کہا جاتا ہے۔ مُرغا تو ابھی تک زوال کا شکار
نہیں ہوا، کہ انسان کی اہم ضرورت ہے، مگر ’’مرغا بننے‘‘ کا عمل اب ایک
ناپسندیدہ عمل جانا جاتا ہے۔ تکلیف دہ کام تو یہ پہلے بھی تھا، مگر اب
سکولوں میں ’’مار نہیں ، پیار‘‘ کے حکم کے بعد یہ مرغا بنانے والا کام
ممنوعہ بھی ہو چکا ہے۔ البتہ اس کی جھلکیاں معاشرے میں کہیں نہ کہیں ظاہر
ہوتی رہتی ہیں۔
بات دوکانوں سے چلی تھی ، درمیان میں مرغا آن ٹپکا، مرغا بننے کے لئے کان
پکڑنا اذیت ناک کام تھا، جہاں پورا جسم تکلیف میں ہوتا تھا، وہاں شامت
کانوں کی بھی آئی رہتی تھی۔ اگر کبھی استاد صاحب نے مرغا نہیں بنایا، یعنی
سزا اور غصہ کم ہے تو بھی غضب کا نشانہ یہی کان ہی بنتے تھے، اب بھی ایسا
ہی ہوتا ہے، شاید چہرے پر یہی ایک خاص نمایاں چیز ہے جسے آسانی سے پکڑا،
کھینچا اور مروڑا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑا اپنے ماتحت چھوٹے کے کان
کھینچتا اور مروڑتا ہے، یا اِس کام کے کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ بظاہر تو
دونوں کان سننے کے کام آتے ہیں، مگر یار لوگوں نے ایک کان سے سننے اور
دوسرے سے نکالنے کا دھندہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اِس قسم کی شنید کو ’’سُنی
ان سُنی‘‘ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ کسی بات پر کان دھرنا، کان بھرنا، کان پر
جوں نہ رینگنا، کان پکنا(کسی ایک ہی بات کو بار بار سن کر)۔ کانا پھوسی
کرنا، کانوں کاکچا ہونا، کان کھڑے ہونا ، کان پڑی آواز نہ سُننا، کانوں کان
خبر نہ ہونا وغیرہ وہ عام فہم اور ہمہ وقت استعمال کے محاورے ہیں، جو ہر
کوئی بولتا، سنتا اور سمجھتا ہے۔ کسی بات پر کانوں کو ہاتھ لگانا بھی
محاورہ بن چکا ہے، مراد یہ بھی ہوتی ہے کہ آئندہ یہ کام نہیں کروں گا، کسی
عبرت ناک منظر وغیرہ کو دیکھ کر بھی کانوں کو ہی ہاتھ لگائے جاتے ہیں۔
کان کا تحفہ خالق نے صرف حضرت انسان کو ہی عطا نہیں کیا، تمام جانور ’دو
کان ‘ رکھتے ہیں۔ ہر جانور (بشمول انسان) کانوں کی الگ بناوٹ کا حامل ہے۔
اکثر جانوروں کو کانوں کو حرکت دینے کی سہولت بھی حاصل ہے، تاہم انسان اس
سہولت سے محروم ہے۔ عام جانور کسی بھی خطرے کو بھانپنے کے لئے اپنے کانوں
کو حرکت دیتے اور خطرے کے رخ کا تعین کرلیتے ہیں۔ ہاتھی کے کان حسبِ حال
ہیں۔ البتہ یہ کُتّے کانوں کے معاملہ میں تمام جانوروں سے مختلف اور ممتاز
ہیں، کسی کے کان کھڑے ہیں، تو کسی کے ڈھیلے، کسی کے چھوٹے ہیں تو کسی کے
بڑے۔ کتوں کے کان بنانے والے کی صناعی پر سائنس خاموش ہے، اور راوی بھی لب
کشائی سے قاصر ہے۔ اونٹ کی جہاں کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی، وہاں اس کے کان
عام چھوٹے جانوروں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سُننے کے علاوہ صرف انسانوں کے کان
ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ بھیڑ بکریوں کو قابو کرنے کے لئے اُن کے مالکان
اُنہیں کانوں سے ہی قابو کرتے پائے جاتے ہیں۔
اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے کانوں
کے اور بھی استعمال ڈھونڈھ نکالے ہیں۔ خواتین زیور کی زیبائش کے لئے کانوں
میں چھید کرواتی ہیں، اور سونے چاندی یا دیگر اقسام کی بالیاں کانوں میں
لٹکا کر نسوانیت کی تسکین کا ذریعہ بناتی ہیں۔ مرد حضرات بھی کانوں میں
سوراخ کروا کر بالیاں پہن کر ’جوگی‘اور ’رانجھے‘ بن جاتے ہیں۔ جوگی بننا تو
اپنا شوق ہے، مگر جراحت کانوں کی ہی کی جاتی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں
ہوتی، انسان اگر کم نگاہی کا شکار ہو گیا توکسی دھات یا پلاسٹک کے ایک فریم
میں محدب عدسے ڈال کر اُس کی کمند کانوں پر ہی ڈالی جاتی ہے، تاہم یہاں ناک
کو بھی کچھ تعاون کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر قریب کی نگاہ کمزور ہونے کی
صورت میں ناک کو اچھا بھلا اضافی وزن اٹھانا پڑتا ہے۔ عینک کی دو ٹانگیں
کانوں کو پکڑ کر نہ رکھیں تو ہماری ’دِید‘ کا کام ادھورا رہ سکتا ہے، شنید
پر البتہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کرونا کی وبا نے جہاں انسان کو بے بس کر کے
رکھ دیا ہے، وہاں کان کی بھی بہت سی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، حکومتوں نے ماسک
کو لازمی قرار دے کر کانوں پر ایک اور ستم ڈھا دیا ہے، عینک ہی کیا کم تھی
کہ اب ’’ماسک‘‘ کی طنابیں بھی کان کے گرد ہی لپیٹی جاتی ہیں،عینک کی طرح
ماسک نے بھی دونوں کانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہوتا ہے۔ اﷲ میاں کی اِس
بے مثل اور عظیم نعمت پر انسان نے کس کس طرح ستم نہیں ڈھائے۔
|