آج کے زمانے میں دوست اسے کہاجاتا ہے جس پر آنکھیں بند
کرکے اعتماد کیا جاسکے ۔حالانکہ زمانے کی قدریں بڑی حد تک بدل چکی ہیں ،
خونی رشتے بھی بہت تیزی سے اپنی وقعت اور حیثیت کھوتے چلے جارہے ہیں لیکن
ایسے بدترین ماحول میں بھی کچھ لوگ ایسے دنیا میں موجود ہیں ،جن سے دوستی
اور تعلق ہمیشہ سے ایک ہی جیسا چلا آرہا ہے ۔ ایسے ہی اچھے لوگوں میں ایک
معتبر نام حاجی محمد اشرف بھٹی کا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا
چلوں کہ محمد اشرف بھٹی میرا کلاس فیلو ہے ۔ ہم دونوں ساتویں، آٹھویں ،نویں
اور دسویں جماعت میں ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ
میں پڑھتے رہے ہیں ۔ویسے تو ہمارے کلاس فیلو میں اور لڑکوں کا نام بھی آتا
ہے جن میں اقبال عرف بالی ، اقبال عرف کبوتر شاہ ، حسن عباس، محمد اسلم
آرائیں ، زاہد شفیق ، محمد ریاض ،محمد طلعت (مانیٹر ) اقبال غوری، نثار ،
اعجاز اورجاوید چٹا بھی شامل ہیں ۔لیکن ان میں سے اکثر دوست زمانے میں دھول
میں کچھ اس طرح گم ہوگئے کہ آج تک ان کا نام و نشان نہیں ملا ۔سوائے محمد
اسلم آرائیں کے جو میرے ہی محلے میں رہتے ہیں اور صبح و شام ہم ایک ہی مسجد
میں نماز پڑھتے اور والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔وہ میرے دکھ بانٹتا ہے
اور میں اس کا غم گسار ہوں ۔
یہ 1965ء کی بات ہے، جب میں چھٹی جماعت میں گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں
داخل ہوا تھا جب میں ساتویں جماعت میں پہنچا تو مجھے ایک ایسا پر خلوص دوست
ملا جس کا نام محمداشرف بھٹی تھا ،وہ میرا ہم ذہن بھی تھا اور ہم خیال بھی
۔نہ مجھے کبھی اس سے اختلاف ہوا اورنہ اسے کبھی میری کوئی بات بری لگی ۔یوں
سکول کے بینچوں سے ہونے والی سدا بہار دوستی آج بھی (جبکہ ہم دونوں بوڑھے
ہوچکے ہیں )ترو تازہ نظر آتی ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سکول روانگی کے وقت
جیب خرچ کے طور پر مجھے چار آنے ملا کرتے تھے ۔حسن اتفاق سے پیسوں کے
معاملے اشرف کبھی بھی تنک دست نہیں رہا ۔ان کے گھر میں پرچون کی دوکان تھی،
سکول سے واپسی پر اشرف بھی دکان پر بیٹھا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ مالی
طور پر ہم سے زیادہ خوشحال تھا ۔ جب سکول میں آدھی چھٹی ہوتی تو میں جیب سے
نکال کر چار آنے اشرف کو دیتا ، اشرف اپنی جیب سے بارہ آنے ڈال کر نان
چھولے خریدتا پھر ہم دونوں کسی مناسب جگہ بیٹھ کر کھالیتے۔ ہمارا یہ اتفاق
اور جذبہ ایثار ہمارے کئی کلاس فیلو کے لیے تعجب کا باعث بھی تھا۔1970ء میں
میٹرک کا امتحان دینے کے بعد تمام لڑکے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محمد اشرف بھٹی سے دوستی کا رشتہ پہلے سے بھی
زیادہ مضبوط ہوتا چلا گیا ۔کبھی وہ میرے گھرتو کبھی میں ان کے گھر
گورومانگٹ پنڈ جا پہنچتا ۔ ہم تین چار دوست اکھٹے ہوکر جب عید کے دوسرے دن
اشرف کو ملنے ان کے گھر جا پہنچتے وہ ہمیں بوتلیں پلایا کرتا تھا ۔ چونکہ
اس زمانے میں بوتل پینا بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا ، اس لیے ہم نے کئی
باربوتلیں ہاتھوں میں پکڑ کر تصویریں بنوائیں ۔ یہ تصویریں بہت عرصہ تک
اعزاز کے طور پر ہمارے پاس محفوظ رہیں ۔
سکول سے فراغت کے بعد ہی اشرف کو سوئی گیس میں ملازمت مل گئی ۔ اگر یہ کہا
جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ سوئی گیس کے ابتدائی ملازمین میں شامل تھا، جس
وقت کی میں بات کررہا ہوں اس وقت سوئی گیس لاہور شہر میں بھی پوری طرح
متعارف نہ ہوئی تھی ۔ ملازمت کے دوران ہی اشرف کا تبادلہ فیصل آباد ہوگیا
۔ایک دن میرا کلاس فیلو دوست محمدریاض (جو گنگاآئس فیکٹری میں ہی رہائش
پذیر تھا ۔)مجھے کہنے لگا چلو یار اپنے دوست اشرف کو ملنے فیصل آباد چلتے
ہیں ۔میں تو پہلے ہی ذہنی طور پر تیار تھا لیکن کسی ہمسفر کی تلاش میں تھا
،اب ہمارا فیصل آباد جانے کا پکا پروگرام بن گیا اس پروگرام کی اطلاع
بذریعہ خط اشرف کو دیدی گئی ۔چنانچہ طے شدہ دن تیار ہوکر ہم دونوں دوست (
میں اور ریاض )بذریعہ ٹرین فیصل آباد جا پہنچے۔ اسٹیشن پر حسب پروگرام اشرف
بھٹی نے ہمارا استقبال کیا اور وہ ہمیں اپنی رہائش گاہ لے گیا۔گرمیوں کا
موسم تھا گھرکے باہر ہی چارپائیاں بچھا کر ہم لیٹ گئے۔سفر کی وجہ سے تھکاوٹ
کی وجہ سے جلد ہی ہم نیند کی گہری وادی میں جااترے۔ ابھی رات کے دس ہی بجے
ہونگے کہ اچانک اتنا شور اٹھاکہ خوفزدہ ہوکر اٹھ کر بیٹھ گئے ۔ایسے لگ رہا
تھا جیسے وہ انجن ہمارے اوپر ہی آگیا ہو۔ دیکھا تو ریلوے کا اسٹیم انجن
شنٹنگ کرنے میں مصروف تھا ۔ ایک دو بار ہوتا تو گزارہ ہوجاتا لیکن اسٹیم
انجن نے ہمیں رات بھر سونے نہیں دیا ۔اگلی صبح سویرے ہی بارش شروع ہوگئی
،اس بھیگے ہوئے موسم میں ہمیں اپنے ساتھ لے کر اشرف بھٹی بازار پہنچا ،ہم
سب نے مل کر ناشتہ کیاپھر غلام محمد آباد کا ایک چکر لگا یا ۔بس اتنا ہی
یاد ہے ، پھر ہم بذریعہ ٹرین واپس لاہور آگئے ۔لیکن فیصل آباد دیکھنے کا
شوق اشرف نے کسی حد تک پورا کردیا ، باقیماندہ شوق اشرف بھٹی کے بیٹے عدنان
کی شادی میں ہم سرفراز کالونی فیصل آباد گئے اور بہت انجوائے کیا ،سرفراز
کالونی واقعی ایک مثالی جگہ کا نام ہے۔
پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب 6اپریل 1978ء کو میری شادی خانہ آبادی ہونا قرار
پائی ۔اشرف چونکہ میرے بہترین دوستوں میں شامل تھا ،اس لیے اسے بھی شادی
میں شرکت کا دعوت نامہ دے دیا گیا ۔ شادی ہوگئی اور ولیمہ بھی کھایا گیا۔
اشرف نے شادی میں شریک ہوکر دوست ہونے کا حق ادا کردیا ۔اس کے بعد ملاقاتوں
کا سلسلہ چلتا رہا لیکن کوئی غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں نہ آئی ۔ ایک
سال کے بعد اشرف بھٹی ہمارے گھر آیا اور مجھ سمیت میرے والدین کو بھی کھانے
کی دعوت دے گیا ۔ہم اس دعوت میں چلے تو گئے لیکن ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا
رہاکہ یہ دعوت کس چکر میں دی جا رہی ہے ۔جب میں اپنے والدین کے ہمراہ ان کے
گھر واقع گورومانگٹ پہنچا تو اشرف کے والدین نے بھی ہمارا پرجوش استقبال
کیا ۔ کھانا بھی پرتکلف تھا ،جب ہم سویٹ ڈش کھا چکے تو اشرف کی والدہ دو
چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنی آغوش میں اٹھائے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور
انہوں نے ایک بچہ میری والدہ کی آغوش میں دے دیا تو دوسرا بچہ میرے والد کو
پکڑا دیا ۔میرے والد نے بچے کو پیار کرتے ہوئے پوچھا، یہ بچہ کس کا ہے ۔؟
اشرف کی والدہ نے کہا یہ دونوں اشرف کے جڑواں بچے ہیں ۔میری والدہ حیرت سے
مجھے دیکھنے لگی اور میں اشرف کو دیکھنے لگا، کچھ دیر ماحول پر خاموشی طاری
رہی ۔ پھرمیں نے پوچھا خالہ جی اشرف کی تو شادی بھی نہیں ہوئی ، یہ بچے
کہاں سے آگئے ۔اشرف کی والدہ نے بتایا دراصل بات یہ ہے کہ اشرف کی بارات
کراچی گئی تھی جس میں صرف چند خاندانی لوگ ہی شریک تھے ،اس لیے آپ لوگوں کو
بارات کے ساتھ کراچی جانے کی زحمت نہیں دی گئی اور شادی کو آپ لوگوں سے
خفیہ رکھا گیا ۔درحقیقت اشرف کی شادی بھی اسلم بیٹے سے چند دن بعد ہی ہوگئی
تھی ۔یہ دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بہرکیف اشرف کی نئی نویلی دلہن بھی
سلام کرنے ڈرائنگ روم میں آئیں تو میرے والدین نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر
اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ،مجھے تو وہ سکینہ سموں کی طرح خوبصورت دکھائی
دے رہی تھی (یاد رہے کہ ان دنوں ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں سکینہ سموں بہت
مقبول اور مشہور اداکارہ تھی ) ڈیڑھ سال بعد اشرف کو اﷲ نے پھر اکٹھے دو
بچے دے دیئے، ایک بیٹا اور دوسری بیٹی ۔اس طرح اشر ف بھٹی چار بچوں کا باپ
بن چکا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جڑواں بچوں کی پرورش کرنا بہت مشکل تھا ،
لیکن اشرف اور اس کی بیگم نے مشترکہ طور پر ماں اور باپ کا کردار نہایت
خوبصورتی سے کچھ اس طرح نبھایا کہ اب وہی بچے ماشا اﷲ جوان ہوچکے ہیں بلکہ
ان سب کی شادیاں بھی ہوچکی ہیں اور وہ بچوں والے بھی بن چکے ہیں ۔اگر یہ
کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اشرف کے پاس ایسی گیڈر سینگی ہے کہ وہ پیسے کے
پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ پیسہ اس کے پیچھے دوڑتا ہے ۔میں نے ان کے تمام بچوں
کی شادیاں بھی اٹنڈکی ہیں اور غمی خوشی میں بھی شامل ہوتا رہا ، ہر جگہ اور
ہرمقام پراشرف کا دل بادشاہوں جیسا ہی دیکھا ۔ دور کیا جانا ہے قربانی کی
عید پر وہ شاندار بکرے کی قربانی بھی کرتا ہے اور گائے کی قربانی میں بھی
حصہ ڈالنا نہیں بھولتا۔ اس پر اﷲ کا بڑا کرم ہے ۔
ایک اور واقعے کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ 1986/87ء میں میری
اہلیہ عابدہ بیگم کا بڑا آپریشن لیڈی ولنگٹن ہسپتال( جو مینار پاکستان کے
بالمقابل ہے) میں ہوا ۔ ہسپتال سے ہمارے گھر (مکہ کالونی) کا فاصلہ بیس سے
پچیس کلومیٹر تو ہو گا ۔میرے خاندان کے لوگ بھی صرف ایک ہی مرتبہ مزاج پرسی
کے لیے ہسپتال آئے اور دوبارہ انہوں نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی، لیکن اشرف
بھٹی کی یہاں بھی میں تعریف کروں گا کہ وہ اپنے دفتر سے چھٹی کرکے گھر آتا۔
کپڑے تبدیل کرکے کھانا لے کر اپنی بیگم کے ساتھ سکوٹر پرروزانہ ہسپتال پہنچ
جاتا۔یہ دونوں میاں بیوی کافی دیر تک ہمارے پاس رہتے جس سے مجھے اور میری
بیگم کو بہت حوصلہ ملتا ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا
سہارا۔اس وقت یہی حال ہمارا تھا، ہم سہاروں کی تلاش میں تھے کہ کوئی ایسا
کندھا ہمیں مل جائے جس پر سر رکھ کر ہم چند آنسو بہا سکیں لیکن میرے اپنوں
میں سے کوئی ایسا نہ ملِ سکا۔ مشکل کے ان لمحات میں اپنوں میں چھپے ہوئے
بیگانے اور بیگانوں میں چھپے ہوئے اپنے صاف دکھائی دینے لگتے ہیں ۔اشرف
بھٹی میرا با اعتماد دوست ہی نہیں ۔مشکل وقت میں کام آنے والا میرا بھائی
بھی ہے ،جبکہ اس کے برعکس قدرت نے مجھے جو بھائی دیئے ہیں وہ برادران یوسف
سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔بہرکیف ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر جب ہم گھر پہنچے
تب بھی اشرف اور انکی وفا شعار بیگم نے مزاج پرسی کا عالمی ریکارڈ قائم کیے
رکھا۔وہ کام جو سگے بھائی نہیں کرسکے ، وہ کام اشرف بھٹی اور ان کی بیگم نے
بخوشی انجام دیا ۔جس کے بارے میں دل سے دعا نکلتی ہے ۔
ہماری دوستی کی آزمائش کا ایک اور مرحلہ اس وقت درپیش ہوا جب اشرف بھٹی نے
ایک مکان خریدنے کا فیصلہ کیا ،حسن اتفاق سے وہ گھر برائے فروخت تو تھا
لیکن اس گھر کا مالک شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا ، اس مکان سے ہر سال
دسویں محرم کو گھوڑا بھی نکلتا تھا، اس لیے مقامی اہل تشیع افراد نے فیصلہ
کیا کہ یہ مکان کسی سنی مسلک کے شخص کو فروخت نہ کیا جائے ۔اشرف بھٹی، بیگم
کے ساتھ ایک دن میرے گھر آئے اور انہوں نے مکان خریدنے کے حوالے سے ساری
کہانی مجھے سنائی اور کہا چونکہ مقامی لوگ آپ کو نہیں جانتے۔ اس لیے آپ
میری جانب سے گاہک بن کر جائیں اور وہ مکان خریدلیں ۔ پیسے میں دوں گا لیکن
مکان آپ کے نام ہوگا، بعد میں آپ وہ مکان میرے نام کردینا ۔ میں نے کہا اگر
میں یہ کام آپ کے لیے کرسکا تو مجھے بے حد خوشی ہوگی ۔ چنانچہ میں ایک گاہک
بن کر اس پراپرٹی ڈیلر کے پاس جا پہنچا ،جو مکان فروخت کررہا تھا ،اس نے
مجھے مکان دکھایا اور قیمت بتائی ۔میں نے تھوڑی اونیچ نیچ کرکے مکان خرید
لیا ۔مکان کے تمام کاغذات میرے نام بن گئے۔ ۔پیسوں کی ادائیگی کے بعد مکان
کی چابی مجھے مل گئی ۔ اس لمحے میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے اﷲ مجھے
سیدھے راستے پر ہی گامزن رکھنا اور جو اعتماد اشرف بھٹی نے مجھ پر کیا ہے ،
مجھے اس پر پورا اترنے کی توفیق دینا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اشرف بھٹی کو
مکان اپنے نام کرانے کی کوئی جلدی نہیں تھی ، اور نہ ہی اس کی بیگم پریشان
تھی ۔دونوں میاں بیوی نے مجھ پر اندھا اعتماد کیا اور اﷲ کے فضل سے میں ان
کے اعتماد پر پورا اترا۔ایک شام میں ان کے گھر گیا اور مکان کی چابی اور
کاغذات اشرف بھٹی کے حوالے کرکے رب کا شکر ادا کیا ۔
جب یہ بات میں نے اپنی والدہ کو بتائی تو وہ حیران ہوئی کہ اشرف بھٹی تم پر
اتنا اعتبار کرتا ہے ۔میں نے کہا امی جان اگر سودا اس سے بڑا بھی ہوتا تو
آپ کے بیٹے کے پاؤں میں کبھی لغزش پیدا نہ ہوتی ۔ یہ میرے رب کا مجھ پر کرم
ہے کہ میں اپنے سامنے رکھے ہوئے سونے کو بھی اٹھانے کا روا دار نہیں ہوں
۔یہ سب آپ کی تربیت کا اثر ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اشرف نے اپنی
شادی سے لے کرآج زندگی کا ہر فیصلہ نہایت دانش مندی سے کیا اور اس کی بیگم
نے آنکھیں بند کرکے اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط
نہ ہو گا کہ اﷲ تعالی نے اسے زندگی کا ساتھی بھی اتنا اچھا اوروفا دار دیا
ہے جو دل و جان سے اپنے شوہر کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑتا ۔ اب ماشا اﷲ تین بہوئیں بھی گھر پر موجود ہیں اور پوتے پوتیاں
بھی اشرف بھٹی کے آنگن میں کھیل رہے ہیں ،۔ حج تو وہ پہلے ہی کرچکا تھا
۔ریٹائرمنٹ کے بعدوہ اپنے پورے خاندان ( جس میں چھوٹے بڑے سبھی موجود تھے)
کو لے کر ارض مقدس گیا ۔اس نے اپنی والدہ اور والد کو بھی حج کروایا ۔ ماں
اور باپ کی دعائیں اشرف بھٹی کو ہر قدم پر حاصل رہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہی
خوش نصیبی کافی ہے ۔جو دنیا اور آخرت میں اشرف بھٹی کی کامیابی کے لیے کافی
ہوگی ۔ان شا اﷲ
|