عصر حاضر میں سیرت نبوی سے رہنمائی

تربیت ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی چیز اپنے کمال تک پہنچتی ہے ، محدثین کے قول کے مطابق تربیت یہ ہے کہ مشق کے ذریعے نفسیاتی وظائف کو بڑھایا جائے ، یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچ جائے۔انسان کی تربیت کی ابتدا اس کی ولادت سے بھی پہلے ہوتی ہے اور موت پرختم ہوتی ہے۔

تربیت فطرت کے اعتبارسے انسانی، نفاذکے اعتبارسے ذاتی اورشمولیت کے اعتبار سے معاشرتی کام ہے، وہ زندگی گذارنے کاطریقہ ہے یاخودزندگی ہے، آدم علیہ السلام سے لے کرآج تک انسان اپنے بچوں اور نوخیزاولادکی تربیت کاکام انجام دے رہا ہے تاکہ موجودہ زمانہ میں ان کی صحیح نشوونما، اوران کی روحانی، جسمانی، جذباتی اورعملی ضروریات کی تکمیل میںتعاون کیا جائے اورروشن مستقبل کے لیے ان کو تیار کیا جائے۔ تربیت ایک ضرورت ہے اوراس ضرورت کی تکمیل ضروری ہے، کیوں کہ اسی کے ذریعے ایک جسمانی ڈھانچے کوممتازشخصیت میںتبدیل کیاجاسکتاہے۔

آج کا دَور ترقی یافتہ کہلا تا ہے، ہر گوشہ زندگی میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، جدید اکتشافات کے سامنے عقل وخرد محو حیرت ہے، آج کی دنیا کی دوری ختم ہوچکی ہے، ذرائع ابلاغ اور وسائل نقل وحمل نے ترقی کرکے سالوں اور مہینوں کے کام دنوں گھنٹوں اور منٹوں میں ممکن کردیے ہیں، پہلے کے بالمقابل آج مال و دولت کی بھی کمی نہیں رہی، حقیقت میں آج زمین سونا اگل رہی ہے، سمندروں نے اپنی تہوں سے ہیرے، موتی اور جواہر پارے ”سواحلِ انسانی“ پر لاکر رکھ دیے ہیں۔ سارے اسباب ووسائل کے باوجود آج لوگوں کو سکون وطمانینت حاصل نہیں، ایک دائمی بے اطمینانی ہے، جو سب پر مسلط ہے، ہر طرف ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے، آئے دن فسادات اور قتل و غارت گری ہورہی ہے، نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں، فتنوں کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے، جس طرف دیکھیے اختلاف ہی اختلاف ہے، بین الاقوامی اختلاف، فرقہ واری اختلاف، سیاسی پارٹیوں کا اختلاف، خاندان کا اختلاف، گھر اور افرادکا اختلاف اور نہ جانے کون کون سے اختلافات ہر سو رونما ہورہے ہیں۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے مختلف ومنحرف نظر آرہا ہے۔ خود غرضی عام ہورہی ہے، اخلاق و پاک دامنی کا فقدان ہے، شرافت و امانت ناپید ہورہی ہے، امن و آشتی اور سکون و عافیت مفقود ہوتی چلی جارہی ہے۔ کون سی ایسی برائی ہے جس کا تصور کیا جائے اور وہ معاشرے میں موجود نہیں۔ زنا اور شراب نوشی عام ہے۔ سود اور سودی کاروبار ہرگھر میں پہنچ چکا ہے ، جوا اور سٹہ بازی کی نئی نئی شکلیں اختیار کی جارہی ہیں، دختر کشی بلکہ نسل کشی ایک فیشن بن گئی ہے۔ آج کے اِس دَور کوکون سا دور کہیں گے؟ فتنوں کا دور! گناہوں کا دور! بے حیائی اور بے لگامی کا دور! خودسری اور خودغرضی کادور! شیطانی دَور! یاجو جی یا ماجوجی دور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟ دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے، بلکہ بعض لحاظ سے اس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ ان جملہ خرابیوں کو دور کرنے اور ان پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں، تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، ہونا بھی یہی چاہیے، اس لیے کہ ان جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟

آج ضرورت ہے ان تدبیروں کی اور نسخہ کیمیا کی جوحضور اکرم ﷺنے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہراہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنا دیا اور جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

عصر حاضر کے مذہبی اختلافات میں سیرتِ نبوی اکی رہنمائی
عالمی پیمانے پر اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی، مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں، ان کے حل کے لیے اگر یہ سوچا جائے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اس کی اتباع کریں تو ایسا فطری طور پر ناممکن ہے، اس لیے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، تو جس انسان کا بھی انتخاب ہوگا وہ کسی ایک قوم کا فرد ہوگا، اس ایک پر اگر اتفاق سے اپنی قوم متفق ہوگئی تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں، پھر یہ انسان نفسانی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا، اگر کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دنیا کوشش بھی کرے تو وہ ماضی کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بش“ اور پھر دور جدید کا مسٹر اوباماثابت ہوگا، وہ سارے فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ لے گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اس طرح انصاف کی جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کرسکے کہ اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو، ہر ایک کی فطرت کو جانتا ہو، اس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردے گا، اس لیے کسی انسان پر پوری نوعِ انسانیت کا متفق ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔

اس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی ایک ادارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، اس کے ہر حکم کو من وعن مان لے، کوئی ادارہ سارے انسانوں کو اپنی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتا، اور نہ ہی ایسا متفقہ قانون بنا سکتا ہے جس میں ہر ایک کی فطری ضرورتوں کا پورا لحاظ اور قانون ایسا عزیز بلکہ ہر دل عزیز ہو کہ سارے لوگ اس کو جان و دل سے ماننے لگیں۔ بالآخر یہ اختلاف و انتشار ختم نہیں ہوگا بلکہ لازمی طور پر اس ادارے میں جس قوم کی نمائندگی زیادہ ہوگی ادارہ اس کے لیے بازیچہ اطفال بن کررہ جائے گا۔ وہ اس کی آڑ میں اپنے الو سیدھا کرنے میں مشغول ومصروف رہیں گے۔ دنیا میں جتنے ادارے عالمی پیمانے پر قائم ہوئے ان سب کا حال یہی ہوا، آج کی واضح مثال عالمی تنظیم ”اقوام متحدہ“ ہے۔

لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے وہی کرنا ناگزیرہے جو اللہ تعالیٰ کے نبیﷺنے کیا، آپ نے اختلاف و انتشار سے تباہ دنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش کردی، آپﷺنے دنیا کو بتا دیا کہ اے انسانوں! کسی انسان یا کسی ادارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی ذات کی حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اداروں کو جنم دیا ہے۔ جو خالق ارض و سماوات او ر”خالق الحب والنوی“ ہے۔ اسی نے سارے انسانوں کو پیدا کیا ،وہی ان کا پالنہار ہے، وہی سب کی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ وہ ہر ایک کی فطری ضرورتوں سے واقف ہے، ہر ایک کو رزق وہی پہنچاتاہے، اسی کی دنیا اسی کی عقبی ہے، وہی نظام عالم کا نگراں اور مدبر و منتظم ہے۔
الا لہ الخلق والامر تبارک اللہ رب العالمین (الاعراف)۔
وہی کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے، اسی کی حاکمیت کو تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ”دعوتِ توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی اختلافات کے ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس وقت کے موجود اہل کتاب، یہود و نصاریٰ کو توحید پر متحد ہوجانے کی دعوت دی اور بحکم خدا ارشاد فرمایا:
یاھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواءبیننا وبینکم ا لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ (آل عمران: 64)
” اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلّم اور) برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے“۔

اس طرح رسول اللہﷺ نے انسانیت کے درمیان مذہبی اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش فرمائی، آج سیرتِ نبویﷺسے انسانیت کو یہ رہنمائی مل رہی ہے کہ اے بنی آدم! دہریت اور خدا کے انکار کو چھوڑ کر وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ، سارے انسان مل کر بس اسی کی رسی کو تھام لو، اسی میں امن و سکون اور طمانینتِ قلبی ہے، اس کے علاوہ کسی غیر کو تسلیم کرکے قلوب کو راحت نصیب نہیں ہوسکی۔
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران: 103)
”اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو باہم متفق ہوکر پکڑے رہو اور آپس میں اختلاف نہ کرو“۔

توحید کی رسی ہی ایک ایسی رسی ہے جس نے عرب کی آپس میں دشمنی اور رسہ کشی کو ختم کرکے سب کے دلوں کو جوڑ دیا اور سارے لوگ بھائی بھائی ہوگئے، ورنہ سب کے سب جہنم رسید ہونے والے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
واذکروا نعمة اللہ علیکم اذکنتم اعداءً فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً وکنتم علی شفا حفرة من النار فانقذکم منھا (آل عمران:103)
”اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے اس کو یاد کرو جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی، چناں چہ تم لوگ اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے، حالانکہ تم لوگ جہنم کے گڑھے کے کنارے پر تھے کہ اللہ نے تمہاری جان بچالی“۔
”رحمة للعالمین“ نے بتایا کہ اس اللہ نے ایک قانونی کتاب نازل فرمائی ہے، جس قانون میں ہر ایک کی مصلحت کی رعایت ہے، اس کتاب پر عمل کرنے میں مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد دونوں زندگیوں میں سکون و راحت ہے، چناں چہ اطرافِ عالم سے جوق در جوق انسانوں کی بھیڑ نے اس قانون کو تسلیم کیا، جب وہ قانون روبہ عمل لایا گیا تو دنیا کو اضطراب سے راحت ملی، بے کل مریضوں کو جس نسخہ سے صدفی صد فائدہ ہوسکتا تھا وہ نسخہ مل گیا، اس قانون میں گذشتہ نازل کردہ قوانین کی رعایت رکھی گئی تھی، جس طرح ڈاکٹر کے بنائے ہوئے بعد کے نسخے میں گذشتہ نسخوں کی دواؤں کا لحاظ رکھا جاتا ہے، بعد کے نسخوں سے گذشتہ نسخہ منسوخ ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ آخری نسخہ قانون ہے اور جس طرح ہر کتاب کے ساتھ ایک سمجھانے اور تشریح کرنے والا بھیجا جاتا رہا ہے، میں بھی اس آخری کتاب کی تشریح کے لیے بھیجا گیا ہوں، اس کتاب اور میری تفسیر میں دنیا کے لیے راحت ہے، اسی کے ذریعہ دنیا میں امن وامان قائم ہوسکتا ہے، چناں چہ لوگوں نے آپﷺکی دعوت قبول کی، جس سے دنیا نے سکون کا سانس لیا۔ مذہبی اختلافات بڑی حد تک ختم ہوئے، دنیا نے اس قانون کو نافذ کرکے آزمایا، آج بھی اسی دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے، آج کی دنیا پیاسی ہے ، دعوتِ توحید کی، دعوت رسالت اور دعوت ایمان کی! کیا ہے کوئی رسول اللہﷺ کی سیرت اور آپﷺ کے طرزِ دعوت کو اپنانے والا، تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہ راست پر آجائے اور پھر سے انسانوں میں ایک باپ کے بیٹے اور ایک خدا کے پجاری ہونے کی سمجھ پیدا ہو؟

قومی و نسلی اختلافات میں سیرتِ نبویﷺ کی رہنمائی
پہلے کی طرح آج بھی لوگ قومی تفاخر اور نسلی اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں، کالے گوروں کا اختلاف، علاقے، علاقے کا اختلاف، ملکی اورغیر ملکی امتیاز، ان تمام اختلافات و امتیازات کی وجہ سے جو پریشانی پہلے تھی اس سے کہیں زیادہ آج ہے، پہلے تو دنیا کی قومیں الگ تھیں، لیکن آج دوری نزدیکی میں بدل گئی، پوری دنیا ایک خاندان اور گھر کی طرح ہوگئی ہے۔ اس لیے آج بھی ان امتیازات کو ہٹا کر ہی سکون کا سانس لیا جاسکتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺس طرح تفاخر وامتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے، آپﷺ نے ان کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرمادیا اور انسانوں کو سبق دیا کہ دیکھو! تم سب ایک خالق کی مخلوق ہو، ایک اللہ کے پجاری ہو، اس لیے اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو اور تمہارے باپ مٹی سے پیدا کیے گئے، مٹی میں تواضع، انکساری اور فروتنی ہوتی ہے، تم سب بھائی بھائی بن کر رہو، کالے گوروں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں، عربی اور غیر عربی ہونا ہی کوئی امتیاز وتفوق کی بات نہیں، ہاں! تفوق اور برتری تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہے۔ (حجة الوداع کا خطبہ) تم میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار، متقی اور محتاط ہے۔ (سورہ حجرات: 13)

غورکیجیے کہ جس ماحول میں اللہ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی وہ چھوٹی سی تعداد میں ہونے کے باوجود درجنوں قبیلوں میں منقسم تھا، پھر ہر قبیلے کے مختلف ٹکڑے تھے اور ہر ایک کے مختلف خاندان اور کنبے تھے، ہر ایک اپنا ایک امتیاز رکھتا تھا ، سب آپس میں دست و گریباں تھے، ان کے اندر سے امتیاز و تفاخر اور تفوق برتنے کے سارے جرائم کو آپﷺ نے ختم کردیا، وہ سب کے سب بھائی بھائی ہوگئے، جہاں گئے وہاں اسی تعلیم نبویﷺ کو عام کیا،اس طرح ایک عالم گیر برادری اور ہمہ گیر اخوت وجود میں آگئی، ہر فرد ایک دوسرے سے اس طرح جڑا محسوس کرتاتھا جس طرح جسم کے اعضا ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، آج بھی اسی تعلیم کو عام کرنے سے یہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، انسانیت کا اختلاف اور تصادم یقینی طور پر ختم ہوسکتاہے۔

رسول اکرمﷺکی مکی اور مدنی زندگی سے عصر حاضر میں رہنمائی
رحمت عالمﷺ کی رسالت عالم گیر ہے، آپﷺ پوری دنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے، آپﷺ کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہرطرح کے مسائل کاحل آپﷺہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات ومصائب سے نجات کا ”نسخہ کیمیا“ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے، اگر کوئی شخص غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہ رہا ہے تو اس کو دعوت و تبلیغ کے لیے کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟ عائلی قوانین اور پرسنل لاء پر وہ کس طرح عمل کرے؟ اپنے نزاعی معاملے کس طرح حل کرے؟ غیر مسلموں کے ساتھ کیسا سلوک کرے، وغیرہ؟ان سارے سوالوں کا جواب آپﷺ مکی زندگی میں ملے گا، اسی میں یہ درس بھی موجود ہے کہ آج کوئی شخص ایسی جگہ رہ رہا ہے جہاں سارے جتن کے بعد بھی اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرسکتا تو وہ وطن کے مقابلے میں دین کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے وطن اور گھر بار سب کو خیر باد کہہ دے اور اپنی سکت اور کوشش کے مطابق دنیا کی ایسی جگہ کو وطن بنائے جہاں اسلام پر عمل کرنے کی پوری اجازت ہو، احکام اسلام کے نفاذ میں کوئی شے مانع نہ ہو، آج ہجرت پر عمل کرنا پیچیدہ ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے، تو ایسی صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہﷺ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، اس کے بعد مدینہ کی، اخیر میں اپنے رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی، دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز و اقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا،آج بھی دنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تو اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اسوہ عمل کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاری سے معاہدات کئے، آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا، آہستہ آہستہ لوگ اسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر کیا تھا کہ چند برسوں میں سارا عرب کلمہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا قائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں جن کاکام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی تھیں، آپسی چپقلش کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب شیر و شکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔

رسولِ اکرمﷺ کی زندگی سے آج بھی یہ سبق ملتا ہے کہ غیر مسلموں سے معاہدات کرنا درست اور جائز ہے، دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول ساز گار کرنا ضروری ہے۔اسی کے ساتھ احکام الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے، اس طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتاہے، آج کا دور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دور ہے، عام لوگوں میں معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اسلام کا صحیح تعارف کرایا جائے، اس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال کئے جائیں تو پھر یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے۔

آج دنیا بے راہ روی، ظلم و ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی ہے۔ اس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی، امن و آشتی کی، اطمینان اور سکون کی، اسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ صرف ضرورت ہے رسول اللہ ﷺور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشن کو اپنانے کی۔ رسولِ مکی و مدنی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع کی۔

مکمل احکامِ اسلام کانفاذ عہدِ حاضر کی ناگزیر ضرورت روز بروز فسادات ہورہے ہیں، قتل ایک آسان کام، غارت گری اور لوٹ کھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ ہوگیا ہے، زنا اور شراب نوشی عام ہے، ایک دوسرے پر تہمت لگانا کوئی اہم بات نہیں، رشوت اور سود خوری دنیا کی ضرورت میں داخل ہوگئی ہے، آئے دن اغوا کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس طرح کی اور بھی سرکشیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان سب کا علاج اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج قتل کرنے والے پر قصاص اور دیت کے احکام جاری ہوں، تب ہی قتل کی ان گنت واردات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے۔ آج اگر حد قذف نافذ ہو تب ہی تہمت لگانے والوں کی زبان پر تالا لگ سکتا ہے، غرض یہ ہے کہ دنیا میں امن و امان اور سکون واطمینان کا ماحول پیدا کرنے کے لیے روئے زمین پر حدو دو قصاص اور تعزیراتِ اسلامی کا نافذ ہونا ضروری ہے، آج عملاً دنیا اسی کا انتظار کررہی ہے، اگر قاتل کو یہ معلوم ہو کہ ہمیں قتل کرنے کے جرم میں قتل کردیا جائے گا تو یقینا قتل سے پہلے وہ سوچنے پر مجبور ہوں گے، ہاتھ کانپنے لگیں گے، دل لرزنے لگے گا اور قاتل اپنی جان بچانے کے لیے ایسے قتل کی ہمت نہیں کرے گا، اس طرح اس آدمی کی بھی زندگی بچ جائے گی جس کے قتل کا ارادہ قاتل نے کیا تھا اور روئے زمین پر انسان اور انسانیت کی قدر بڑھ جائے گی، زندگی کی قیمت میں اضافہ ہوگا، اسی لیے قرآن نے کہا ہے:
ولکم فی القصاص حیاة یا اولیٰ الالباب لعلکم تتقون(سورة البقرة: 179) ”اے اہل خرد! قصاص (کے احکام کے نفاذ) میں تمہارے لیے زندگی ہے، تاکہ تم لوگ تقویٰ اختیار کرو اور پرہیز کرنے لگو۔“

اگر چور کو معلوم ہو کہ چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو چوری کرتے وقت اس کے ہاتھ کانپ جائیں گے اور وہ چوری سے باز آجائے گا، اس طرح چوری سے روئے زمین پاک ہوگی، لوگوں کو جان کے ساتھ ان کے مال کی حفاظت کا ایک ماحول بن جائے گا۔ زانی کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ زنا کی سزا میں سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ (سورة نور:2) یا پتھروں سے چور چور کر دیا جائے گا۔ (بخاری:1/276)

تو ہر گز زناکا ارتکاب نہیں کرے گا، اس طرح روئے زمین پر عفت و پاک دامنی کا دور دورہ ہوگا، غرض یہ کہ آج کی دنیا کو سکون انہیں قوانین کے نفاذ کے بعد مل سکتا ہے، جن قوانین کو نافذ کرکے رسول اللہﷺ نے روئے زمین پر امن و امان پھیلایا تھا اور پریشان ماحول کو سکون فراہم کیا تھا، دوسرے قوانین میں وہ جامعیت اور گرفت نہیں ہوسکتی جو اللہ کے قوانین میں ہے، قوانین تیار کرنے کے لیے عقولِ انسانی کا فی نہیں ہیں۔ وہ آج کوئی قانون بناتے ہیں کل اس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے، ردو بدل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتارہتا ہے اور چلتا رہے گا، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر امن و امان اور سکون وعافیت پھیلانے والے قوانین خود وضع کیے، کسی انسان حتی کہ کسی نبی کے بھی سپرد نہیں کیا۔

حقوق کے معاملہ میں عام طور سے بے اعتدالی ہوسکتی تھی، بلکہ ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق، میراث کے ورثا کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق وغیرہ کو خود سے بیان فرما دیا، تاکہ بالاتفاق نوع انسانی ان قوانین کو تسلیم کرلے اور روئے زمین پر حق تلفیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے، اللہ کے ان قوانین کو رسول اللہﷺنے نافذ فرمایا اور دنیا نے صدیوں تجربہ کیا اور آج بھی کررہی ہے کہ حقیقت میں نظام عالم پر کنٹرول اللہ کے قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہے، ان کے بغیر یہ دنیا راحت وسکون کا مسکن نہیں بن سکتی، امن و آشتی کا ضامن صرف اور صرف اسلام ہے، حقیقت میں آج پوری انسانیت اپنی زبانِ حال سے اسی دور کو پکار رہی ہے، جس دور میں رسول اللہﷺنے اللہ کے سارے قوانین کو روبہ عمل لا کر ایک معطر ومعنبر ماحول تیار کیا تھا اور انسانیت کو اس کی صحیح منزل پر پہنچایا تھا۔

عصر حاضر میں اخلاقِ نبوی کی تعلیم عام کرنے کی ضرورت
موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر ،غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی، غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں، بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اس انحطاط وتنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں بیان کی جائے۔

اس سلسلے میں قرآن وحدیث کے نصوص واضح کیے جائیں ، تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو، اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺکے اخلاق فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور ان کے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، ایک دین دار مسلمان کو اپنے اخلاق و کردار میں کیسا ہونا چاہیے؟ درس گاہِ نبوت کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کیسے تھے؟ ان کے اندر اخلاص و تقویٰ، شرم و حیا، صبر و شکر کی صفات تھیں، وہ دیانت دار، امانت دار اور سخاوت وشرافت کے خوگر تھے۔ ان کے اندر ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع وانکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ خوش کلام، خوش الحان، خوش دل اور رحم و کرم کے پیکر تھے۔ وہ ہمیشہ موت کو یاد رکھتے تھے، ان کے معاملات کی صفائی سے لوگ متاثر تھے، یہ ساری چیزیں آیات و احادیث کی روشنی میں بیان کی جائیں تو بڑ اموثر رہے گا، اپنوں کی اصلاح تو ہوگی ہی ، غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سچ ہے کہ رسول اللہﷺ کی اخلاقی تعلیمات کو اگر عام کیا جائے تو ضرور بالضرور ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آئے گا، جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور خیر القرون کے معاشرہ کے مماثل ہوگا، جن میں ساری خوبیاں موجود تھیں، یہ خوبیاں آج تاریخ کے صفحات کی زینت بنی ہوئی ہیں، جو کبھی زندگی میں موجود تھیں، پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر، ان کے بلند و بالا اخلاق سے متاثر ہوکر، لوگ اسلام قبول کرتے تھے، آج اسلام اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے کتب خانوں کا سفر کرنا پڑتاہے۔ کاش! رسولِ اکرﷺ کی اخلاقی تعلیمات زندگیوں میں رچ بس جائیں تو بات ہی دوسری ہوجائے۔

عصر حاضر کی جملہ خرابیوں کو دور کرنے میں سیرتِ نبوی اکی رہنمائی
یہ دور ”پی ایچ ڈی“ اور تخصصات کا دور کہلاتا ہے، اگر کسی تحقیق کے طالب علم کو آج کے دور کی ظاہری اور باطنی خرابیوں کے شمار کرنے کا موقع دے دیا جائے بلکہ ایک نہیں متعدد طالب علموں کو اس موضوع پر لگایا جائے تب بھی ساری خرابیاں بیان نہیں ہوسکیں گی، ان ساری خرابیوں کی وجہ اسلام اور تعلیم اسلام کا عام نہ ہونا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اصل بعثت کا مقصد دنیا کو اعتدال پر لانا تھا، اس کے لیے آپﷺنے پوری زندگی دعوت اصلاح وتبلیغ میں صَرف کرڈالی۔تربیت کے ذریعہ ایسے افراد پیدا کیے، جن میں ایمان کامل تھا، آخرت کا استحضار تھا، وہ ذکر الٰہی کا اہتمام کرتے، راتوں میں تہجد گذار اور دنوں میں مجاہد برسرپیکار ہوتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف آپ ﷺنے توجہ دلائی۔ اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کو واقف کرایا۔ اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کیں۔ ہر ایک کے حقوق کو واضح فرمایا، خصوصاً کمزور طبقات مثلاً عورتوں، بچوں، غلاموں ، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرما کر ان کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت کرنے اور ایک دوسرے کو احکام الٰہی کی تعمیل کی تلقین کا مزاج بنایا۔آیات و احادیث کی تعلیم کے ساتھ ان پر عمل کرنے اور خود احتسابی کی تعلیم دی۔آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد کرنے اور ان کے مذاکرے کا ماحول بنایا۔اخلاقِ رذیلہ کی خرابیوں کو بیان کرکے ان سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ ایسا ماحول بنایا کہ ہر آدمی دعوت، اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا تھا۔ اگر آج بھی مذکورہ بالا نبوی طریقہ کار پر عمل ہو تو معاشرہ کی ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کی تفسیر کو عام کیا جائے، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی اہتمام ہو، غیروں کے بجائے اپنی خرابیوں پر غور کیا جائے اور اصلاح کی کوشش کی جائے، نیز تذکیر وموعظت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کیا جائے تو ضرور معاشرہ درست ہوجائے گا۔
Fayyaz Ahmed Farooq
About the Author: Fayyaz Ahmed Farooq Read More Articles by Fayyaz Ahmed Farooq: 15 Articles with 67847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.