کاروباری ذہانت

کاروباری دنیا کے دستور بہت نرالے ہیں۔ وہ بے ایمانی کو ذہانت اور دھوکہ دہی کو فن سمجھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ کسی نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ بھائی آج کیا کمایاہے اور کتنا نفع ہوا ہے۔ دکاندار نے بڑے افسردہ سے لہجے میں جواب دیا کہ بھائی آج کیا کمانا تھا اور کیا نفع حاصل کرنا تھا، ٓج صبح سے گاہکوں میں کوئی پرانا جاننے والا ،مجھ پراندھا اعتماد کرنے والایالحاظ والا شخص نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسا آیا ہے کہ سب چیزیں اﷲپر اور میرے ایمان پر چھوڑ دے اور جو میں کہوں وہی لے کر چلا جائے۔تو بتاؤ ایسی صورت میں ،میں نے کیا کمانا ہے۔یہ گو مذاق میں کہا گیا ہے مگر سچ یہی ہے کہ ہمارے دکانداروں کا دکانداری کا یہ سنہری اصول ہے۔زیادہ تر دکانداروں کو حرام اور حلال کا فرق محسوس نہیں ہوتا۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو مرضی کر لیں ۔ ایک عمرہ ان کے سارے گناہوں کا مداوہ کر دے گا۔ان کی عبادت بھی خالص کاروباری ہے۔ کوئی انہیں یہ نہیں سمجھاتا کہ رب کریم ہر گناہ معاف کر دیتا ہے مگر خلق خدا کو خراب کرنے اور ان سے دھوکہ کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔

میرے ایک دوست کا بیٹا کسی نوکری کا طلب گار تھا۔ نوکری مل نہیں رہی تھی،آخر کار اس نے سوچا کہ اسے ایک بک اینڈ سٹیشنری سٹور کھول دیا جائے۔ مگر کچھ ٹریننگ ضروری تھی۔ان کے ایک جاننے والے جو ان کے خیال میں انتہائی دیانتدار ، نمازی پرہیز گار، حاجی اور انتہائی نیک آدمی تھے، کتابوں کی ایک مشہور دکان کے مالک تھے، ان سے بات کی کہ بچے کو آپ کے پاس بھیج دوں کہ کچھ ٹریننگ ہو جائے گی۔ انہیں فری کام کرنے کو ایک کارندہ مل رہا تھا۔خوشی سے راضی ہو گئے۔اگلے دن بچہ ان کے پاس تھا۔ٹریننگ کے پہلے روز پہلا اصول انہوں نے یہ بتایا کہ دکانداری میں بہت سی پس پردہ چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ اگر تمہیں کچھ غلط لگے تو اس کا ذکر براہ راست ہم سے کرنا۔ دکان کی کوئی بات باہر کسی کو نہیں بتانی۔گھر والوں سے بھی دکان کی پالیسی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔ کاروبار میں کامیابی کے تمام اصول تمہیں بتا دیں گے مگر اس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔اسی طرح ہر روز کوئی نہ کوئی اصول بتا دیا جاتا۔

ان دنوں سکولوں میں امتحان ہو رہے تھے اور امتحانات کے بعد نیا سیشن شروع ہونا تھا۔ایک دن انہوں نے تمام لڑکوں کو دکان بند کرنے کے بعد کھانا کھلایا اور نئے تعلیمی سال کے شروع پر کام کے بارے کچھ ہدایات دیں۔ باقی تو سب ٹھیک تھا مگر ایک بات جو انہوں نے بتائی وہ سونے سے لکھنے کے قابل تھی۔ کہنے لگے بیٹا، کتابوں اور سٹیشنری کا کام مخصوص دنوں کا ہے۔ سارا سال ہم لوگ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں۔ نئے داخلے ہوتے ہیں تو کچھ کمانے کا سوچا جاتا ہے۔ پھر کتابوں میں ملتا کیا ہے ۔ بہت معمولی سی کمیشن ۔ آپ کو تنخواہ دینا ہوتی ہے۔ دکان کا کرایہ ہے، بجلی کا بل ہے اور تمہارے سامنے بہت سے اخراجات ہیں، کیا کریں۔ یہ جو انگلش میڈیم سکولوں میں بڑی بڑی فیسیں دے کر لوگ بچوں کو پڑھاتے ہیں ان میں زیادہ تر کا سرمایہ لوٹ مار سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ ان سے لوٹ کا مال نکلوانا کوئی برائی نہیں۔ جو پچاس پچاس ہزار کی کتابیں خریدتے ہیں انہیں پیسے کی کوئی پرواہ نہیں، ان سے تھوڑا سا وصول کرنا کوئی برائی نہیں۔ ان کے مقابلے میں ہم سب غریب لوگ ہیں۔ امیروں کی ناجائز کمائی میں سے حصہ وصول کرنا ہمارا جائز حق ہے۔تم لوگوں نے کرنا یہ ہے کہ حساب چاہے کلکولیٹر سے کرو یا سادے کاغذ پر رسید بنا کر دو۔ آپ نے آخری جمع کرتے ہوئے بل کے حساب سے دو چار ہزار مزیدبڑھا دینے ہیں ۔ کوئی زیادہ بل کا کہے تو ہم دو چار سو چھوڑ دیں گے۔ وہ خوش بھی ہو جائے گا اور ہمیں معقول نفع بھی مل جائے گا۔ کسی نے اگر کبھی ٹوٹل چیک کر لیااور زیادہ رقم کی نشاندہی کر دی تو اس کا ساتھی فوراً مداخلت کرکے اس سے ناراض ہونے لگے ، صورت حال کو بگڑنے سے بچائے اور اب مجبوری میں بل صحیح کردے مگر اس دوران گاہک کو شور مچانے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہ پڑے اور دوسرے گاہکوں کو یہی محسوس ہو کہ کوئی چیز غلطی سے ہو گئی ہے۔میرے دوست کے بیٹے نے اپنے بات کو گھر آ کر اس سنہرے اصول کا بتایا تو اس کے باپ نے اسے کاروبار چھوڑ کرآئندہ صرف نوکری کرنے کی سوچنے کی ہدائت کی۔

میرے ایک عزیز نے ایک فیکٹری لگائی ۔ ایک ہول سیل مارکیٹ کے دکاندار اس فیکٹری سے مال بنواتے تھے۔ ایک دن اس نے مجھے شکایت کی کہ ماکیٹ کا فلاں دکاندار جو آپ کا بھی واقف ہے مجھے پچھلے کئی ماہ سے رقم کی ادائیگی نہیں کر رہا اور کچھ عجیب باتیں کرتا ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں اور اسے ادائیگی کا کہیں شاید آپ کے کہنے پر ادائیگی کر دے۔میں اس کے ساتھ چلا گیا ۔ دکاندار کہنے لگا کہمیں تو ساتھ ساتھ رقم دیتا رہا ہوں، بہت معمولی ادائیگی باقی ہے۔ باقی تو اسے ساری رقم دے دی ہے۔ میرے ساتھی نے جیب سے ایک کارڈ نکالا کہ یہ آپ نے مجھے پانچ ماہ پہلے دیا تھا اس پر آپ نے تین لاکھ لکھا ہے اور آپ کہتے ہیں ادائیگی ہو گئی ۔ کیسے ہوئی ۔ کارڈ میرے تو کسی کام کا نہیں۔ جواب ملا، ہم اس مارکیٹ کے بہت بڑے اور نامور دکاندار ہیں۔ کسی کو کارڈ دیں آپ کو ادائیگی ہو جائے گی۔ میرے عزیز نے پوچھا کہ کوئی بندہ بتا دیں میں کارڈ اس سے کیش کرا لوں۔ کہنے لگے تین لاکھ کا چیک ہے کسی سے پانچ لاکھ کا سامان خریدو۔ دو لاکھ کیش اور باقی یہ کارڈ دے دو۔میرے عزیز نے اب جیب سے ایک چیک نکالا کہ یہ چیک بھی آپ نے دیا ہے اس پر تیس فروری کی تاریخ ہے ۔ فروری تو بیت گیا ہے مگر تیس تاریخ نہیں آئی اور کبھی آئے گی بھی نہیں۔ دکاندار نے کہا، آپ لوگ انجان ہیں مارکیٹوں میں ایسے ہی چلتا ہے۔اس چیک کو کیش جانیں۔ بس سوچیں کیا لینا ہے اور یہ سب جو آپ کے پاس ہے چلا دیں باقی میری طرف سے آپ کو زیادہ تر ادائیگی ہو چکی۔میرا عزیز اس کاروباری ذہانت سے تنگ آکر فیکٹری بند کر چکا،دکانداروں سے وصولی کا انتظار ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500300 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More