انیلہ مشتاق۔صفدرآباد
فلاں شخص کو عمر قید بامشقت سنا دی گئی ہے ۔ فلاں آدمی کو چوری کے الزام
میں جیل بھیج دیا گیا ہے ۔فلاں کا بیٹا مولوی صاحب کی جیب کترتے ہوئے پکڑا
گیا اسے مارتے ہوئے تھانے لے گئے اور تھانے دار صاحب کے حوالے کر آئے ہیں
اب سال چھے مہینے تو جیل کی چکی پیس کے باہر آئے گا ۔
ایسے بہت سے واقعات آئے روز ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں ۔ کون لوگ ہوتے
ہیں یہ سب جو اس حد تک جاتے ہیں ؟ کن حالات میں ایک انسان کے لئے چوری کرنے
کی نوبت آئی؟ اور وہ چھوٹا بچہ اسے پیسوں کی ضرورت کس کام کے لئے تھی جو
اسے اتنا سنگین قدم اٹھانا پڑا؟ ایسے حالات میں ان کا جیل چلے جانا اور
چھوٹے سے جرم پر سالوں وہاں سڑتے رہنا بہت تکلیف دہ صورتحال ہے
قید بامشقت کا نام سنتے ہی دل دہل جاتا ہے کہ ایک تو قید دوسرا بامشقت۔ کیا
کبھی کسی نے ان قیدیوں کی زندگیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟ کیا کبھی
کسی نے ان کی فیلنگز کو جاننا چاہا؟ کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور اس کال
کوٹھڑی میں کیسی زندگی گزارتے ہیں ؟ ان کے ماں باپ ، بہن بھائی، بیوی بچے
سب کس قدر بے بس اپنے پیاروں کو ان جیل کی سلاخوں کے پیچھے مرتا ہوا دیکھتے
ہونگے
ہمارے ملک کا قانون اتنا اندھا ہے کہ جرم کوئی اور کرتا ہے اور سزا کسی اور
کو بھگتنا پڑتی ہے۔یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرتی چلوں کہ طاقتور اور
کمزور کے لئے قوانین الگ الگ ہیں۔طاقتور اپنی دولت اور پوزیشن کے بل بوتے
بہت جلد با عزت بری کر دیا جاتا ہے چاہے وہ کتنے ہی سنگین جرم میں ملوث
کیوں نہ ہو اور ایک کمزور شخص دولت اور پوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے بے گناہ
ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی جرم کی سزا میں گھیر لیا جاتا ہے ۔
چونکہ میں بات کررہی تھی جیل میں زندگی گزار رہے قیدیوں کی جو الزام ثابت
ہونے یا نہ ہونے کے باوجود بھی اس گھٹی گھٹی زندگی کو گزارنے پر مجبور ہیں۔
جب کوئی شخص اچانک سے کسی جرم میں ملوث ہو کر جیل پہنچ جاتا ہے کیا کبھی اس
نے سوچا ہوگا کہ وہ اتنی تعلیم حاصل کررہا ہے اور مستقبل میں اس کی زندگی
ایسی ہوگی ؟ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ وہ سنہرے سپنے سجاتا ہے اور عظیم انسان
بننے کی تگ و دو کرتا ہے۔اس دوران چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی اسے خوشیوں
سے ہم کنار کرتی ہے۔ ساری زندگی امیدوں پر گزارتا ہے اور جب اسے قید کی
کوٹھڑی میں دھکیلا جاتا ہے تب اس کے خواب،اس کے اپنے رشتے ،دوست احباب یہاں
تک کہ دن رات جن کے ساتھ رہتا ہے سوشل میڈیا کے دوستوں کا جم غفیر وہ بھی
اسے نہیں بچا پاتے بلکہ کچھ تو اس انسان کی ایسی حالت پر ہنستے ہیں اور
ایسے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جیسے وہ جانتے ہی نہیں ۔اس وقت قید کی
تاریکیوں میں جانے والا وہ شخص کتنا بے بس ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا کوئی
بھی اس حالت کا ندازہ نہیں لگا سکتا ۔
بعض اوقات ایک نابالغ بچہ بھی کسی جرم کی پاداش میں سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے
۔ اسے تو خواب دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملتا ۔وہ کن محرومیوں میں اپنی
زندگی گزارنے جارہا ہے۔ نہ ماں کی آغوش، نہ باپ کی محبت کا شفقت بھرا سایہ
اور نہ بہن بھائیوں کا ساتھ، کتنی گھٹن ہوتی ہوگی ان جیل کی سلاخوں میں اسے
،کیا محسوس کرتے ہوں گے وہ ننھے پھول ؟ آخر کو وہ بھی تو انسان ہوتے ہیں
۔سزا دینا بجا ٹھرا لیکن کیا کبھی کسی نے ان کی سزا یافتہ زندگی میں خوشیاں
لوٹانے کی کوشش کی ؟
کتنے ہی مجرم جیل کی سلاخوں میں جا کر اپنے گناہ کی معافی اللّٰہ پاک سے
مانگ لیتے ہوں گے اپنے رب کے سامنے پشیمان ہو چکے ہوں گے لیکن جب تک یہ
قانون ان کو معاف نا کردے وہ آزادی جیسی نعمت سے محروم زندگی گزارتے رہیں
گے ۔
پاکستان کے جیل خانوں میں موجود ابھی بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں قیدی ایسے
موجود ہیں جو اپنی زندگی سے مایوس ہو کر آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ایک تو
زندگی کی تلخیوں نے انسانوں سے خوشیاں چھین لی ہیں ۔ کسی کو غربت کی
پریشانی، کسی کا اعلیٰ تعلیم کا رونا ،کسی کے گھر میں بیٹی کی ڈھلتی عمر کو
لے کے رشتے کا انتظار ،ان سب پریشانیوں کے رہتے اگر کوئی انسان قید خانے کا
راہی بن جائے وہ تو جیتے جی مر جاتا ہوگا۔
ایک مرتبہ میری ایک قریبی دوست سے بات چیت کے دوران پتا چلا کہ ان کے کوئی
عزیز جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے تفصیل کچھ اس طرح بتائی
کہ وہ بہت غریب آدمی ہیں ۔ اپنی فیملی کو دو وقت کی روٹی کھلانا بھی ان کے
لئے بہت مشکل تھا ۔ ایک دن بچوں کے کھانے کا بندو بست کرنے کے لئے چوری
کرنا پڑی اور چوری کرتے پکڑے گئے۔اب جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔انہوں نے کوئی
عرضی نہیں ڈالی یعنی وہ باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔ باہر نہ آنے کی وجہ پوچھنے
پر انہوں نے بتایا کہ جب دو وقت کی روٹی یہاں بغیر محنت کے مل رہی ہے تو
باہر کی زندگی سے یہ دنیا بہتر ہے ۔یعنی انہوں نے حالات سے کیسے سمجھوتہ
کیا کتنی بے بسے تھی ان کے جواب میں ۔
کس حال میں وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے ؟ اور ان کے گھر والے ؟ وہ کیسے
اپنا گزر بسر کرتے ہوں گے ؟ یہ دنیا پریشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کن حالات کے
تحت اس انسان کو چوری کا خیال آیا ہوگا ؟ کیا اس کے بچے اب کچھ کھا کے سوتے
ہوں گے یا بھوکے ؟ کیا ان کی تعلیم و تربیت کا اب کوئی خیال رکھتا ہوگا ؟
ایسے بہت سے سوالات اس معاشرے میں گردش کرتے دکھائی دیں گے جن کا جواب شاید
کوئی بھی نہ دے پائے ۔ لیکن میں حکومتِ وقت سے ان سوالوں کے جواب ضرور
چاہتی ہوں کہ آخر کیوں ایک انسان اپنی اولاد کا پیٹ پالنے کے لیے غلط راستے
کا انتخاب کرتا ہے؟
میری درخواست ہے کہ ان قیدیوں کو انسان سمجھ کر ان کی سزاؤں میں کمی کی
جائے ۔ غلطی تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے ہم تو پھر انسان ہیں اور ایک بار
ان کی قید کی زندگی کے بارے سوچیں ضرور کہ وہ کن مصائب کا شکار ہیں اور
ہمارے مردہ معاشرے سے کیا چاہتے ہیں
|