گزشتہ دنوں ادب اطفال کے دو اہم ستون اور ہم سب کے پیارے محبوب الہی مخمور
بھائی اور نوشاد عادل کا موٹر سائکل کا حادثہ ہو گیا تھا۔اسی حادثے کی اصل
روداد سناتے ہیں۔
تیس جون کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا اسکورنگ آن لائن ورکشاپ تھا۔جس میں شرکت
کی غرض سے ہم نے اپنا موبائل فون بند کردیا تھا کہ کوئی خلل نہ پڑسکے۔جب
تین گھنٹے بعد فون آن کیا تو فون تو کھل گیا مگر دونوں سم کارڈز سے اس نے
آشنائی سے انکار کردیا۔۔۔ہم سمیت بہت لوگوں نے اپنے اپنے فن کے مظاہرے کیے
مگر فون نے سم کارڈ سے رشتہ استوار نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ایک
جاننے والے مستری کے حوالے کیا کہ شاید بن جائے مگر دو دن انہوں نے بھی مغز
لڑایا مگر بے سود ۔یوں ہمیں اس آن لائن ورکشاپ کا مقصد سمجھ آیا ۔یہ ورکشاپ
دراصل ہمارا فون خراب کرنے اور چھبیس ہزار نقصان پہچانے کے کیے منعقد کیا
گیا تھا۔ نئے فون کی خریداری تک ایک دوست سے پرانا فون لیا کہ رابطہ تو
قائم رہے۔اس پرانے فون میں فیس بک وغیرہ کا تکلف نہیں تھا۔گو کہ گھر اور
دفتر دونوں جگہ کمپوٹر موجود ہے مگر ہم نے ان پر فیس بک کی طرف پھٹکے بھی
نہیں۔پرانے فون کی وجہ سے فیس بک اور واٹس اپ وغیرہ سے دور رہے تو لگا کہ
جیسے دن چوبیس کے بجائے تیس گھنٹوں کا ہوگیا ہے۔ بیگم صاحبہ کو بھی ہماری
صحت پر کچھ تشویش ہوئی کہ آج کل جلدی یعنی رات دیڑھ بجے کیوں سو رہے
ہیں۔دوتین دن بعد نیا فون خریدا اور واپس سماجی رابطوں کی دنیا میں
آگئے۔اکمل معروف بھائی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ محبوب الہی مخمور
بھائی اور نوشاد عادل موٹر سائکل سے گر گئے ہیں۔یہ خاصی تشویش کی بات تھی
لیکن اللہ تعالی نے خاص کرم کرتے ہوئے محفوظ رکھا۔دونوں سے بات چیت بھی
ہوئی تو اطمنان حاصل ہوا۔ابھی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اس حادثے کو ضبط
تحریر میں لایا جائے تو حادثے کا جوں کا توں احوال پیش خدمت ہے۔
*******-----*******-------******
محبوب بھائی گزشتہ رات سے ہی بہت سرشاری کے عالم میں تھے کیوں کہ ان کی
اکلوتی بیگم( ان کی ہزارہا خواہشوں کے باوجود اورآخری اطلاع آنے تک) میکے
چلی گئی تھیں اور وہ اس عارضی آزادی پر بہت خوش تھے۔اب انہیں ہماری اس بات
پر یقین آگیا تھا کہ جیسے قربت کافیض ہوتا ہے بالکل ویسے ہی دوری کا فیض
بھی ہوتا ہے اور وہ اس فیض سے مکمل فیض یاب ہو رہے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے
بھی گنگنا رہے تھے کہ "مستی میں جھومے فضا۔۔گیت سنائے گھٹا"۔۔۔ صبح بیداری
کے بعد خوب رگڑ رگڑ کر شیو بنائی،چہرے پر آدھی ٹکیہ صابن کی بھی خرچ کر
ڈالی اور بہت اچھی طرح تیار ہوکر دفتر کے لیے روانہ ہوئے۔روز کے معمول کی
طرح نوشاد عادل کو ان کے گھر سے اٹھایا ۔(اسے پولیس والوں کے اٹھانے سے نہ
ملایا جائے) اور اپنے دفتر کے لیے عازم سفر ہوئے۔دونوں کے دفاتر ایک ہی
علاقے میں قریب قریب واقع ہیں۔محبوب بھائی اس عارضی مسرت سے بھی اتنے مسرور
تھے کہ گنگنانے کے ساتھ موٹر سائکل بھی لہرا رہے تھے جیسے نوعمر بچوں کے
ہاتھ کوئی نوخیز موٹر سائکل لگ گئی ہو۔کسی ناگن کی طرح لہراتی ان کی موٹر
سائکل بھی کچھ خاص ترنگ میں تھی ۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس کی ٹنکی میں
پیٹرول نہیں بلکہ کسی تصوراتی حسینہ کے نینوں کی مستی بھری ہو۔محبوب بھائی
تو ویسے بھی خود کو مخمور کہلواتے ہیں۔ (حالانکہ پاو صدی بیت چلی ہے ان کو
شادی شدہ ہوئے ہوئے۔اب بھی اگر وہ مخمور ہی ہیں اور ابھی تک ان کے ہوش نہیں
اڑے ہیں تو پھر اس میں ان کی بیگم کی ہی کوئی کجی کوتاہی ہوگی۔
کیا پتا بچوں کی کچھ شفقت انہوں نے محبوب بھائی کو بھی عطا فرمادی ہو۔)مرد
کی خصلت ہے کہ وہ ہمیشہ جوان ہی رہنا چاہتا ہے لیکن اصول فطرت ہے کہ ہر چیز
کو زوال ہے۔پچاس پچپن سال سے زائد ہوکر بھی خود کو جوان ہی سمجھتا ہے (اب
قبر کا حال تو مردہ ہی جان سکتا ہے)البتہ کسی کو اچھا حکیم ٹکراجائے تو الگ
بات ہے۔ جوانی بیت بھی جائے تو ٹھرک سدا جوان رہتی ہے بلکہ پھلتی پھولتی
رہتی ہے کہ یہ خالصتا" مردانہ علت ہے اور ہر ایک اس میں مبتلا ہے۔ہمارے آپ
کے سب کے محبوب بھائی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت میں تھے جسے مذید سادہ الفاظ
میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اردو ادب خصوصا" ادب اطفال کے یہ دونوں ستون ابھی
گلستان جوہر سے باہر نکل کر راشد منہاس روڈ پر پہنچے ہی تھے کہ محبوب بھائی
کو نہ جانے کیا نظر آیا(یا نہ جانے کون نظر آئی) کہ پھر جلوے کی تاب نہ
سہتے ہوئے " جہاں دیکھی تری۔۔وہیں بچھادی دری" کے مصداق ۔۔انہوں نے موٹر
سائکل کے ہینڈل کو کسی نرم و نازک حسینہ کی کلائی سمجھ کر مروڑنے کی کوشش
کی حالانکہ اپنی نورجہاں تو چیخ چیخ کر تنبیہ بھی کرچکی ہیں کہ "چھڈ میری
وینی نہ مروڑ "۔۔لیکن محبوب بھائی تو کسی اور دنیا میں تھے۔ان کے پیچھے
سمٹے سمٹائے نوشاد عادل شاید کسی نئے ناول کا خیال سوچ رہے تھے۔( یہ بھی
ذہن میں رہے کہ اگر نوشاد عادل موٹر سائکل پر محبوب بھائی کے پیچھے بیٹھے
ہوں تو آپ انہیں صرف اطراف یا عقب سے ہی دیکھ سکتے ہیں کیوں کہ آگے سے آپ
کو صرف اور صرف محبوب بھائی ہی نظر آئینگے۔اس سہولت کا فائدہ نوشاد عادل
سردیوں میں زیادہ اٹھاتے ہیں کہ کراچی میں کبھی سردی پڑجائے اور یخ بستہ
ہوائیں چلیں تو ان کا مقابلہ موٹر سائکل چلاتے ہوئے محبوب بھائی تن
وتنہا(ویسے محبوب بھائی کے لیے بھی یہ تن و تنہا لکھنا درست ہے یا
نہیں۔ہمیں نہیں معلوم وہ تو خود اپنی ذات میں انجمن بلکہ دو ڈھائی من ہیں)
ہی کرتے ہیں کیا مجال ہے کہ جو نوشاد عادل کی طرف سرد ہوا کا ایک جھونکا
بھی پہنچ سکے۔دوسرا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب شہر میں ڈبل سواری پر پابندی
لگی ہوئی ہو تو پولیس والوں کو محبوب بھائی کے پیچھے بیٹھے نوشاد عادل نظر
ہی نہیں آتے اور جب نظر آتے ہیں تو اس وقت تک موٹر سائکل دور جا چکی ہوتی
ہے یا پولیس والے کسی دوسرے مرغے کو گھیر چکے ہوتے ہیں۔) موٹر سائکل کا
ہینڈل کوئی نرم ونازک کلائی تو تھا نہیں کہ جس کی حامل موصوفہ شرماتے ہوئے
فرمائیں " اللہ ۔۔اب چھوڑیں نہ۔"(حالانکہ دل میں خاتون کے یہی ہوتا ہے کہ
"نہ چھوڑیں") لیکن محبوب بھائی اسے یہی سمجھ رہے تھے اور اپنی دانست میں
نازک کلائی موڑے چلے جارہے تھے کہ یکایک موٹر سائکل کے اگلے پہیے نے یوں
زمیں چھوڑی جیسے کسی نئے میزائل کی تجرباتی اڑان ہو۔
کسی کے پیروں سے زمین نکلنا تو سنا ہے لیکن یہاں ہمارے دونوں ادبی ستونوں
کی تشریف شریف کے نیچے سے موٹر سائکل نکل گئی۔دونوں ادیب صاحبان بنا ٹکٹ
کچھ ہوائی سفر سے لطف لیتے ہوئے زمیں بوس ہوگئے۔بہت سارے حاسد انہیں زمیں
بوس دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ سب دیکھ لیں کہ ان کی خواہش پوری ہوگئی ہے۔وہ
اسی پر اکتفا کریں۔درحقیقت ان کی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی۔انشا اللہ۔
"اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ۔۔کچھ یہاں گرے کچھ وہاں گرے" کے مصداق دونوں نے
الگ اگ جگہ لینڈ فرمایا۔ ادب اطفال سڑک پر آگیا تھا۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی
سڑک کو بھی "باادب"کہلانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔محبوب بھائی کچھ آگے غروب
ہوتے ہوئے دیوار سے گلے ملتے نظر آئے جبکہ نوشاد عادل ابھی تک سڑک کو ہی
زینت بخش رہے تھے۔وہ ابھی اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ عقب سے کسی میزائل کی
رفتار سے ایک ناہنجار راکٹ رکشہ ان کی طرف آنے لگا بالکل ویسے ہی جیسے کسی
خاتون خانہ کا بیلن میزائل اپنے حدف کو باآسانی نشانہ بنا لیتا ہے۔مگر اللہ
کا کرم ہوا کہ وہ ان کی بالکل قریب سے گزرتا ہوا بغیر نشانہ بنائے ہوئے یہ
جا۔۔وہ جا ہوگیا (بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے فیلڈرز کی تھرو بالکل قریب سے
بھی نشانے پر نہیں لگتی ہے)۔۔شاید یہ رکشہ وہ ٹارگٹ قاتل تھا جس کا نشانہ
چوک گیا تھا۔اس حادثے میں دونوں کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی البتہ گٹھنوں پر
"چونیاں اٹھنیاں" ضرور چھپ گئی تھیں۔۔گھٹنوں پر اگر یہ چونیاں اٹھنیاں چھپ
جائیں تو خاصے فرائض انجام دینے مشکل ہوجاتے ہیں۔اب وہ کون سے فرائض ہیں۔ان
کے متعلق یہاں لکھنے سے قاصر ہیں۔ویسے بھی آپ سب سمجھدار ہیں۔ ایک طرف
نوشاد عادل بیچ سڑک پر استراحت فرماتے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ اس خونخوار
رکشےکا تعلق ڈربہ کالونی کے کسی دشمن سے تھا یا یہ کسی ادبی" دوست" کی محبت
تھی۔اب نوشاد عادل بھی کسی کے خیالوں میں مگن تھے یا سڑک پر حاضر دستیاب
نظاروں سے ہی کام چلا رہے تھے۔یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں( موصوف بھی دوتین
بار بیوی کے اکلوتے ہونے کا شکوہ فیس بک پر کر چکے ہیں) مگر بعد میں فیس بک
پر انہوں نے "سیاسی" بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اس وقت عنقریب شائع ہونے
والی کتاب" آپ بیتیاں" حصہ دوم (اس میں ہماری پاپ بیتی بھی شامل ہے۔) کے
سرورق کے متعلق سوچ رہا تھا اور آج آرٹسٹ سے بھی ملنا تھا مگر کچھ نامعلوم
وجوہات کی بنا پر ہونے والے اس حادثے نے انہیں آرٹسٹ کے بجائے ڈاکٹر سے
ملوادیا۔اب ڈاکٹر تو سرورق بنانے سے رہے۔(نوشاد بھائی کی اطلاع کے لیے عرض
ہے کہ کچھ ڈاکٹر بھی "سرورق" بناتے ہیں۔
ان ڈاکٹروں کو کاسمیٹکس سرجن کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بیوٹی پارلر والی
"ڈاکٹرنیاں" تو "سرورق" بنانے میں خاص مہارت رکھتی ہیں کہ سرورق دیکھتے ہی
دل سے آواز نکلے کہ "دل مانگے اور"۔"اندرونی کتاب" چاہے کتنی ہی بوسیدہ اور
بیکار ہو مگر یہ ایسے سرورق بناتی ہیں کہ بس ۔۔کیا بتائیں۔جو صاحبان ان
"سرورق" کے چکر میں "مکمل کتاب" لے آتے ہیں ۔بعد میں وہ پچھتاتے ہیں کہ
دلکش سرورق کے چکر میں خشک فلسفے کی کتاب اٹھا لائے ہیں۔ دوسری طرف محبوب
بھائی جس دیوار کے سائے میں غروب ہوئے تھے ۔۔۔وہاں تین چار خیمہ زن (عبایہ
میں ملبوس) خواتین کھڑی تھیں اور دیوار پر جلی حرفوں سے لکھا ہوا تھا۔ "
محبوب آپ کے قدموں میں" جس سنیاسی یا بنگالی بابا کا وہ اشتہار تھا وہ
یقینا" بہت پہنچا ہوا عامل تھا۔اس کےعلم کی یہ زندہ مثال تھی کہ واقعی
محبوب قدموں میں آ پڑے تھے۔اب محبوب بھائی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا
کہ ان خواتین میں سے وہ کس کا حدف بنے ہیں۔وہ تو ان سب کے لیے حاضر تھے۔(
یہ مرد کا ہی دل ہے جو اتنا وسیع ہوتا ہے کہ جس میں بہت ساری محبوباوں اور
پڑوسنوں کے ساتھ ایک آدھ زوجہ کی بھی گنجائش نکل آتی ہے)۔ اور اب ہم اپنی
پیشہ ورانہ (پولیس والی) عادت سے مجبور ہو کر یہ سراغ لگانے کی جستجو میں
ہیں کہ آخر ان موصوفہ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ انہوں نے محبوب بھائی کو
زمین پر آنے پر مجبور کردیا تھا۔(ویسے یہ خوبی ہماری کچھ بڑی ادکاراوں اور
ماڈلز میں ہے کہ وہ اکثر ہی بڑے بڑے جہاز گراتی رہتی ہیں)۔ وہ تو بتائیں گے
نہیں۔ شاید کلوز سرکٹ کیمرے میں ہی اس رخ زیبا کی کوئی جھلک آگئی ہو۔ویسے
ان موصوفہ کو دیکھنے کی اس خواہش میں پیشہ ورانہ نظر سے زیادہ ہماری ٹھرک
بھی شامل یوسکتی ہے آخر کو ہم بھی تو پچاس ٹاپ چکے ہیں۔ اب اس حادثے کے بعد
وہ دفتر کیا جاتے۔واپس گھر لوٹ آئے۔ہائے افسوس کہ محبوب بھائی کی سرشاری کا
دورانیہ طوالت نہ پاسکا اور ان کی بیگم اس حادثے کا سن کر فورا" واپس چلی
آئیں۔محبوب بھائی اب بہت زیادہ صدمے کی حالت میں تھے۔اب یہ انہیں ہی معلوم
ہے کہ یہ صدمہ انہیں حادثے کی وجہ سے تھا یا بیگم کے دوسرے ہی دن لوٹ آنے
کی وجہ سے۔۔۔۔(ختم شد)۔ ***( محبوب بھائی بہت بڑے ادیب ہی نہیں بہت بڑے
انسان بھی ہیں ۔جنہوں نے بخوشی اس مضمون کو فیس بک پر پوسٹ کرنے کی اجازت
دے دی حالانکہ ان کی ہی ذات کو زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ شکریہ۔۔محبوب
بھائی۔۔۔اسی لیے تو سب کہتے ہیں کہ " تمہی ہو محبوب میرے۔۔میں کیوں نہ
تمہیں پیار کروں" ( اب میں مکمل یقین کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یہ کہنے والے
ان سب لوگوں میں ہماری بھابھی صاحبہ بھی شامل ہیں)۔۔محبوب بھائی اور نوشاد
عادل۔۔۔آئی لو یو۔۔)***
|