افکارِ اقبال اور اوپن یونیورسٹی کے شاہین

کالج میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے استادِ محترم کو کال آئی۔کال کرنے والا نوجوان لڑکاتھا، جس نے گریجویشن کے ٹائٹل کو اپنے نام کرنے کے لئے اوپن یونیورسٹی کاسہارالیاتھا۔موصوف کے ذمہ نصابی کتب سے مشقیں لکھواناباقی تھا تاہم وہ بضد تھاکہ کسی صورت مشقیں لکھنے کاقابل نہیں ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی کاہلی ، آرام طلبی اورکام چوری کوچھپاکریہ تاثردیناچاہتاتھاکہ وہ انتہائی محنتی اورجفاکش ہے اوراقبال کا حقیقی شاہین ہے، مگر بے تحاشا مصروفیات کی وجہ سے مشقیں لکھنے کی فرصت نا پاسکا۔موصوف جھوٹ اورمکروفریب کا ماہرتھا اوراپنی بات کو منوانے کے لئے کئی من گھڑت قصے بیان کئے مگریہاں ہمارے دوست تھے جوانتہائی اصول پسند تھے اور کسی طوراس امرکے لئے تیارنہ تھے کہ مشقیں دیکھے بغیر کسی کو نمبرزدیکر یونیورسٹی کے ریکارڈ میں اسے کامیاب قراردے۔استاد ِ محترم نے صاف صاف انکارکردیا اوراسے دوتین دن کی مہلت دیکر مشقیں لکھنے کی گزارش کردی۔

علامہ محمداقبال ؒ کے نام پر بننے والابین الاقوامی معیارکاجامعہ ، جہاں پاکستان جیسے ملک میں لوگوں کی غربت اوردور دراز علاقوں میں رہنے کی وجہ سے فاصلاتی نظام تعلیم کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ جامعہ اپنی طرف سے بھرپورکوشش کرتاہے کہ طلبہ کو تمام ممکن سہولیات فراہم کرکے لکھنے پڑھنے کے قابل بنائے جائے۔ اس مقصد کے لئے جامعہ طلبہ کو گھرکی دہلیز پرمعیاری کتب پہنچادیتاہے اور وقتاً فوقتاً تربیتی نشستوں کااہتمام کرکے اقبال کے شاہینوں کو اس قابل بنادیتاہے کہ وہ اپنی کتب سے حتیٰ المقدور استفادہ کرسکے، مگر افسوس کہ اقبال کے شاہین اب شاہین نہ رہے ۔ نہ اونچی اُڑان بھرتے ہیں اور نہ جھپٹنے پلٹنے اور لہوگرم رکھنے کاجذبہ رکھتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے جوانوں کوستاروں پرکمندیں ڈالنے کامشورہ دیاتھامگر اس دور کے نوجوانوں کی کمند یں لب بام پہنچنے سے پہلی ہی ٹوٹ جاتی ہیں ۔ علامہ اقبالؒ نے نوجوانوں کوملک اورقوم کاسرمایہ قراردیاتھاکیونکہ یہی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاکر ملک کودرپیش مسائل اورچیلنجز کامقابلہ کرتے ہیں اور اپنی قوت اور علم کے بل بوتے پر اپنے ملک کوترقی کے سفرمیں آگے لے جاتے ہیں ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ان نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے بنی ہوئی ہے اورعلامہ اقبال کے افکار اورنظریات کے فروغ کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتی ہے مگردوسری طرف ہمارے نوجوان ہیں کہ مے ذوقِ تن آسانی میں ایسے مست ہیں کہ نہ اپنی فکر ہے، نہ اسلاف کے کارناموں کی کوئی خبر ہے اورنہ اپنے ملک کی ترقی کی کاجذبہ ہے۔ فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت اوپن یونیورسٹی اپنے طلبہ کی سہولت کے لئے مختلف علاقوں میں تربیتی نشستوں کااہتمام کرتی ہے مگر ان نشستوں میں شرکت طلبہ اپنے لئے حرزجان سمجھتے ہیں اوراس امیدمیں امتحانات میں شرکت کرتے ہیں کہ پرچے پاس کرنے کے لئے انہی کتابوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نقل کاذریعہ بنائیں گے۔نہ اسائمنٹس لکھنے کی زحمت اورنہ کتاب پڑھنے کی فرصت ہے۔ کیاں علامہ اقبالؒ کے نوجوان ایسے ہوں گے اورکل اس ملک کی باگ ڈور انکے ہاتھوں میں ہوں گی۔علامہ محمداقبال ؒ کے افکار، خیالات اورتصورت میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔مگرہمارے نوجوان تن آسانی ، سستی اورکاہلی کے ایسے شکارہوگئے کہ اپنے مقصد کو فراموش کربیٹھے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طلبہ کاطرز عمل دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہیں ہورہاکہ یہی طلبہ اقبال کے افکار، خیالات اورنظریات کی ترجمانی کرتے ہوئے دنیامیں پاکستان کانام روشن کریں گے۔
 

MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 119726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.