السلام علیکم
آج ہمارے ماحول کے اندر بار بار یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ان دینی مدارس کو بند
کر دیا جائے ان کو ختم کر دیا جائے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اگرچہ عناد کی
وجہ سے نہیں لیکن ہمدردی کے پیرایہ میں ان نعروں کے ساتھ ہم آواز ہوجاتے ہیں
اور بعض اوقات اپنی دانست میں اصلاح کی غرض سے مشورے دیتے ہیں۔
کبھی کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ مولوی کے کھانے کمانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
لہٰذا ان کو کوئی ہنر سکھانا چاہئے بڑھی کا کام سکھادو، کچھ لوہار کاکام سکھا
دو، کچھ اور صنعتی کام سکھادو کہ یہ اپنی روٹی کما سکیں۔
لوگ طرح طرح کی تجویزیں لے کر آتے ہیں کہ ایک دارالصناع قائم کرو تاکہ ان
مولویوں کی روٹی کا بندوبست ہوجائے۔ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع
صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کیلئے اس مولوی کی روٹی کی فکر چھوڑ دو۔ یہ اپنی
روٹی خود کما کر کھا لے گا اس کی فکر چھوڑ دو۔
مجھے کچھ مثالیں ایسی دے دو کہ کسی مولوی نے فقروفاقہ کی وجہ سے خود کشی کی ہو،
بہت سے پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری رکھنے والوں کی مثالیں میں دیتا ہوں جنہوں نے
خود کشی کی اور حالات سے تنگ آ کر اپنے آپ کو ختم کر ڈالا اور بہت سے ایسے ملیں
گے کہ جو ان ڈگریوں کو لئے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی لیکن
ایک مولوی ایسا نہیں بتا سکتے جس نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کی ہو یا اس کے
بارے میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ بے کار بیٹھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے
مولوی کا بھی انتظام کردیتے ہیں۔ دوسروں سے بہت اچھا انتظام فرماتے ہیں۔
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی فرمایا کرتے تھے اگر کسی مسلمان کو کچھ بھی نہ
آتا ہو اور وہ صرف اذان ہی یاد کر لے کسی بستی میں موذن ہی مقرر ہو جائے تو وہ
کبھی بھی بھوکا نہیں مرسکتا۔ |