روبرو ہے ادیب: رخشندہ بیگ

اس بار ہم محترمہ رخشندہ بیگ صاحبہ سے ہونے والی گفتگو آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
رخشندہ بیگ صاحبہ ادب اطفال کی معروف لکھاریوں میں شمار ہوتی ہیں۔
تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری


رخشندہ بیگ صاحبہ بے حد ملنسار، سادگی پسنداورصاف گو لکھاری ہیں،ان کی تحریریں زندگی کے بہت سے پہلو اُجاگر کرتی ہیں۔ یہ صاحب کتاب بھی ہیں اورمشاہدے کی دولت سے بھی خوب مالا مال ہیں ان کی باتوں کی گہرائی آپ کو آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ دل کی گہرائی سے سچائی بیان کرتی ہیں۔


لیجئے آپ کے سامنے گفتگو پیش خدمت ہے، ہماری مانند آپ بھی رخشندہ بیگ صاحبہ کی باتوں سے ضرور محظوظ ہونگے۔
------------------------------------
سوال: سب سے پہلے یہ پوچھنا چاہوں گاکہ آپ کو”خانہ کعبہ“ میں حاضری کا موقع ملا ہے، اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیجئے کہ وہاں جا کر کیا کچھ محسوس ہوا تھا؟
جواب: شکر الحمدللہ جتنے سجدے کروں کم ہے۔اب تک تین بار یہ اعزاز مجھے اپنے رب کی بارگاہ سے مل چکا ہے۔پہلی بار 22 سال کی عمر میں جب حج جیسی عبادت کے لیے سفر بیت اللہ کیا،وہ اس سرزمین پر رکھا پہلا قدم،وہ خانہ کعبہ کی پہلی نظر اور میرے لرزیدہ قدم اور بہتے آنسو۔۔۔۔میں اس کیفیت کو چاہوں بھی تو الفاظ کا پیراہن پہنانے سے قاصر ہوں۔
بس لگتا تھا ایک محبت کا عظیم بحر بیکراں ہے اور میں رحمت اور نور کی بارش میں بھیگی جارہی ہوں۔ایسی تڑپ اور کشش تھی جو بیان سے باہر ہے۔غلاف کعبہ سے لپٹ کر اس طرح روئی تھی جیسے صدیوں کی مسافت طے کرنے کے بعد ماں کی پر شفقت آغوش میسر آگئی ہو۔
بس میرا قلم اس وقت کے جذبات کا اظہار کرنے سے محروم ہے۔پہلی بار کے بعد بھی اس مبارک سرزمین کے دوسفر کیے اور ہر بار وہی کیفیت اور لرزہ طاری رہا۔بس اللہ محبت ہے اور بے حد مہربان اس کے علاوہ کچھ بھی کہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
اپنی لکھی نعت کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
نعت ''رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"
''قلب سیاہ کار کو ایک نور عطا ہوا
نام محمد لبوں سے جب مرے ادا ہوا
اوج کمال کو پہنچا مقدر کا ستارہ
میں جب سے درمصطفی کا گدا ہوا
جب بھی ڈوبا سنبھالا دے دیا مجھے
کرم محمد اس عاصی پہ یوں سدا ہوا
چاک مصطفی پہ کیا خوب ڈھلا ہوں میں
ذرہ تھا بے کار سا زمیں پہ پڑا ہوا
خاک طیبہ جو مرہم بن گئی ہے اپنا
اب نہیں ہوں میں زخموں سے اٹا ہوا
اب کوئی نہ رخشی سے الجھے لوگو!!
تبرک ہے ہاتھ میں در سرکار سے بٹا ہوا
٭٭٭٭٭


سوال: آپ کے خیال میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے پر انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے؟
جواب: سکون حاصل ہی صرف رب سے تعلق جوڑنے پر ہوتا ہے۔باقی تمام دنیاوی رشتے،تعلق ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔اللہ جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔پھر کوئی بھی اور تعلق یا رشتہ ہمیں اس درجہ سکون کیسے دے سکتا ہے۔جو رب کریم سے بندہ تعلق جوڑ کر حاصل کرسکتا ہے۔میں نے جب بھی زندگی کے سردوگرم اور بے ثباتی سے گھبرا کر اپنے اردگرد دیکھا تو اپنے رب کو ہمیشہ اپنا حوصلہ بنا ساتھ پایا۔
یہ وہ تعلق ہے جو ہمارے وجود پانے سے پہلے سے ہی قائم ہو جاتا ہے اور فنا کی راہوں میں گم ہونے کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔


٭٭٭٭٭


سوال:آپ کا قلم سے رشتہ کب اور کیسے جڑا ہے، اب تک کتنا لکھ چکی ہیں؟
جواب: یاد نہیں پڑتا۔۔۔جب الفاظ کے ذریعے اظہار کے لیے قلم تھاما تو شعور کی کس منزل پر تھی۔مگر بہت کم عمری سے ڈائری لکھتی تھی اور بہت سی نظمیں،اشعار،کچھ کہانیاں،روزمرہ کے واقعات کے ساتھ ڈائری میں لکھنے کی عادت بہت ابتدائی عمر سے ہی تھی۔
زندگی کے نشیب وفراز اور ذمے داریوں میں یہ رشتہ کچھ عرصے ٹوٹا رہا اور اب باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا ہے کچھ دو سال ہوئے ہیں۔اب تک بہت سے آرٹیکل،افسانے،مائیکروفکشن،کچھ نظمیں اور غزلیں لکھ چکی ہوں۔بچوں کے لیے بھی کافی کہانیاں اور نظمیں لکھی ہیں۔
٭٭٭٭٭


سوال: آپ کے والدین نے ادبی میدان میں آگے بڑھنے میں کس طرح سے تعاون کیا ہے؟
جواب: والد صاحب جنت مکانی مطالعہ کے بہت شوقین تھے۔ان سے ہی مطالعہ کی عادت ورثہ میں ملی جس نے آگے چل کر قلم سے رشتہ جوڑنے میں مدد دی۔
والدہ نے بھی ہمیشہ پڑھائی کے معاملے میں ہمت افزائی کی ہے۔آج جو بھی کچھ ہوں جس قابل بھی ہوں اس میں ماں باپ کی حوصلہ افزائی اور دعائیں شامل ہیں۔دوبارہ قلم سے رشتہ جوڑنے میں شوہر کی ہمت افزائی اور رہنمائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سوال:کیا آپ اپنے اصلی نام سے لکھ رہی ہیں، قارئین کے لئے یہ آج انکشاف کر دیں؟
جواب:میں اپنے اصلی نام سے ہی لکھتی ہوں رخشندہ اور بیگ میرے والد کی طرف سے کاسٹ ہے تو والد کا نام اپنے نام کے ساتھ لگاتی ہوں یہ ان کو خراج تحسین ہے۔
٭٭٭٭٭


سوال:آج کن موضوعات پر ادب اطفال میں کام کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: جہاں تک میری رائے ہے۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت ٹوٹتے ہوئے رشتے اور بکھرتی ہوئی اقدار ہے۔ہمیں بچوں کی ذہن سازی اس حوالے سے کرنی چاہیے۔تاکہ وہ بیرونی کلچر کے مقابلے میں اپنی مٹی سے جڑے رہیں۔
سوال:کن نئے لکھاریوں کے کام سے بے حد متاثر ہوئی ہیں؟
جواب: ماشااللہ بہت سے نئے لکھاری ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔جو پورے خلوص سے کام کرتا ہے اس کا کام خود ہی سب کو نظر آنے لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭


سوال:ایک لکھاری گوشہ نشینی میں کیوں چلا جاتا ہے؟
جواب: ہمارے ہاں بے جا تنقید اور اقربا پروری کا رواج ایک ایسا زہر ہے جو ادیب جیسے حساس انسان کو گوشہ نشینی میں دھکیل دیتا ہے۔بدصورت روئیے ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭




سوال: آپ کی نظر میں ایک لکھاری/شاعر کی حوصلہ افزائی کیوں ضروری ہے؟
جواب: حوصلہ افزائی تو ہر کسی کو درکار ہوتی ہے، لکھاری اور شاعر کے لیے تو شاید یہ سانس کی طرح ہے۔ایک حوصلہ افزائی کا پیٹرول ہی ہے جولکھاری کی گاڑی کو آگے بڑھاتا ہے۔
بڑے بے درد ہمیں غم گسار ملے ہیں کہ فریب
کھائے تو وفا شعار ملے ہیں
٭٭٭٭٭


سوال: ایک اچھے اور بڑے ادیب کی تعریف کن الفاظ میں کرنا چاہیں گی؟
جواب: اچھا اور بڑا ادیب میری نظر میں وہ ہے جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر چلتا ہے اور ترقی کے زینے چڑھنے کے لیے دوسروں کے پیر پکڑنے کی بجائے پیچھے آنے والوں کے ہاتھ تھام اپنی منزل کی جانب بڑھتا چلا جائے۔
٭٭٭٭٭


سوال: کس طرح سے بچوں کو رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟
جواب: یہ بہت اچھا سوال ہے۔میں ایک لکھاری ہونے کے ساتھ ماں بھی ہوں مختلف عمروں کے بچوں کی نفسیات اور ترجیحات پر نظر رہتی ہے۔آج کا بچہ اپنی دنیا خود دریافت کرنا چاہتا ہے۔اسے اپنی پسند پر ناز ہے۔وہ ہدایات لینا پسند نہیں کرتا۔ہم بچوں کے ہاتھ میں زبردستی کتاب نہیں پکڑا سکتے۔بچے یا تو مشاہدہ کرتے ہیں یا تجربہ کرنا پسند کرتے ہیں۔بچوں کو جب پیسے لے کر رنگ برنگی چاکلیٹس،چپس وغیرہ لیتے دیکھتی ہوں یا پھر اسٹیشنری شاپ سے خریداری کرتے تو بڑا دل کرتا ہے کہ ان دوکانوں میں کہیں سب سے آگے ایک ایسا کارنر ہو۔ایک ایسا شیلف ہو جہاں بچوں کی نگاہ سب سے پہلے پڑے اور وہاں بچوں کے لیے رنگ برنگ خوبصورت کتابیں سجی ہوں۔
ہم جب بچوں کو کھانے کی پچاس والی لیز،سو والی چاکلیٹ دلائیں تو ساتھ ہی کتاب بھی لے کے دلائیں، کوئی بچوں کا میگزین بھی دلائیں۔یہ ہرگز بھی مہنگا نہیں ہے۔اس سے یہ ہوگا کہ بچے کی ترجیحات میں روزمرہ میں کتاب شامل ہوتی چلی جائے گی اور ہھر وہ خود بھی کتاب کی جانب راغب ہوگا۔اس کے علاوہ بچوں کو تحائف میں دلچسپ کتب دی جائیں۔اور کتاب پڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
٭٭٭٭٭


سوال: آپ کے خیال میں کوئی مخصوص کردار تخلیق کرکے لکھاری کو اپنی الگ پہچان بنوانی چاہیے؟
جواب:یہ ایسا ضروری تو نہیں۔ہاں اگر کوئی بنانا چاہے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔میں نے بھی اپنے افسانوں میں دو کردار منچلا منچلی کے نام سے تخلیق کئے ہیں۔
٭٭٭٭٭


سوال:آپ کے خیال میں صاحب کتاب ہونا کوئی قابل فخر بات ہے؟
جواب: میری پہلی کتاب ''زندگی تیرے نام '' میرے لیے تو اعزاز کی بات ہے۔اس حساب سے تو صاحب کتاب ہونا باعث فخر بنتا ہے۔
٭٭٭٭٭


سوال: کن رسائل میں لکھ کر خوشی محسوس ہوئی ہے؟
جواب: اچھے معیاری رسائل جو واقعی پڑھے جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭


سوال: اچھی کہانی یا نظم کی آپ کیسے تعریف کریں گی؟
جواب: بے ساختہ داد۔۔۔۔میں تو اسی کی قائل ہوں اچھی تحریر چاہیے کسی کی بھی ہو جب دل کو چھو جاتی ہے تو بیساختہ داد لکھنے والے کے لیے۔
٭٭٭٭٭


سوال:لکھاریوں کو معاوضے دینے کے حوالے سے کیا سوچ رکھتی ہیں؟
جواب: لکھاری سے بلا معاوضہ خدمات لینے کا چلن ہمارے ہاں بہت عام ہے۔جبکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی خدمات کے بدلے معاوضے کا رواج ہونا چاہیے۔لکھاری کی داد وتحسین کے علاوہ بھی ضروریات ہوتی ہیں۔آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں انسانی خدمات معاوضہ دے کر حاصل کرتے ہیں پھر لکھاری کو کیا ادنیٰ سے ادنیٰ خدمات کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔
٭٭٭٭٭


سوال:آپ کے خیال میں ادبی تنظمیں بھرپور طور پر ادب کی خدمت کر رہی ہیں؟
جواب: میرے خیال سے ابھی اس پر مزید کام اور محنت کی ضرورت ہے۔سب سے بڑھ کر اہمیت خلوص نیت کی ہے۔
٭٭٭٭٭


سوال:آپ کے خیال میں ادب اطفال آج ماضی کے مقابلے میں کتنا بہتر ہے؟
جواب: دیکھا جائے تو ماضی کے سنہرے دور کے بعد جو خلاء پیدا ہوچکا تھا اور ہر جگہ خاک اڑتی دکھائی دیتی تھی۔اس کے مقابلے میں اس وقت صورت حال بہت بہتر ہے اور امید ہے کہ اچھا کام کیا جاتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭


سوال: کل کا مورخ کن الفاظ میں ”رخشندہ بیگ“ کو یاد کرے گا؟
جواب: میں نہیں سمجھتی کہ کوئی ایسا کام کیا ہے کہ کل کا مورخ یاد رکھے۔بس اللہ ہے باقی سب فانی ہے۔
٭٭٭٭٭


سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: بس اتنا ہی خلوص نیت شامل حال رکھیں منزل خود ہی سامنے سر جھکائے کھڑی نظر آئے گی۔
آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480366 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More