ترجمہ نگاری سے طبع زاد تک کا سفر

حساس، ملنسار اورمحبت کرنے والا شخص جوجہدوجہد کرنے اورمثبت سوچ کا حامی ہے۔ مصنف سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ [email protected]

تحریر و تحقیق: ذوالفقار علی بخاری

برقی پتہ:[email protected]


”کسی تحریر اورخیال کو ایک زبان سے بعینہ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام”ترجمہ“ ہے“ اور یہ عمل ”ترجمہ نگاری“ کہلایا جاتا ہے۔


”ترجمہ“ ایک مستقل اور قدیم فن ہے۔ اسی کے ذریعے ایک زبان کے علوم و فنون کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے، جس سے زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں“۔


اس حوالے سے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ”ترجمہ نگاری“ ادب کا ایک اہم حصہ ہے جس سے کسی بھی زبان کوفروغ دیا جا سکتا ہے۔یہاں یہ بھی دھیا ن رکھنا پڑے گا کہ ہم ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے یہ بات بھول جائیں کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے،اُس میں ایسا کچھ کیوں نہ لکھا جائے کہ ترجمہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
اگرچہ دوسری زبان کے ادب کو ترجمہ کرنے سے بہترین ادب پڑھنے کو مل سکتا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اُسی میں بہترین ادب کیوں نہ تخلیق کیا جائے۔


اس حوالے سے ایک مثال دینا چاہوں گاکہ پاکستان میں چھوٹے بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے دیگر زبانوں سے ترجمہ کرکے اُن کی ضرورت کو پورا کیا جا رہا ہے لیکن اس جانب نئے لکھاریوں یا پھر نامور ادیبوں نے کام بے حد کم کیا ہے کہ طبع زاد ادب اُن چھوٹے بچوں کے لئے تخلیق کرکے پیش کیا جائے۔اگرچہ یہ ایک بے حددشوار کام ہے مگر اس پر کام ہونا چاہیے، اب یہ سستی ہے یا پھر لاپروائی کہ طبع زاد ادب کی بجائے ترجمے کے انبارلگائے جا رہے ہیں۔


”طبع زاد“ ایسی تحریروں کے لئے اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ کسی بھی لکھاری کی اپنی تخلیق کردہ ہوتی ہے۔وہ کسی بھی زبان سے ترجمہ نہیں کی گئی ہوتی ہے اس کا حقیقی مالک اُس تحریر کا لکھنے والا ہی ہوتا ہے۔


اس حوالے سے چند دیگر اصطلاحات پر بھی بات کرنا مناسب سمجھوں گا۔
”کسی کی خالصتاََ اپنی ذاتی لیاقت اورخداداد استعداد سے کوئی کتاب لکھنا تصنیف کہلاتا ہے“۔یہ تصنیف تخلیقی بھی ہو سکتی ہے اور غیرتخلیقی بھی، اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے مرزا ہادی رسواء کا ناول”امراؤ جان ادا“ اور”ڈربا کالونی“،”شیردل“ اور”جی بوائے“،”راجہ گدھ“ تخلیقی تصانیف ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر تخلیقی کتاب کو ہم”تصنیف“ کہہ سکتے ہیں، لیکن ہر تصنیف تخلیقی نہیں ہوتی ہے۔تصنیف کنندہ”مصنف“ کہلاتا ہے۔
اگر ہم”تالیف“کی بات کریں تو مختلف ادیبوں یا شاعروں کی تحریروں کو کسی خاص موضوع یا ترتیب کے ساتھ جمع کرکے کتابی شکل دینا”تالیف کہلاتا ہے“۔
اس کی مثال ہم کچھ یوں پیش کر سکتے ہیں کہ محمد حسین آزاد کی کتاب ”نیرنگ خیال“، شبلی کی ”شعر العجم“،نذیر احمد کی ”توبہ النصوح“ اور علامہ اقبال و مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ”بانگ درا“ اور”مسدس حالی“ سے اقتباسات لے کر کتاب ترتیب دینا ”تالیف ہے“ اور ترتیب دینے والا ”موّلف“ ہوتا ہے۔


جہاں تک اُردو زبان میں ترجمہ نگاری کے آغاز کی بات ہے تو یہ برصغیر میں پندرھویں صد ی کے آخر میں کہیں ہمیں نظر آتی ہے اور دوسری طرف اُردو ترجمہ نگاری کے حوالے سے اگر سب سے پہلی کتاب کا نام لیا جائے تو وہ ”نشاۃ العشق“ ہے جس پر اگرچہ سخت اختلا ف کیا جاتا ہے تاہم اس حقیقت کوجھٹلائے جانا بھی آسان نہیں ہے کہ اولین کتاب ہونے کا شرف اسی کو ہے۔
یہ بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ شاہ میراں جی خدا نما نے ابو الفضائل عبدا للہ بن محمد عین القضا ۃ ہمدانی کی تصنیف ”تمہیدات ہمدانی“ کا عربی زبان سے اُردو زبان میں جو ترجمہ کیا تھا وہ اولین ہے، بہرحال اس پر اختلافات ہیں کیونکہ کچھ محقق حضرات کے نزدیک پہلا ترجمہ ”دستور عشاق“ کا جو ملا وجہی نے ترجمہ ”سب رس“ کے نام سے کیا وہی ہے۔


جس طرح سے ترجمہ نگاری کی اولین تصنیف پر اختلافات ہیں اسی طرح سے ہمارے ہاں طبع زاد اورترجمہ نگاروں کی آپس میں خوب ”ادبی جنگ“ چل رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں محاذوں پر یہ دلیل رکھی جا رہی ہے کہ وہ زیادہ اہمیت کا حامل کام کر رہے ہیں۔اس حوالے سے یہاں تک بات کہی جاتی ہے کہ نامور ادیبوں نے چوں کہ ترجمہ نگاری پر کام کیا ہے اسی وجہ سے ترجمہ نگاروں کاادبی قد کچھ زیادہ ہو جاتا ہے کہ وہ مشکل ترین کام کو سرانجام دے رہے ہیں۔
اگرچہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ترجمہ نگاری ایک مشکل صنف ہے لیکن ہم اس کو طبع زاد پر حاوی نہیں کر سکتے ہیں۔ جہاں تک ادبی قد کی بات ہے تو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو ادیب اپنے ادبی کام کی وجہ سے اپنا قد بڑا کرلیتے ہیں وہ جب ترجمہ نگاری کریں گے تو اُس کی بدولت یہ صنف بھی معتبر تصور ہوگی کہ اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نامور ادیبو ں کی ترجمہ نگاری سے طبع زاد ادیبوں کی وقعت کم ہو گئی ہے۔بہرحال، ترجمہ نگاری کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان میں یوں منتقل کیا جائے کہ اُس کے ثمرات سے بھرپور طور پر فائدہ اُٹھایا جا سکے۔


آپ جانتے ہیں کہ انسان نے زبان کے سہارے اپنی بات کہنے کا فن سیکھا تھا اُس کے بعد دوسری زبان کے شخص کی بات سمجھنے کے لئے یہ ضروری تھاکہ وہ اُس زبان کو سیکھے تاکہ اُسے معلوم ہو سکے کہ غیر زبان میں اُسے کیا کہا جارہا ہے۔
اسی طرح سے ترجمہ نگاری کرتے ہوئے بھی یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ جو کچھ ترجمہ کیا جا رہا ہے وہ ایک قانون و ضابطے کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ ترجمے کا مفہوم بد ل نہ جائے۔یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ ترجمے کو اس طرح بھی بیان نہ کیا جائے کہ وہ اصل زبان سے زیادہ مشکل ہو۔
طبع زاد اورترجمے کا ایک فرق یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی تنظیم یا سرکاری سطح پر کوئی تحریری مقابلہ، سال بھر کی بہترین کتابوں یا بہترین کہانی کا مقابلہ کروایا جاتا ہے تو اس مقابلے کی شرائط میں ایک شرط لازمی ہوتی ہے کہ تحریر، کہانی یا کتاب ترجمہ کی ہوئی نہ ہو۔یہ طبع زاد کے حق میں ایک ٹھوس،نمایاں اورواضح دلیل ہے جو اس کی اہمیت کو اُجاگر بھی کرتی ہے۔


یہاں ایک دل چسپ قصہ سنانا چاہیں گے ہمارے ایک بھارت(ممبئی) سے محبوب دوست ”میر صاحب حسن“ ہیں جو کہ وہاں سے ”تریاق“کے نام سے اُردو زبان کا ایک رسالہ نکال رہے ہیں۔
اُنہوں نے ایک بار یہ قصہ سنایا تھا کہ انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک کتاب خریدی۔اُس کو پڑھنے کی کوشش کی تو اس قدر ثقیل زبان میں لکھی گئی تھی کہ اُن کو اُس زمانے میں وہ سمجھ نہیں آسکی اور چند صفحات پڑھ کر کتاب رکھ دی۔
وہ سمجھے کہ شاید یہ وقت سے پہلے پڑھ رہے ہیں تو تب ہی سمجھ سے باہر ہو رہی ہے۔ برسوں بعد جب انہوں نے پھر اُس کتاب کو پڑھا تو معلوم یہ ہوا کہ اُس کتاب کو کہیں سے ترجمہ کیا گیا تھا جو کہ اس قدر پیچیدہ تھا کہ وہ اُن کے لئے سمجھنا ہی دشوار تھا۔


ہمارے ہاں ترجمہ نگاری کرتے وقت بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ چند لکھاری اورترجمہ نگار اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے ہیں کہ وہ بچوں کی نفسیات کے مطابق ہے یا اُن کے سر کے اوپر سے گذر رہا ہے۔ ہمارے ہاں ترجمہ نگارحضرات اس قدر دلیر ہو چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی ترجمہ شدہ تحریریں کسی بھی طبع زاد لکھاری کی تحریروں سے بڑھ کر ہیں جو کہ غلط طرز عمل ہے۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ چوں کہ طبع زاد میں بھی معیاری ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے تو ان کا کام سب پر بھاری ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے نئے آنے والے بھی طبع زاد سے زیادہ ترجمہ نگاری کی جانب مائل ہو رہے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے کہ اس طرح سے تخلیقی ادب کی مقدار کم سامنے آئے گی۔


اس حوالے سے معروف ادب اطفال لکھاری نوشاد عادل سے رائے لی گئی تو انہوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
”یہ تاثر غلط ہے کہ آج کا طبع زاد اچھا نہیں لکھا جا رہا ہے یا اس میں جان نہیں ہے۔ اس سے بہتر ترجمہ کرلیا جائے، سراسر غلط۔جب گھر بیٹھے ملے کھانے کو، تو کون جائے کمانے کو والی مثال ہے۔ اپنے لکھنے کا نشہ ہی الگ ہے۔جو خود چل سکتے ہیں، وہ بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیتے۔غور کریں گے تو یہ حیران کن حقیقت سامنے آئے گی کہ ترجمے کی پرزور وکالت ہمیشہ ترجمہ نگاروں کی جانب سے کی گئی ہے اور ہر فورم پر طبع زاد کو واشگاف الفاظ میں ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیسے ممکن ہے کہ برانڈڈ کپڑے اور کسی انگریزی کے مستر د کردہ لنڈے کے کپڑے برابر ہو سکتے ہیں، یہ ذرا مجھے کوئی سمجھا دے۔اس کا ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے، جو ذہنی بانجھ ہیں، وہ ایڈاپٹ کرتے ہیں جن کا دماغ زرخیر ہے وہ اپنا لکھتے ہیں۔دیکھییے! بڑے سے بڑے سے بڑے ادیب کی بھی ہر کہانی شاہ کار نہیں ہوتی، مگر مسلسل لکھنے سے ہر چند کہانیوں کے بعد نوک قلم سے ایک شاہ کار نکل جاتا ہے۔ بس لکھتے رہنا شرط ہے،باقی جسے جو پسند ہو، وہ کرے، دوسروں پر اپنی پسند زبردستی نہ ٹھونسے۔ سوچیں کہ اگر سبھی ترجمہ کرنے لگ گئے تو اس کا مطلب میری لغت میں یہ ہوا کہ اُس قلم کار نے اُس شعبے میں بھی انگریز کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ہم کوشش تو کر سکتے ہیں، اچھا اور اپنا لکھنے کی، کوئی انگریز ہوگا بڑا ادیب اپنے گھر کا، کم ازکم ہم سب مل کر اپنے بچوں کے ادب کو بھاری تو کر سکتے ہیں نا،یا یہ اچھا ہوگا کہ کہ ترجمے کرکے انگریز کا ادب ہی پھیلاتے رہیں۔ ترجمہ کرنا بھی اہم کام ہے اور آسان نہیں، لیکن طبع زاد کے آس پاس بھی نہیں بھٹکتا“۔



اگر نوشا دعادل صاحب کی بات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ترجمہ نگاری اگرچہ ایک محنت طلب کام ہے اور اس میں لکھاری کو اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے من و عن ترجمہ کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک مشکل کام ہے مگر طبع زاد تحریروں میں یہ مسئلہ نہیں ہے کہ پھر لکھار ی کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے احساسات وجذبات کی بھرپور طور پر ترجمانی کرتے ہوئے تحریر کو کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے اور اس کے انجام تک کا اختیار اُسی کے پاس ہوتا ہے جب کہ ترجمہ نگاری میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہوتی ہے۔اگرچہ یہاں بھی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چند ترجمہ نگار کسی بھی زبان کے ادب کو من و عن بیان کرنے کی بجائے اپنی ذہنی اختراع کو استعمال کرتے ہوئے یوں پیش کرتے ہیں جیسے کہ وہ طبع زاد ہو، کئی ترجمہ نگار اپنی ترجمہ شدہ تحریروں کو ترجمہ قرار دینے سے گریز بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


یہاں راقم السطور یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہے کہ ترجمہ نگاری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دوسری زبان کے ادب کو کسی مخصوص زبان کے پڑھنے والوں سے متعارف کروایا جائے تاکہ زبان کی ترویج و ترقی ہو سکے مگر یہاں اس بات کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اپنی زبان اس چکر میں کہیں حق تلفی کا شکار نہ ہو جائے۔ہم برسوں سے اس کوشش میں ہیں کہ اُردو سرکاری طور پر ملک میں رائج ہو سکے مگر یہاں ہم اُردو کی ترویج و ترقی کی بجائے کسی دوسری زبان کے ترجمے میں مشغول ہیں۔اگرچہ کسی بھی دیگر زبان کے ترجمے سے فائدہ بھی ہو تا ہے مگر اس کی نوعیت الگ ہے جیسے کہ سائنس و دیگر علوم و فنون کو دوسری زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کرلیا جائے تو یہ بہت سے لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔


اسی طرح سے اگر اُردو زبان کے ادب کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تو بھی اُردو سے دیگر اقوام کو بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرف رجحان بے حد کم ہے۔
ہمارے ہاں ترجموں کی کتب پر زور دیا جاتا ہے لیکن طبع زاد لکھنے کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے، حالانکہ کسی بھی لکھاری کی پہچان یہی طبع زادتحریریں ہوتی ہیں۔ اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ جب بھی کسی کی تحریر کے بارے میں یہ علم ہو کہ یہ ترجمہ شدہ ہے تو پھر اُس تحر یر کے حامل ادیب کو وہ خاص اہمیت نہیں ملتی ہے جو کہ ایک طبع زاد کو ملتی ہے۔پھر یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ کسی زبان کی ترجمہ شدہ تحریر کو اگر دس لکھاری ترجمہ کریں گے تو پھر وہ تحریر کس کی تصور ہوگی۔یہاں یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ تراجم طبع زاد کتب کے ہی ہوا کرتے ہیں، ترجمہ شدہ کتب کے ترجمے کا رجحان بے حد کم ہے۔


اس حوالے سے حال ہی میں معروف ادب اطفال لکھاری ”جاوید بسام“ کی کہانی”اس کے مالک تم نہیں ہو“ جو کہ ماہ نامہ ساتھی کے مئی 2021کے شمارے میں شائع ہوئی ہے، اس کہانی میں بھی یہی درس دیا گیا ہے کہ جوجس شے کا مالک ہوتا ہے، وہی زیادہ انعام و اکرام کا حقدار ہوتا ہے یعنی ترجمہ نگار سے زیادہ طبع زاد لکھنے والا تعریف کے قابل ہے۔


طبع زاد لکھنے والے چوں کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کچھ لکھتے ہیں تو وہ ہر صورت میں ترجمہ کرنے والوں سے بہتر ہیں کہ اُن کی اپنی سوچ ہوتی ہے جس کو وہ دوسروں سے بیان کرتے ہیں۔راقم السطور کی خواہش ہے کہ نئے لکھنے والے ترجمہ نگاری کی طرف بھی توجہ مرکو زرکھیں مگر کوشش کریں کہ وہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کو طبع زاد لکھنے پر صرف کریں، یہی اُن کی شہرت کا سبب ہو گی اورپہچان بھی دلوائے گی۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522553 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More