قدرت کا اٹل فیصلہ ہے کہ فائدہ مند چیزیں باقی رہتی ہیں
اور بے کار چیزوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔سورت رعد کی آیت نمبر 17 میں
ارشاد ہوا فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآءً وَأَمَّا مَا یَنفَعُ
النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الأرْضِ۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز نفع بخش نہیں
ہو گی اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا اور جو چیز نفع بخش ہو گی وہ
ہمیشہ قائم رہے گی۔باقی رہنے اور فنا ہونے کا یہ زریں اصول خاندان امیر
السالکین نے کچھ اس طرح اپنایا کہ آج اس خاندان کا ہر فرد اس آیت کے مصداق
ہونے کی کوشش میں سرگرم عمل ہے۔حضور امیر سالکین حضرت پیر امیر صاحب رحمۃ
اﷲ تعالی علیہ نے خود کو مخلوق کے لیے نفع بخش بنایا۔اور یہ جذبات اپنی
اولاد میں اس طرح منتقل فرماے کہ حضرت پیر امیر شاہ رحمتہ اﷲ علیہ کی تمام
اولاد مخلوق خدا کو آسانیاں فراہم کرنے میں مصروف عمل ہو گی۔آپ کے فرزند
دلبند غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی ساری زندگی
لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے میں بسر کی۔غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ
رحمتہ اﷲ علیہ نے مخلوق کی خدمت کا حق اس طرح ادا کیا کہ آپ نے مسلمانوں کے
بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے عملی اقدامات فرمائے۔بچوں کی
تعلیم کے لیے پیسوں کا بندوبست کیا۔تو دوسری طرف جب امت پر مشکل وقت آیا تو
حضرت پیر محمد شاہ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے گھر کے دروازے مہاجرین کے لئے
کھول دیے۔حضور غازی اسلام اپنی اولاد کی تربیت کے لئے حد درجہ حساس واقع
ہوے تھے۔آپ کی تمام اولاد اخلاق محمدی کا عملی نمونہ تھیں۔آپ کی تمام
صاحبزادیاں بھی اسی خدمت کے جذبے سے سرشار تھی۔حضور غازی اسلام نے ایک طرف
تو آپ نے ایک صاحبزادے کو پڑھنے کے لیے علی گڑھ بھیجا تو دوسرے صاحبزادے کو
پڑھنے کے لئے عالم اسلام کی عظیم دل درسگاہ جامعہ الازہر مصر بھیجا۔اس کے
ساتھ ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادیوں کی تربیت اس نہج پر کی کہ وہ امت کے لئے
بہترین مائیں ثابت ہوئی۔حضور غازی اسلام رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کی بڑی
صاحبزادی صاحبہ کا اسم گرامی، بی بی ممتاز تھا۔جو نہ صرف اپنے نام میں
ممتاز تھیں بلکہ حسن اخلاق، حسن کردار،اور تربیت اولاد کے حوالے سے بھی
تمام خاندان میں ممتاز ثابت ہوئیں۔آپ کی شادی حضرت پیر جمال شاہ رحمۃاﷲ
تعالی علیہ سے ہوئی جو اپنے نام کی طرح باجمال تھے۔حسن سیرت کے ساتھ ساتھ
حسن صورت کی نعمت سے بھی مالا مال تھے۔آج کے مضمون کے میرے ممدوح،برادر
مکرم جناب ڈاکٹر احمد بلال پیرزادہ انہی کے فرزند دلبند تھے۔ڈاکٹر احمد
بلال پیرزادہ اس لحاظ سے خوش قسمت ترین انسان تھے کہ ان کو ایسے والدین
عطاء جو قسمت والوں کو نصیب ہوتے ہیں۔آپ اپنے عظیم والد اور اپنی پاکباز
والدہ کے حسن تربیت کا خوبصورت شاہکار تھے۔
جناب ڈاکٹر بلال شاہ صاحب جنکو مرحوم لکھتے ہوے کلیجہ منہ کو آتا ہے وہ
ہمارے خاندان کی شان تھے۔وہ جرات،محنت،استقامت،اور عزیمت کا استعارہ
تھے۔انکی رگوں میں دوڑتے پاک ہاشمی خون کی خوشبو ہر مقام پر محسوس ہوتی
تھی۔انکی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔انہوں نے اپنے لیے خود نیا جہان
تلاش کیا۔وہ روایات کے خول میں بند ہوکر زندگی گزارنے کے بجاے نء راہیں
تلاش کرنے پر یقین رکھتے تھے۔وہ مسخر شدہ چوٹیوں کو سر کرنے کے بجاے مزید
بلند و بالا اونچایؤں کی تلاش میں رہتے تھے۔وہ مشکل راہوں کے مسافر تھے اور
مشکل راستوں کو آسان کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔انکی شخصیت حلم اور جنون کا
مرقع تھی۔طبعا بہت حلیم اور بردبار تھے لیکن کچھ کر گزرنے کا جنون انہیں
ہمیشہ بیچین رکھتا تھا۔انہوں نے پروفیشن کے طور پر مسیحائی کے شعبہ کا
انتخاب کیا۔لوگوں کے درد کا درماں ادویات سے کرتے لیکن میٹھے بول بول کر
ساری تکلیف ختم کردیا کرتے تھے۔وہ عملی زندگی میں پیسے کے بجاے اقدار پر
یقین رکھتے تھے۔وہ دماغ کے بجاے دل کی سنتے تھے یہی وجہ ہیکہ انہوں نے ایسے
ملک میں اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا جو ترقی یافتہ نہ تھا لیکن دل کی
آواز ایسی سنی کہ وہاں کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔
جناب ڈاکٹر بلال پیرزادہ ایک بہادر انسان تھے۔ہر معاملہ پر اپنا دوٹوک موقف
رکھتے تھے۔اور اپنی راے کے اظہار میں کبھی بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوتے۔وہ
کھرے انسان تھے اور کھری بات کرتے تھے۔گھما پھرا کر بات کرنے کے قائل نہ
تھے۔جس طرح من کے سچے تھے اسی طرح زبان کے سچے تھے۔انہوں نے اپنے عمل سے
خاندان کے نوجوانوں کو نء راہ دکھلاء۔وہ چھوٹی منزل کے مسافر نہ تھے اور
یہی بات انہوں نے نوجوانوں کو بتلاء۔انہوں نے اپنی ساری زندگی جدوجہد میں
گزاری اور اسی کوشش کے دوران اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیے۔جناب ڈاکٹر بلال
پیرزادہ صاحب خاندان امیرالسالکین کیلے باعث فخر تھے۔انہوں نے اپنی خدمات
سے اپنے خاندان اور علاقہ کا نام روشن کیا۔
پیدائش اور ابتدائی حالات۔ جناب ڈاکٹر احمد بلال پیرزادہ 1952 میں بھیرہ
شریف میں پیدا ہوے۔اپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی۔اہکی والدہ
ماجدہ ہمیشہ باوضو رہنے والی شخصیت تھیں۔وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے قبل
خصوصی طور پر وضو کا اہتمام فرماتیں۔انکی زبان ہر وقت قرآن کی تلاوت اور
زکر خدا سے تر رہتی تھی۔اس طرح زندگی کے ابتدائی دن انہیں ایک ایسے گہوارہ
تربیت میں گزارنے کا موقع ملا جہاں پر محبت رسول صلی اﷲ علیہ کی خوشبو
موجود رہتی تھی۔اپکے والدین ہر وقت اﷲ کے زکر سے گھر کو آباد رکھتے تھے تو
قدرتی طور پر ڈاکٹر بلال پیرزادہ صاحب کا دل بھی محبت رسول سے سرشار ہوگیا
اور اپنی زندگی اسوہ رسول کے مطابق گزارنے کا جزبہ پیدا ہوا۔میٹرک تک کی
تعلیم بھیرہ میں ہی حاصل کی۔اپکی والدہ کی یہ خواہش تھی کہ انکا ایک بیٹا
ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے۔اپکے بڑے بھای پیرزادہ احمد طارق شاہ
صاحب بیماری کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے تو اپنی والدہ کے خواب پورا
کرنے کا بیڑا جناب ڈاکٹر بلال پیرزادہ نے اٹھا لیا۔اس مقصد کے حصول کیلے
انہوں نے بھیرہ سے لاہور کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ وہ دور تھا جب
بھیرہ ایک دور افتادہ علاقہ سمجھا جاتا تھا۔یہاں سے کسی دوسرے شہر کی طرف
سفر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ذرائع آمد و رفت محدود تھے۔جب کہ
وسائل محدود تر تھے لیکن ڈاکٹر بلال پیرزادہ نے ان تمام مشکلات سے نبرد
آزما ہونے کا فیصلہ کرلیا۔انھوں نے والدین کی جدائی برداشت کی،سفر کی
صعوبتیں جھیلیں۔پردیس کا کرب دیکھا۔اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخل ہو
کر اپنی منزل کی طرف سفر کا آغاز کیا۔قیام لاہور کے دوران وہ اس امر سے
بخوبی آگاہ تھے کہ ان کے کندھوں پر کون سی ذمہ داریاں ہیں اپنی والدہ کے
خواب آنکھوں میں سجائے آپ نے دن اور رات کتابوں کی معیت میں گزارتے
رہتے۔شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا جس میں والدہ کے خوابوں نے ان کو چین کی
نیند سونے دیا ہو۔پھر وہ وقت آیا کے ایک دور افتادہ گاؤں سے سفر کرکے لاہور
جانے والا نوجوان ڈاکٹری کی ڈگری لے کر اپنی والدہ کے قدموں میں حاضر ہو
گیا۔میرا طائر تخیل اس بات کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے کہ جب ڈاکٹر احمد
بلال یہ خوشخبری لے کر اپنی والدہ کے پاس آئے ہوں گے تو حضور غازی اسلام کی
اس پاک باز بیٹی نے کتنی ہی دعاؤں سے نوازا ہوگا۔
جس طرح کے پہلے عرض کیا ڈاکٹر بلال کسی چھوٹی منزل کے مسافر نہ تھے اب وہ
اگلی منزلوں کی طرف سفر کرنے کے لیے بے تاب تھے قدرت نے ان کے لیے ایک ایسے
خطے کا انتخاب کیا جہاں پر ابھی تک ترقی کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔افریقہ
کے ایک دور دراز ملک زمبابوے میں ڈاکٹر احمد بلال پیرزادہ نے اپنی خدمات
پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور 80 کی دہائی میں پاکستان سے سفر کرکے زمبابوے کے
شہر ہزارے پہنچ گئے۔انہوں نے وہاں پہنچ کر اپنا نیا نصب العین تشکیل
دیا،خدمت انسانیت کے لئے ایک نئے جذبے سے کام شروع کیا۔اور اس سفر پر ایسے
روانہ ہوئے کہ پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔1980 کی دہائی سے شروع ہونے
والا خدمت کا یہ سلسلہ 2021 میں ان کی وفات تک جاری رہا۔اپنی مسلسل محنت اس
نے خلق اک اور غریبوں سے ہمدردی کے جذبے نے ان کو زمبابوے کا مقبول ترین
ڈاکٹر بنا دیا۔بہت جلد ان کا شمار وہاں کے صف اول کے ڈاکٹرزمیں ہونے لگا۔ان
کا گھر غریب عوام کی پناہ گاہ تھا۔ان کی دستیابی کا یہ عالم تھا کہ وہ سفر
و حضر میں مریضوں کے لیے دستیاب ہوتے تھے۔دوران ڈرائیونگ اگر کسی سگنل پر
رکتے تو وھاں پر بھی لوگ اپنے مرض کی تشخیص کے لیے ان سے محو کلام ہوتے تو
ڈاکٹر بلال کبھی ان کو انکار نہ کرتے۔اقتدار کے بڑے ایوانوں سے لے کر غریب
کی جھونپڑی تک ہر جگہ ڈاکٹر احمد بلال پیرزادہ کی مسیحائی کا ڈنکا بجتا
رہا۔انہوں نے نوجوان ڈاکٹرز کے لیے پورے خطہ افریقہ میں نئے مواقع پیدا
کیے۔وہ نوجوان ڈاکٹروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے بلکہ انہیں پناہ بھی
فراہم کرتے ہیں اور زاد راہ بھی عطاء کرتے۔
کرونا وبا کے دوران انکی خدمات۔ دنیا پر جب کرونا نے وبا کی صورت میں حملہ
کیا تو کء ڈاکٹرز اپنے ہسپتال بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔یا انہوں نے کرونا
مریضوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کر دیا۔لیکن ڈاکٹر بلال واحد شخصیت تھے
جنہوں نے ان بدترین حالات میں بھی عوام کا ساتھ نہ چھوڑا اور مسلسل ان کے
علاج معالجہ میں مصروف رہے۔ان کا ہاتھ دست شفا بن گیا۔اور سیکڑوں مریضوں کا
کامیابی سے علاج کیا۔
وصال۔ کئی دہائیوں تک مسلسل دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے بعد حضور
ضیائالامت رحمتہ اﷲ علیہ کے بھانجے۔ جناب احمد جمال پیرزادہ کے فرزند
دلبند،جناب احمد طارق پیرزادہ،احمد اویس پیرزادہ کے بھائی، دانش بلال کے
والد مورخہ 25 جون 2021 بروز جمعۃ المبارک اس دار فانی سے رخصت ہوگیے۔انکے
وصال سے نہ صرف خاندان امیرالسالکین افسردہ ہے بلکہ زمبابوے کے عوام نے بھی
شدید دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے سوگواران میں ایک بیوہ،تین
بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔
اﷲ کریم انکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین
|