آج رومیوں اور یونانیوں کی ایجادات، سماجی و معاشی
ترقی اور تہذیب و تمدن کی پوری دنیا معترف ہے لیکن یہ عجیب نہیں لگتا چین
اور سنٹرل ایشیائی ممالک میں ہونے والی تہذیبی اور سائنسی ترقی کو خاطرمیں
نہیں لایا جاتا کیونکہ دراصل مغرب نے دانستہ یا نا دانستہ کسی حد تک انحراف
کرتے ہوئے۔ انہیں پس پشت ڈال دیا ہے چین کی ایجادات اور کمالات دنیا کے
سامنے یا تو رکھے ہی نہیں گئے یا پھر اس کا سرسری سا ذکر ملتا ہے اس کے پس
منظرمیں کینہ پروری،جیلسی اور تکبرکا عنصرنمایاں ہے بہت سی تحقیقات سے ظاہر
ہوا کہ چین کے دور افتاد ہ علاقوں کے مکین بھی سائنسی ترقی میں درجہ کمال
پر فائزتھے۔ ان کی ایجادات سے دنیاکے لئے لاتعداد آسانیاں پیدا ہوئیں
مسلمان تو پہلے ہی چین کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ نبی ٔ اکرم ﷺ کافرمان
ذیشان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ چین جاناپڑے اس حوالے سے کہاجاسکتاہے کہ چین
ہمیشہ علم و ادب اور تہذیب و ایجادات کا محور رہاہوگا جس طرح آج چین معاشی
لحاظ سے دنیا پر چھا گا ہے اس سے درجنوں ترقی یافتہ ممالک کے ہاتھ پاؤں
پھول گئے ہیں قدیم چین کی ایسی ہی کچھ ایجادات میں زلزلے کی شدت ماپنے والا
آلہ بھی شامل ہے یہ آلہ اس وقت ایجادکیا گیا جب دنیا کے دیگر ممالک زلزلوں
سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی بجائے اس سے خوفزدہ تھے چین
سیمسک زون میں واقع نہیں ہے نہ ہی اسے شدید ترین زلزلوں کا مرکز کہا جا
سکتا ہے، وہاں جاپان یا دوسرے ممالک جیسی تباہ کاریاں دیکھنے کو نہیں
ملتیں۔لیکن ہوسکتاہے کسی زمانے میں چین شدید ترین زلزلوں کا مرکز رہا ہو۔
اتنے شدید کہ دریاؤں کارخ بدل گیاہو جس سے، شہر کے شہر صفہ ہستی سے مٹ گئے
ہوں اور آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ چینی تہذیب کا شمار بھی دنیا
کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتاہے قدیم دور کے معروف چینی مورخ سیما چیان
(Sima Qian)کی 91 قبل مسیح میں لکھی جانے والی دستاویز (Annals) میں شدید
زلزلوں کا ذکر ملتا ہے۔سیما چیان کا کہنا تھا ’’780قبل مسیح میں آنے والے
زلزلے کی شدت سے تین بڑے دریاؤں کا رخ بدل گیا تھا جس سے خطے میں جغرافیائی
تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک اور مؤرخ تائے پنگ یولان (Taiing Yulan) کے
محفوظ نسخوں میں چین کے 600 زلزلوں کا تذکرہ ملتاہیہیں۔ زلزلوں کے بعد قحط
اور خشک سالی سے الگ تباہ کاریاں یقینی امرہے جو ہمیشہ سیاسی افرا تفری اور
بغاوت جیسی صورتحال پیداکرنے کا سبب بھی بنتے رہے ہیں، اسی لئے بادشاہ
زلزلے کی شدت کا پتہ چلانے اور ان کے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے میں کافی دل
چسپی رکھتے تھے۔ بادشاہ کے حکم پر 78 قبل مسیح میں جنم لینے والے ایک ریاضی
دان ڑینگ ہینگ (Zhang Heng) نے زلزلے کی شدت ناپنے والا آلہ بنالیا تھا۔
انتہائی ذہین فطین یہ ریاضی دان 139 سال تک زندہ رہا، اس دوران اس نے بہت
سی اہم ایجادات دریافت کیں کیں۔ اس آلے کو دور حاضر میں ’’سیسموگراف کہا
جاتا ہے۔ یہ کانسی یا تانبے کا بنا ہوا مرتبان کی شکل کا ایک آلہ تھا۔
گولائی کے اطراف میں اژدھے کی شکل کے آٹھ برتن لگائے گئے تھے۔ ہر اژدھے کے
منہ میں ایک گیند نما آلہ تھا۔ برتن کے ہلتے ہی گیند بھی ہلنے لگتی
تھی۔جتنی شدت سے یہ برتن ہلتا، اتنی ہی طاقت سے گیند لڑھکنا شروع کر دیتی
تھی اور یوں نیچے گر جاتی جس سے زلزلے کی شڈت کا بخوبی اندازہ لگانا ممکن
تھا اس سائنس دان کا خیال تھا کہ زلزلے کا سبب تیز ہوا یا آندھی ہوتی
ہے۔قدیم چینی سائنسد انوں کی ایک حیرت انگیز ایجاد ریڑھی کی طرز کا ایک آلہ
بھی ہے جس کا رخ جنوب کی جانب رہتا تھا حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آپ اسے
کہیں بھی لے جائیں یہ بتا دیگا کہ جنوبی چین کس جانب ہے۔اسے آج بھی ’’ساؤتھ
پوائنٹنگ چیریٹ کہا جاتا ہے۔ دو پہیوں کے اوپر ایک ’’گڑیا کھڑی کر دی جاتی
تھی،آپ اس ریڑھی کو کسی بھی جانب موڑ دیں گڑیا کی انگلی کا رخ جنوب کی جانب
ہی رہے گا۔کہا جاتا ہے کہ ڈیوک آف ڑاؤ(Duke of Zhau) نامی شہزادے کا کافی
ملنا جلنا تھا ،متعدد مہمان راستہ بھٹک جاتے ،ان کی رہنمائی کے لئے شہزادے
نے یہ قدیم آلہ بنوایا۔اس کی مدد سے مہمانوں کوراستہ تلاش کرنے میں آسانی
ہوتی۔ وہ خود بھی اس کے ذریعے بھٹکے بغیر اپنے محل میں پہنچ جاتا۔اس
مکینیکل آلے کا استعمال 1030قبل مسیح سے کیا جاتارہا ہے لیکن سائنس میوزیم
، لندن میں محفوظ پیچیدہ ترین ایجاد 200 سے 250 کے درمیان میں تیا ر کی گئی
تھی اس کے علاوہ ’لیکور (Lacquer) چینیوں کی خاص ایجاد ہے۔مغربی ممالک
لیکور کی تیاری یا ایجاد پر اپنا حق نہیں جما سکتے۔ اسے ’’لاک بھی کہا جاتا
ہے۔’’ شنگ سلطنت (Shang Dynasty) میں بھی یہ استعمال کیا جاتاتھا۔شنگ
حکمرانوں نے اپنے مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے ہرشہرمیں مراکز
بنا رکھے تھے جن کی چار دیواری کے علاوہ تابوت کی لکڑی پر اسی کا لیپ کیا
جاتا تھا۔1970 ء میں چین کے علاقے ’’انیانگ (Anyang) میں دریافت ہونے والی
شنگ سلطنت کی ملکہ لیڈی فو ہاؤ (Lady Fu Hao) کی آخری آرام گاہ میں بھی
ایسے برتن ملے ہیں جن پراسی کیمیکل کا پینٹ کیا گیا تھا۔ تحقیق کے مطابق
چینی باشندے ہزاروں سال سے اس کے استعمال سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے کچھ
مقامات سے حنوط لاشیں بھی ملی ہیں جبکہ 1980 ء کے عشرے میں ’’ارلی تاؤ
Erlitou)) میں ملنے والے آثار 17ویں صدی قبل مسیح کے بتائے جاتے ہیں ان
برتنوں کی سجاوٹ میں بھی یہی کیمیکل استعمال کیاجاتا تھا۔چند عشرے قبل تک
کسی بھی مکان، دکان، دفتر یا سرکاری ڈاک کو سیل کرنے کے لئے اسے استعمال
کیا جاتا تھا۔ اس کو توڑنا ممنوع ہوتا تھا۔ آج کچھ دفاتر میں یہ مستعمل ہے۔
اس کیمیکل کی خاص بات چمک،دیر تک قائم رہنے کی صلاحیت تھی جس سے ظاہرہوتاہے
کہ قدیم چینی باشندے آلات سازی کے فن سے بھی واقف تھے، مختلف کیمیکلز ، موم
اور معدنیات کو اپنی مرضی کی اشکال میں ڈھالنے والے سانچے یا برتن بھی بنا
رکھے تھے ، انہیں زمانہ قدیم کی ’’مشینری بھی کہا جا سکتا ہے۔ان سانچوں کی
مدد سے آلات، ظروف کافی آسان ہو گئی تھی۔ آج دنیا نے ان دریافتوں کو ’’
چائنیز برونزی مینو فیکچرنگ میتھڈز کا حصہ تسلیم کیا ہے۔ چینی لگ بھگ
3000قبل مسیح میں بھی تانبے اور کانسی کے استعمال سے واقف تھے۔ شنگ سلطنت
کے دور میں استعمال کیئے جانے والے نمونے بھی ملے ہیں۔ 1500قبل از مسیح سے
تعلق رکھنے والی کچھ دریافتیں ارلی تاؤ(Erlitou)کے علاقے میں بھی کی گئی
ہیں۔یہ لوگ ٹن اور سیسے کی مدد سے بنائے جانے والے برتنوں میں موم اور دیگر
کیمیکلز اور کچھ دھاتوں کو ڈھالا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں چین
میں میٹل انڈسٹری عروج پر تھی۔وہ تانبے، لوہے، ٹن سیسہ اور سونے کے ملاپ کی
ٹیکنالوجی سے کسی حد تک واقف تھے۔1600قبل مسیح میں چینیوں نے پتیل، سونے
اور چاندی کے ملاپ سے’’ دور مار تیر کمان بنائے تھے۔ یہ ایک قسم کی
’’پروجیکٹائل مشینیں تھیں جن میں تیر کو فکس کرنے کے لئے جگہ بنائی گئی
تھی۔ چین کے نان ڑن میوزیم میں محفوظ ان تیر کمانوں کو دیکھنے و الوں کا
کہنا ہے کہ ’’کمان میں تیر پوری طرح فٹ ہو جاتا تھا، جس سے نشانہ چوکنے کے
اندیشے کم سے کم ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ٹیریکوٹا آرمی کا نشانہ کم
ہی خطا جاتا تھا۔ وزن میں ہلکے تھے، لہذا نقل و حمل مشکل نہ تھی۔اولین چینی
بادشاہ کے مقبرے میں دیگر آلات کے ساتھ کمان اور تیر بھی ملے ہیں۔یہ بادشاہ
کی شان اورعوام کی آزادی کی پہچان تھے۔ یہی تری کمان ’’ٹیریکوٹا آرمی
(Terracotta Army) کے بھی زیر استعمال تھے،یہ تیر کمان کئی صدیوں تک مستعمل
رہے۔ کاغذ،موم بتی بھی چینی سائنسد انوں کی ابجادات ہیں جوں جوں دنیا ترقی
کرتی جارہی ہے قدیم تہذیبوں کے رموز اسرار پراسرارہوتے چلے جاتے ہیں عقل
حیران رہ جاتی ہے کہ صدیوں سال پہلے انسان جتنا تہذیب یافتہ تھاِ آج انسان
اس کمال تک نہیں پہنچا جس کی واضح مثال دیوار ِ چین بھی ہے چاند سے زمین پر
نظرآنے والی یہ واحد چیزہے۔
|