ہے جرم سادہ لوحی کی سزا .........

‎نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کے ہاں لگاتار پانچ بیٹوں کی پیدائش ہوئی ۔ ہر بار میاں بیوی آس لگاتے تھے کہ اس بار تو ضرور اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا مگر ہر بار اس کی نعمت نازل ہو جاتی تھی ۔ بیچارے بیٹی کے لیے ترس کر رہ گئے تھے پھر خاتون نے اپنے اکلوتے بڑے بھائی سے عمرے کی ادائیگی کے لیے مالی مدد و معاونت کی فرمائش کی تاکہ حرم پاک اور روضہء رسول پر حاضر ہو کر بیٹی کی پیدائش کی دعا کریں ۔ وہ سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا اور خود پندرہ برسوں سے بےاولاد تھا اور بیوی کو عمرہ کرایا تھا نہ حج ۔ بعد میں بھی کبھی نہیں کرایا بلکہ ان پندرہ برسوں میں پندرہ مہینے بھی بیوی کے ساتھ نہیں رہا ۔ بعد کے مزید پندرہ سالوں میں بھی وہ سالانہ ایک ماہ کی اوسط سے تک بیوی کے ساتھ نہیں رہا اور اسے اپنے پورے خاندان کی لونڈی بنا کر خود بس اپنی آدھا درجن بہنوں کے دو درجن بچوں کو ہی اپنی اولاد کی جگہ سمجھ کر ان کے ناز نخرے اٹھاتا رہا اور شاطر بہنوئیوں کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتا رہا ۔ خیر اس نے اب بھی بہن بہنوئی کے عمرہ ویزہ اور ٹکٹ کے حصول میں ان کی بھرپور مالی مدد کر دی ۔

‎سال بھر بعد ان کے ہاں چاند سی بیٹی پیدا ہوئی جو سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی پسماندہ تھی ۔ یقیناً یہ قدرت کی طرف سے ایک وارننگ تھی کہ اب تو سدھر جاؤ ۔ مگر جہاں خدا کا خوف اور آخرت کی پوچھ پکڑ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہاں دلوں پر بھی مہر لگ جاتی ہے اور کوئی بھی واقعہ سانحہ ان کی آنکھیں کھولنے کو کافی نہیں ہوتا ۔ اگر ایسا ہو تو ضرور کسی مظلوم کو انصاف مل جائے اس کا حق اسے مل جائے مگر ایسا نہیں ہوتا ۔

‎اور ہر ایسے عقل سے پیدل پردیس میں گدھوں کی طرح محنت کرنے والے اور خود اپنوں خونی رشتوں کی سیان پتیوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم اور اپنی منکوحہ کے مجرم جب عمر اور صحت کی پونجی گنوا کر واپس لوٹتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی دنیا و عقبیٰ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ کھو چکے ہیں سوائے اپنی ایک بیوقوف بیوی کے ، جس نے ساری عمر اپنی زنجیروں کی عزت کی ۔ یہ شخص بھی جب واپس آیا تو اسی کی محنت اور خون پسینے کی کمائی سے بنے گھر پر بہنیں قابض تھیں اور ماں کے نام پر ہونے کی وجہ وہ شرعاً اور قانوناً اس میں حصہ دار تھیں ۔ جبکہ اس سے پہلے ان کی ساری زندگی کرائے کے دڑبوں میں گزری تھی ۔ حقیقتِ حال سے واقف کچھ ہمدردوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ مکان اپنی بیوی کے نام منتقل کرا لے اب تو اسے کوئی تحفظ دے دے ۔ بات اس کی سمجھ میں آ گئی اس نے گھر بیوی کے نام کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ کئی طرح کی بیماریوں میں تو مبتلا ہو ہی چکا تھا ایک روز بیوی کچن سے کمرے میں آئی تو اس نے دیکھا کہ وہ بیڈ کا سرہانہ تھامے ساکت کھڑا تھا اور ایک ٹک اسی کی طرف تک رہا تھا ۔ اس نے قریب جاکر اسے ہلایا تو وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح اس پر ڈھے گیا اور موت اسی بیوی کے بازوؤں میں آئی جسے وہ اپنی زندگی ہی میں بیوہ کر چکا تھا ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.