عید کا دن ' نیند اور قربانی

عیدالضحی کے موقع پر امی کی بہت یاد آئی ' کم و بیش اٹھائیس سال شعبہ صحافت میں اور تیرہ سالہ براڈ کاسٹ جرنلزم میں گزارے .ہمیشہ عیدین کے موقع پر ابتدائی دو ' تین دنوں کی ڈیوٹی میں نے ہی دفتر میں انجام دی ' صبح سویرے گھر سے نکل کر عیدگاہ جاتے ایسے میں والدہ سے ملاقات نہیں ہوتی' اور شام کو گھر آکر سب سے پہلے امی کو عید مبارک دیتے تو انکی آنکھوں میں کتنی خوشی ہوتی یہ اللہ ہی جانتا ہے لیکن ساتھ میں امی یہ بھی کہتی کہ کاش بیٹا تو کبھی گھر عید کا پہلا دن گھر پر بھی گزار لے ' اور تو صبح سویرے نماز کے بعد آکر گھر والوں سے عید مل لے. اور میں خاموشی سے انہیں دیکھ کر کہتا کہ امی پتہ ہے کہ پرائیویٹ نوکری خان کی نوکری ہے اور شعبہ صحافت ہے ' میرا بھی دل کرتا ہے لیکن کیا کروں اور پھر والدہ دعائیں دیکر خاموش ہو جاتی ' آج والدہ کی انتقال کو ڈیڑھ سال ہوگئے ' دو عیدیں گزر گئی اور میں گھر میں بیٹھا ہوں اور ڈیوٹی نہیں کررہا لیکن آج امی منوں مٹی کے نیچے ہیں.اے کاش.. امی زندہ ہوتی اور میں ان کے آگے سب سے پہلے آکر عید مبارک دیتا. لیکن...


عید کے دن نیند کس کو آتی ہے ' یار تم عید کے دن بھی سوتے رہتے ہو ' یہ وہ سوال ہیں جو میں اپنے ایک دوست سے کم و بیش اٹھائیس سا ل پہلے کرتا تھا عیدین کے موقع پر وہ تمام بھائی بہت کم اپنے گھر سے نکلتے ' ہاں ان کے والد اور بھائی روزگار کی وجہ سے باہر نکلتے لیکن عیدالضحی پر ان کے والد او ر بھائی بھی بہت کم گھر سے نکلتے اور بیشتر وقت گھر پر ہی گزارتے.ہم چند دوستوں کا گروپ کا تھا عید کے دنوں میں مستی ہوتی تھی کبھی ایک دوست کے گھر اور کبھی دوسرے کے گھر ' قربانی اور گوشت کی تقسیم کا عمل ہوتا لیکن ہمارے وہ دوست ان دنوں میں گھر پر ہی ہوتے ' مسجد میں نماز عید کے بعد دوستوں سے عید ملتے ' اپنے ماموں کے گھر جاتے لیکن اس کے بعد گھر میں ایسے گھس جاتے کہ شام تک وہ نہیں نکلتے ' جب ہم ا ن کو گلی سے آواز دیتے توچھوٹا بھائی کہہ دیتا کہ جی وہ سو رہے ہیں اور پھر ہم واپس ہو جاتے. ان دنوں میں سوچا کرتا تھا کہ آخر یہ کیسے لوگ ہیں کہ عید کے دن بھی سوتے ہیں ' باہر نہیں نکلتے 'اور انہیں آخر اتنی نیند کیسی آتی ہے کہ بس نماز کے وقت گھر سے نکلتے اور پھر نماز پڑھنے کے بعد گھرپر رہتے.نوجوانی کے دور کے دوستی تھی اس لئے ہم بھی اتنی پروا نہیں کرتے ' لیکن عید کے تیسرے دن پھر اس دوست جو عید کے دن سوتا رہتاباہر نکلتا اور ہم پھر اپنی روزمرہ زندگی کے کام میں مشغول ہو جاتے. عام دنوں میں معمول کی زندگی گزارنے والے میرے وہ دوست اور ان کے بھائی عیدین اور خصوصی طور پر عیدالضحی کے موقع پر بہت کم گھروں سے نکلتے. میرے وہ دوست کی فیملی سفید پوش تھی اور آج کل میرا وہ دوست اور ان کی پوری فیملی کے لوگ آج کل خوشحال ہیں اور اہم عہدوں پر فائز ہیں .

آج کم و بیش اٹھائیس سال بعد احساس ہوا کہ عیدالضحی کے دن لوگ کیوں گھروں میں رہتے ہیں اور یہ احساس بھی ذاتی تجربے کی بنیادپر ہوا . اسی بناء پر یہ احساس بھی شیئر کررہا ہوں لیکن اس سے پہلے عیدالضحی کے موقع پر امی کی بہت یاد آئی ' کم و بیش اٹھائیس سال شعبہ صحافت میں اور تیرہ سالہ براڈ کاسٹ جرنلزم میں گزارے .ہمیشہ عیدین کے موقع پر ابتدائی دو ' تین دنوں کی ڈیوٹی میں نے ہی دفتر میں انجام دی ' صبح سویرے گھر سے نکل کر عیدگاہ جاتے ایسے میں والدہ سے ملاقات نہیں ہوتی' اور شام کو گھر آکر سب سے پہلے امی کو عید مبارک دیتے تو انکی آنکھوں میں کتنی خوشی ہوتی یہ اللہ ہی جانتا ہے لیکن ساتھ میں امی یہ بھی کہتی کہ کاش بیٹا تو کبھی گھر عید کا پہلا دن گھر پر بھی گزار لے ' اور تو صبح سویرے نماز کے بعد آکر گھر والوں سے عید مل لے. اور میں خاموشی سے انہیں دیکھ کر کہتا کہ امی پتہ ہے کہ پرائیویٹ نوکری خان کی نوکری ہے اور شعبہ صحافت ہے ' میرا بھی دل کرتا ہے لیکن کیا کروں اور پھر والدہ دعائیں دیکر خاموش ہو جاتی ' آج والدہ کی انتقال کو ڈیڑھ سال ہوگئے ' دو عیدیں گزر گئی اور میں گھر میں بیٹھا ہوں اور ڈیوٹی نہیں کررہا لیکن آج امی منوں مٹی کے نیچے ہیں.اے کاش.. امی زندہ ہوتی اور میں ان کے آگے سب سے پہلے آکر عید مبارک دیتا. لیکن...

بات عید کے دن سونے سے شرو ع ہوئی تھی اسی پر آتے ہیں ' عید قرباں کے آتے ہی ہمارے محلے میں پڑوسیوں نے قربانی کیلئے جانور خریدنے شروع کردئیے کوئی دو ہفتے پہلے لیکر آیا اور کوئی د و دن قبل ' لیکن ان جانوروں کے آنے سے نہ صرف محلے کے بچوں کی خوب رونق لگی رہی بلکہ کئی کئی نوجوانوں نے راتیں گلیوں میں ان جانوروں کیساتھ گزار دی چوکیداری بھی کی اور ساتھ میں گپ شپ بھی کرتے رہے-میرے بیٹے بھی مجھ سے پوچھتے رہے کہ ہم قربانی کا جانور کب لائیں گے اور میں انہیں کہہ دیتا کہ آج کل حالات ایسے نہیں کہ ہم قربانی کریں ' میرے ساتھ تو ان کی باتیں کم ہوتی ہے لیکن میری بیگم سے ڈیمانڈ کرتے کہ دیکھ لو ' لوگوں نے قربانی کیلئے جانور خریدے ہیں اور ہم نے نہیں لیا ' یہ لوگ کیا کہیں گے. حتی کہ ایک بیٹے نے بیگم کو یہ کہہ دیا کہ قرض لیکر کردو لیکن قربانی کردو ' لیکن میری بیگم نے اسے دلاسہ دیا.یہ دوسری دفعہ ہے کہ ہم قربانی نہیں کرپا رہے . اس میں بھی اللہ تعالی کی کوئی مصلحت ہوگی اور اس کی رضا پر ہم خوش ہیں. قربانی کیلئے لائے گئے جانور وں کے آگے پیچھے پھرنے والے بچے بھی کئی مرتبہ مجھ سے یہ پوچھنے آئے کہ آپ قربانی کا جانور کب لائیں گے اور میں پڑوسیوں کے معصوم بچوں کے جواب نہ دے سکا.اور ہوں ہاں میں انہیں ٹال دیا..

لیکن آج عید کے دن میرے بچے گھر میں ہی رہے ' نماز پڑھنے کے بعد گلی کی طرف نہیں نکلے ' ہر دفعہ نانا کے گھر قربانی کیلئے جانیوالے بچوں نے قربانی دیکھنے کی ضد بھی نہیں کی ' اور گھر کی کھڑکی سے جانوروں کی قربانی ہوتے دیکھتے رہے لیکن آج مجھے خود احساس ہوا کہ کہ نماز پڑھنے کے بعد مجھے نیند بہت آرہی ہے اور میں گھر آکر سویا ' ایک گھنٹے نیند کرنے کے بعد نیند ختم ہوگئی لیکن میں سونے کی ناکام کوشش کرتا رہا لیکن گھر سے نہیں نکلا.یہ احساس مجھے اٹھائیس سال بعد ہوا کہ آج سے کم و بیش اٹھائیس سال قبل میرے دوست اور ان کے گھر والے کیسے نیند کا بہانہ کرکے گھر میں چھپ جاتے تھے اور گھر سے نہیں نکلتے تھے کیونکہ وہ معاشرے کے لوگوں اور ان کے روئیوں سمیت ان کی آنکھوں سے نکلنے والے ہم قربانی کرنے والے ہیں جیسے احساس برتری جتانے والوں کا کا مقابلہ نہیں کرسکتے ' کہ آخر تم لوگ قربانی کیوں نہیں کرتے جو انہیں احسا س کمتری میں مبتلا کرتی.بے بسی کا یہ احساس آج مجھے خود ہوا کہ میں گھر میں لیٹ کرعید کا دن گزارا اور گلی میں کہیں پر کھڑا بھی نہیں ہوا.

یہ تو اللہ تعالی کا احسان ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور نے ہمیں بہت ساری سہولتیں دی اور ان میں ایک سہولت ایک وٹس ایپ یا ایس ایم ایس کے ذریعے عید مبارکباد لکھ دینا یا پھر اپنے فیس بک کی سٹیٹس پر عید مبارک کا پیغام لکھ دینے سے ہم اپنے آپ کو عید کی مبارکباد دینے سے بری الذمہ سمجھتے ہیں ورنہ اگر موجودہ حالات میں ہم کسی کے گھر مبارکباد دینے جاتے تو یہ احساس ہمیں مار دیتا کہ یہ بندہ شائد گوشت لینے کے چکر میں مبارکباد دینے آیا ہے حالانکہ خالی پیٹ اور بھرے پیٹ میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کا پیٹ دوسرے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس نے پیزا کھایاہے یا پھر اس نے اپنے پیٹ کو پانی سے یا گذشتہ رات کے رہ جانیوالے سالن سے بھرا ہے.

عید کا دن اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ایک بڑے تہوار کا دن ہے ' عید کی خوشیاں منائیے لیکن اپنی خوشی میں اپنی نظروں سے ' اپنے روئیوں سے ' اپنی احساس سے لوگوں میں کمتری کا احساس مت دلائیے کیونکہ وقت کا پھانسا پلٹتے دیر نہیں لگتی اورہاں قربانی صرف جانوروں کی قربانی نہیں بلکہ اپنے انا کی بھی قربانی دیجئیے.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418464 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More