قُرآن اور اَحکامِ اِنسدادِ غلامی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ، اٰیت 32 }}}ازقلم اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
و
انکحوا
الایامٰی
منکم و
الصٰلحین
من عبادکم
وامائکم ان
یکونوا فقراء
یغنیھم اللہ من
فضلهٖ واللہ واسع
علیم 32
تُمہارے معاشرے کے جو آزاد مرد و زَن اور تُمہارے معاشرے کے جو غلام مرد و زَن نکاح کے فطری دور میں داخل ہو چکے ہیں مگر تاحال وہ اپنی تہی دستی کے باعث عقدِ نکاح نہیں کر سکے ہیں تو تُم اُن کو نکاح کے وسائل مُہیا کرو اور اُمید رکھو کہ نکاح کی ذمہ داری اُٹھانے کے بعد وہ نکاح کی ذمہ داری نبھانے کے لیۓ پہلے سے زیادہ محنت کریں گے اور پہلے سے زیادہ محنت کا معاوضہ پائیں گے اور تُمہارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک روز غُربت و اَفلاس سے باہر آجائیں گے کیونکہ جو لوگ اپنی جتنی ہمتِ جان کے ساتھ اللہ سے رزق کی کشادگی چاہتے ہیں وہ اپنی اتنی ہی ہمتِ جان کے مطابق اللہ سے رزق کی کشادگی پاتے ہیں اور اتنی ہی تیزی کے ساتھ اَفلاس سے باہر آجاتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیتِ بالا کا جو مفہومِ بالا اٰیتِ بالا کے زیرِ متن ھم نے تحریر کیا ھے وہ اٰیتِ بالا کا ایک مُفصل مفہوم ھے لیکن اِس اٰیت میں اِس اٰیت کے اِس مُجرد مفہوم کو مزید فہم فراہم کرنے والے جو اَلفاظِ تفہیم وارد ہوۓ ہیں اُن میں پہلا لَفظ "ایامٰی" ھے جو اسمِ واحد "ایم" کا ایک اسمِ جمع ھے اور اِس مصدر سے صادر ہونے والے اِس اسمِ واحد "ایم" سے انسانی معاشرے کا ایک مُجرد جوان مرد مُراد ہوتا ھے اور اِس کے اِس اسمِ جمع "ایامٰی" سے انسانی معاشرے کے مُتعدد مُجرد جوان مرد مُراد ہوتے ہیں ، اِس اٰیت میں وارد ہونے والا دُوسرا لَفظ "صالحین" ھے جو اسمِ "صالح" کا اسمِ جمع ھے اور اِس اسمِ جمع کے مصدری مفاہیم سے "صُلح" کا "اصلاح" کا اور "صلاحیت" کا مفہوم حاصل ہوتا ھے اور اِس اٰیت میں وارد ہونے والا تیسرا لَفظ "عباد" ھے جو اسمِ واحد"عبد" کی جمع کثرت ھے اور جس کا معنٰی غلام ھے ، نزولِ قُرآن سے قبل عبد سے مُراد وہ کم زور انسان ہوتا تھا جس کم زور انسان کو کسی دُوسرے شہ زور انسان نے زور زبردستی کر کے اپنا غلام بنایا ہوا ہوتا تھا اور وہ کم زور غلام شب و روز اپنے اُس شہ زور آقا کے اَحکام کا پابند ہوتا تھا جس نے اُس کو اپنا غلام بناکر اپنے اَحکام کا پابند بنایا ہوا ہوتا تھا ، اہلِ زمین پر قُرآن نازل ہوا تو اِس میں پہلی بار اہلِ زمین کے لیۓ قُرآن کا یہ قانُون نازل ہوا کہ اللہ کے اِس قانُونِ نازلہ کے بعد اللہ کے اِس جہان میں کوئی بھی انسان کسی بھی انسان کا غلام نہیں ھے بلکہ اللہ کے اِس جہان کا ہر ایک انسان اللہ کا غلام ھے اور جب قُرآن کا یہ قانُونِ آزادی نازل ہوگیا تو اللہ تعالٰی نے قُرآن کے اِس قانُونِ حریت و آزادی کو قُرآن کی صورت میں نازل ہونے والی اِس آخری کتاب کی اُس پہلی سُورت فاتحہ میں { ایاک نعبد و ایاک نستعین } کا ایک قانُونی معاھدہ بنا کر شامل کردیا جو پہلی سُورت اِس آخری آسمانی کتابِ ھدایت کا ایک مقدمتہ الکتاب ھے اور اِس قانُونی معاھدے میں جہان کے ہر ایک انسان کو اِس قولی و قلبی عھد کا پابند بنایا گیا کہ ھم تمام انسان تیرے ہی غلام ہیں اور تیرے ہی اَحکام کے پابند ہیں ، ھم تُجھ سے عھد کرتے ہیں کہ ھم زندگی کی پہلی سانس سے زندگی کی آخری سانس تک صرف تیرے غلام رہیں گے اور تیرے ہی اَحکام پر عمل کریں گے ، انسانی تاریخ اور انسانی تجربہ اِس اَمر کا گواہ ھے جب کوئی کم زور انسان کسی شہ زور انسان کی غلامی میں آتا ھے تو اُس کی ایک جسمانی مُشقت کی صلاحیت کے سوا اُس کی ہر ایک ذہنی و رُوحانی صلاحیت فنا ہو جاتی ھے اِس لیۓ جب قُرآن کا یہ قانُونِ آزادی نازل اور نافذ ہوا تو قُرآن نے انسان کی غلامی سے نکل کر رحمان کی غلامی میں آنے والے انسانوں کو "صالحین" کا نام دیا جس کا مقصد اِن کُچلے ہوۓ ناراض انسانوں کو راضی کر کے اِن کی دُوسرے انسانوں کے ساتھ صُلح کرانا ، پھر اِن کی اجتماعی اصلاح کرانا اور پھر اِن کی انسانی صلاحیتوں سے انسانیت کو فائدہ پُہنچانا تھا اور قُرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ یہ سارے غلام انسانوں کے ساتھ برابری کی سطح پر آچکے تھے اِس لیۓ اٰیتِ بالا میں آزادی کی نعمت سے مالا مال لوگوں کو حُکم دیا گیا ھے کہ جہالت و غلامی کی تاریکی سے نکل کر علم و آزادی کی روشنی میں آنے والوں کے لیۓ اتنا ہی کافی نہیں ھے کہ تُم اِن کے حقِ آزادی کو تسلیم کرو بلکہ تُم پر یہ بھی لازم ھے کہ تُم اپنے مالی وسائل سے اِن غلام مرد و زَن کی شادی و نکاح کا اہتمام بھی کرو اور جب تُم اپنے مالی وسائل سے اِن نَو آزاد مردوں اور عورتوں کے عقدِ نکاح اہتمام کرو تو اِن کے ساتھ ساتھ کُچھ پرانے آزاد اور غریب مرد و زن کے عقدِ نکاح کا اہتمام بھی کر لیا کرو تاکہ تُمہاری اِس مالی معاونت سے اِن نَو آزاد مرد و زن کے دل میں کوئی مَنفی احساسِ کمتری پیدا ہونے کے بجاۓ صرف یہ مُثبت احساس پیدا ہو کہ آزادی کے بعد وہ اُس پاکیزہ دل و پاکیزہ اخلاق انسانی معاشرے کے شہری بن چکے ہیں جس انسانی معاشرے میں ہر کم زور انسان کی ایک غیر مشروط مدد کی جاتی ھے اور جس انسانی معاشرے کے یہ غیر متمول لوگ متمول ہونے کے بعد دُوسرے غیر متمول انسانوں کو متمول بنانے کے کارِ خیر میں شریک ہو جاتے ہیں جس کارِ خیر سے انسانی معاشرہ پستی سے نکل کر بلندی کی طرف جاتا ھے ، مُسلم معاشرے کو غلام مردوں اور غلام عورتوں کے عقدِ نکاح کا دیا گیا یہ قُرآنی حُکم اِس بات کا ایک کُھلا ثبوت ھے کہ مُسلم معاشرے میں غلام عورتوں کے ساتھ کسی کو بھی نکاح کے بغیر کسی قسم کا جسمانی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی ، عُلماۓ روایت بھی اگرچہ غلام کے حقِ آزادی کو قبولِ اسلام کی شرط کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ غلام انسان کی آزادی کے لیۓ اسلام کا قبول کرنا شرط نہیں بلکہ اسلام کا ظاہر ہونا ہی اِس کی پہلی اور آخری شرط ھے ، یعنی جیسے ہی زمین کے کسی حصے میں اسلام ظاہر ہوتا ھے تو اِس کے ظاہر ہوتے ہی زمین کے اُس حصے کے سارے غلام انسان خود بخود آزاد ہو جاتے ہیں اور جہاں تک اُن کی آزادی کے رسمی اعلان کا تعلق ھے تو اِس اعلان کا تعلق اُن کی آزادی سے نہیں ہوتا بلکہ اُس اعلان کا تعلق اُن کی معاشی و معاشرتی آزادی کے اُس مُناسب انتظام کے لیۓ ہوتا ھے جو انتظام ایک مُسلم معاشرے اور ایک مُسلم حکومت کو کرنا ہوتا ھے کیونکہ ایک غلام انسان اپنے غلامی کے زمانے میں رہائش اور خوراک کے بُنیادی وسائل سے بہر حال بے فکر ہوتا ھے کیونکہ اُس کو ایک اچھی بُری رہائش اور خواراک بہر حال مُیسر ہوتی ھے اور آزادی دینے یا دلانے سے پہلے اُس کی رہائش و خوراک کے جس انتظام کا اہتمام ضروری ہوتا ھے اُس انتظام کے بغیر اُس کی آزادی کا اعلان کرنا اُس کو حقِ آزادی دینا نہیں ہوتا بلکہ اُس کو اُس کے حقِ زندگی سے محروم کرنا ہوتا ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کے اِس حکم سے معلوم ہوتا ھے کہ جس وقت مُسلم معاشرے اور مُسلم حکومت کو اللہ تعالٰی نے غلام مرد وزن کی شادی و نکاح کرانے کا یہ حُکم دیا تھا اُس وقت کے غلام مرد وزن رہائش و خورا ک کے اِس ابتدائی اور مُشکل مرحلے سے گزر چکے تھے اور اَب اُن کے آزاد خاندانوں کو آزادی کے وہ ثمرات بہم پُہنچانا تھا جن سے اُن کے آزاد خاندان آزادی کے بعد معاشی ترقی کرکے دُوسرے آزاد انسانوں کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہوسکتے اور کھڑے رہ سکتے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463884 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More