اصلی عید

 ''امّی عید کب آئے گی؟''
ولید اپنے نئے کپڑے ہاتھ میں لیے کوئی بیسویں دفعہ پوچھ رہا تھا۔
''ابھی تو نو دن رہتے ہیں''۔
نسیمہ خاتون نے انگلیوں پہ حساب لگایا اور اس کی بے قراری پر ہنس پڑی تھیں-کل ہی نسیمہ خاتون ولید کے لیے عید کی شاپنگ کر کے لائیں تھیں۔چھوٹی عید پہ سب خوشی نئے کپڑوں کی ہوتی جبکہ بڑی عید پہ اس خوشی میں بکرا بھی شامل ہو جاتا۔ نئے کپڑے اور جوتے دیکھ کر ولید اس قدر خوش تھا کہ بار بار امی سے پوچھنے لگتا عید کب آئے گی؟ بس جلدی سے عید آئے اور وہ نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھنے جائے اور واپس آ کر فوراً ہی قربانی کریں۔
بچوں کو بھی ہر چیز کی کس قدر جلدی ہوتی ہے – وہ اب عید کے کپڑے سمیٹتے سوچنے لگی تھیں- اس بات سے بے نیاز کہ کبھی انہیں بھی عید کا اسی قدر انتظار رہے گا جیسا ابھی ولید کو تھا-
فاخرہ نے سرخ اینٹوں والی اس عمارت میں قدم رکھا تو ایک عجیب بیقراری اور بے سکونی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا- وہ گزشتہ کئی روز سے اپنے تھیسس کے سلسلے میں یہاں آتی تھی- مگر ہر روز ہی وہ اس کیفیت سے دوچار ہوتی حالانکہ اندر سے باہر تک اس عمارت پر ایک خاموشی کی چادر سی تنی ہوئی تھی -بغض اوقات اسے یہ عمارت اور اس کے مکین عجیب پرسرار سے محسوس ہوتے-اداس چہرے، خالی آنکھیں اور ویران دل والے خاموش مکین – باہر کی دنیا سے بے نیاز، اپنی دنیا میں مگن-مگر ہر آہٹ پر چونک جانے والے کہ شاید آنے والا ان کے لیے باہر کی دنیا سے کوئی پیغام لایا ہو گا-
''مس فاخرہ ان سے ملیں یہ مسز ہمدانی ہیں، ہمدانی اینڈ سنز کے مالک کی بیگم''
مس نیلم نے ویل چیئر پر بیٹھی جھریوں ذدہ چہرے والی بوڑھی عورت کا تعارف کروایا تو فاخرہ سوچوں کے گرداب سے باہر نکلی-مسز ہمدانی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھیں –
'' اتنی امیر عورت اور اس حال میں؟''
وہ اچھی طرح جانتی تھی ہمدانی اینڈ سنز کا شمار شہر کے امراء اور رئیسوں میں ہوتا تھا-تقریباً چار سال پہلے ہی ہمدانی صاحب کا انتقال ہو گیا تھا اور اب ان کا تمام کاروبار ان کے بیٹے سنبھالتے تھے-کاروبار کے وسیع ہوتے ہی بیٹوں کے دل تنگ ہوتے گئے تھے.. اتنے تنگ کہ اب ان کے دل اور گھر میں ماں کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکل رہی تھی-
اس نے بے چینی سے وہاں موجود کئی بے قرار آنکھوں کو فضا میں کچھ کھوجتے دیکھا تھا- نا چاہتے ہوئے بھی انہیں انتظار تھا اپنے چاہنے والوں کا-
فاخرہ کو ان سب کے حالات سن کر شدید رنج پہنچا تھا-
''میں ان سب کے لیے ضرور کچھ کروں گی'' –
اس نے مصمم ارادہ کیا تھا-
ولید اعوان نے اپنے آفس کی میز پر پڑا کارڈ اٹھایا اور سرسری سی نگاہ ڈال کر ایک طرف رکھ دیا- مگر پھر وہ ایک لمحے کو رکا تھا- اس کارڈ کے ساتھ کچھ اور بھی تھا، جس نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی-
اس نے دھیرے سے وہ پھولوں والا لفافہ کھولا جو اسے کچھ مانوس لگا تھا-اندر مختلف رنگوں سے ٹیڑھے میڑھے پھولوں والا ایک کارڈ رکھا تھا-
یہ اس کے اپنے ہاتھ کا بنا ایک چھوٹا سا کارڈ تھا جو یقینا تیس سال پرانا تھا- اس پر گندی سی لکھائی میں کچھ تحریر تھا- اس نے غور سے تحریر کو دیکھا جس کے الفاظ کچھ مٹے مٹے سے تھے-یقیناً پڑھنے والے نے اسے کئی بار روتے ہوئے پڑھا تھا تبھی الفاظ پہ آنسوؤں کے نشان تھے-اس نے کارڈ آنکھوں کے قریب کر کے دیکھا-
'' پیاری ماما بکرا عید مبارک''
یہ الفاظ اسے ماضی میں لے گئے تھے-اسے یاد تھا ہر عید سے پہلے ولید نسیمہ خاتون کو خود عید کارڈ بنا کر دیتا-چھوٹے ٹیڑھے میڑھے گندے سے کارڈ کو اس کی ماں چوم کر سینے سے لگاتی تو اس کی محنت وصول ہو جاتی-کبھی اس پہ پھول بناتا تو کبھی چاند تارے۔بڑی عید پہ بڑے کی تصویر بھی بنا کر اپنی امی کو ضرور دیتا یہ اور بات کہ بکرے کی تیڑھی میڑھی ہیئت دیکھ کر وہ ہنستی ہی رہتیں مگر اپنے بیٹے کی ضرور حوصلہ افزائی کرتیں۔
کالج تک پہنچتے جہاں اس کا مذاج اور ترجیحات بدلیں، وہیں یہ کارڈ بنانا اسے فضول اور وقت کا ضیاع لگنے لگا تھا-تابندہ سے شادی کے بعد تو وہ بھول ہی گیا تھا کہ کوئی ماں بھی اس کی راہ تکتی ہے-
کب اس کا دوسرے شہر ٹرانسفر ہوا اور کب تابندہ نسیمہ خاتون کو کسی محفوظ پناہ گاہ میں چھوڑ آئی؟ پتہ ہی نہ چلا-آج اس کارڈ نے ماضی کا در وا کر دیا تھا-کارڈ کے ساتھ ایک خط اور دعوت نامہ بھی تھا-ولید وہ خط پڑھتا گیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے –
آج نایاب اولڈ ہاؤس میں عید کی تقریب منعقد کی گئی تھی- خوبصورت لان کو جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا- چاروں طرف چہل پہل تھی مگر بوڑھے والدین کے چہرے بے بے صبری سے کسی کی راہ تک رہے تھے-
ہر سال کی طرح یہ عید بھی اپنے پیاروں کے بغیر ہی گزرنی تھی-وہ پیارے جو اس اولڈ ہاؤس میں لا کر انہیں ہمیشہ کے لیے بھول گئے تھے – فاخرہ ان کی پرنم آنکھیں دیکھ کر مسکرائی-
کچھ دیر بعد ہی ایک کے بعد ایک بڑی بڑی گاڑیاں اولڈ ہاؤس کے دروازے پہ رکنے لگیں تھیں – فاخرہ نے ولید اعوان سمیت کئی بیٹوں کو ان گاڑیوں سے اترتے دیکھا – جو اپنے بوڑھے والدین سے گلے مل رہے تھے-
وہ اپنے والدین کے ساتھ نا صرف عید منانے آئے تھے بلکہ انہیں ہمیشہ کے لئے اس اولڈ ہوم سے لینے کے لیے آئے تھے- کیونکہ سائیکالوجسٹ فاخرہ کے جذباتی الفاظ نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں- وہ جان گئے تھے کہ اپنے والدین کو خود سے دور کرنا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہ تھا-
اداس اور پریشان جھریوں زدہ چہرے خوشی سے منور ہو گئے تھے- ان کی بے قرار نظروں کو قرار نصیب ہو گیا تھا-ان کی آنکھوں ٹھنڈک نصیب ہو گئی تھی-عید کا مزہ دوبالا ہو گیا تھا-آج ہی تو ان کی عید ہوئی تھی- سچی عید اصلی عید.
 

Sarah Omer
About the Author: Sarah Omer Read More Articles by Sarah Omer: 15 Articles with 12571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.