مملکت خداداد کے قیام کو 74 برس گزر چکے ہیں تاہم جن
مقاصد کیلئے پاکستان کا وجود ناگزیر تھا ان کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہےجس
کی بنا پر وطن عزیز مشکلات کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ ہم نے تحریک پاکستان
کے بنیادی اصولوں سے بالکل انحراف کیا جس کی وجہ سے لاکھوں قربانیاں دیکر
جو خطہ خدائے اللہ تعالی نے ہمیں عطا کیا آج وطن عزیز مشکلات کا شکار ہےوطن
عزیز میں دہشتگردی، فرقہ واریت، کرپشن، علاقائی اور قومی مسائل ،معاشی
مسائل نے پاکستان کو ایک نازک دوراہے پر لاکھڑا کیاہے۔ آج کسی بھی عاقل
پاکستانی کو یہ کہنے میں عار نہیں ہے کہ تحریک آزادی کے جن اصولوں پر قائد
اعظم اور علامہ اقبال کے تصور ریاست سے اخذ کر کے تشکیل پاکستان کے تقاضوں
کو نبھانا تھا ان کو فراموش کر دیا گیا اگر آج ہمیں پاکستان کے حقیقی مسائل
کو سمجھنے انکے ادراک کے لئےہمیں اپنی منزل کا تعین اور ماضی کی غلطیوں کا
ازالہ کرنا ہوگا
قائد کے پیغام کی ترویج کیلئے اور مسلمانوں میں احساس کمتری کو دور کرنے
کیلئے ان میں آگہی اور شعور بیدار کرنے کیلئےسب کو کردار ادا کرنا ہوگا ۔
قلم کے ذریعے بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔اسلامیان ہند قائدکی قیادت میں عوامی
جدوجہد کے نتیجے میں ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ہم اس کا
ادراک نہ کرسکے کہ قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریے کے تقاضے کیا ہیں؟
ہمیں ان تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگاتشکیل پاکستان سے
تکمیل پاکستان تک کےلئے ہمیں اخلاق اور کردار ملاکر شخصیت سازی کرناہوگی۔
جس کا اخلاق و کردار بہتر ہوگا وہ انسان دوسروں کے لئے رحمت بن جاتا
ہے۔رحمت اللعالمین حضور ﷺ نے اپنے پیرو کاروں کی فکری و ذہنی تربیت کے
ذریعے ایک مثالی معاشرہ کے قیام کو ممکن بنایا۔ اخلاق اور دین اسلام کا آپس
میں بڑا گہرا تعلق ہے۔انسان اخلاق کے بغیر جسم بے جان کی مانند ہے۔ میرے
آقاﷺ نے ارشاد فرمایا’’ میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا
ہوں‘‘لہذا نسلِ نو کی کردار سازی اور ان کی شخصیتوں کی اعتدال پسندانہ
تعمیر ایک اہم معاشرتی فریضہ ہے۔
|