لیو زیلارڈ: سب سے پہلے ایٹم بم کا خواب دیکھنے والے شخص کی کہانی

image
 
لیو زیلارڈ وہ پہلے شخص تھے جنھیں یہ خیال آیا کہ جوہری توانائی سے خوفناک حد تک طاقتور بم بنایا جا سکتا ہے۔ لیزا جارڈین اس کہانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے سائنسی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
 
جب میں چھوٹی تھی تو ہنگری سے تعلق رکھنے والے ماہرِ طبیعیات لیو زیلارڈ کی ایک بڑی سی پینٹنگ ہمارے گھر میں آویزاں تھی۔
 
وہ میرے سامنے ایک مثالی سائنسی شخصیت بنا کر پیش کیے گئے تھے، ایک ایسا شخص جس نے نیوکلیئر فزکس میں اہم کامیابیاں حاصل کیں مگر اپنے انتہائی احساسِ ذمہ داری کی وجہ سے وہ اسی ترقی کے خلاف ہو گئے جس کے حصول میں اُنھوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
 
مجھے بہت عرصے بعد اُن کی کہانی کا ایک متبادل رُخ دیکھنے کا موقع ملا۔
 
اب سے تقریباً 88 سال قبل اکتوبر 1933 میں زیلارڈ لندن میں تھے جب اُنھیں ایسا خیال آیا جو سب سے زیادہ طاقتور ہتھیار یعنی ایٹم بم کا براہِ راست وسیلہ بنا۔
 
اس سے دو ہفتے قبل ہی ٹائمز میگزین میں ایک خبر چھپی تھی جس میں برٹش ایسوسی ایشن میں لارڈ ردرفورڈ کے ایک لیکچر کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ردرفورڈ نوبیل انعام جیتنے والے نیوزی لینڈ کے ماہرِ فزکس تھے اور انگلینڈ کے شہر کیمبرج میں کیونڈش لیبارٹری کے سربراہ تھے۔
 
image
ردرفورڈ
 
ردرفورڈ نے اس لیکچر میں بتایا تھا کہ کیسے ایٹم پر پروٹونز پھینک کر انھیں توڑا جا سکتا ہے مگر یہ بھی کہا تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی توانائی کو استعمال میں لانے کی تجویزیں 'چاند توڑ کر لانے' جیسی بات ہے۔
 
اس رپورٹ نے زیلارڈ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ انھوں نے اس کا عمیق مطالعہ کیا۔ واقعی ردرفورڈ غلط تھے؟
 
پھر ایک بے رنگ سی صبح جب وہ اپنے ہوٹل کے قریب سڑک پار کرنے لگے تھے تو جواب اُن کے ذہن میں آ گیا۔
 
image
زیلارڈ کے خط پر البرٹ آئن سٹائن نے بھی دستخط کیے تھے جس میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق متنبہ کیا گیا تھا
 
اگر ایک نیوٹرون کو ایٹم پر فائر کیا جائے اور اس سے دو نیوٹرون خارج ہوں، اور وہ دونوں ہی ایک ایک ایٹم سے ٹکرائیں اور پھر ہر ایٹم سے مزید دو نیوٹرون خارج ہوں، اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا جائے تو ایسے ایٹمی ری ایکشنز کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس سے ناقابلِ تصور توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔
 
زیلارڈ یہ کہانی دو مرتبہ معمولی رد و بدل کے ساتھ سناتے ہیں مگر یہ کہانی بذاتِ خود ٹھوس ہے اور خوشگوار حد تک تفصیلی ہے۔
 
ردرفورڈ کا وہ چیلنج، وہ سردی جس کے باعث زیلارڈ اس لیکچر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارے گئے دن اور ٹریفک کی بتی بدلتے ہی آنے والا خیال، یہ سب عناصر اس کہانی کو رنگین بناتے ہیں۔
 
زیلارڈ کو فوراً ہی اپنے تصور کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔
 
اس کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اسے برطانوی بحریہ کی کمانڈ کرنے والے ادارے برٹش ایڈمیرلٹی کے نام پر پیٹنٹ کروا لیا۔ اس پیٹنٹ میں 'دھماکے کرنے کے لیے نیوٹرونز کے ذریعے سلسلہ وار ردِعمل' کرنے کے متعلق تفصیلی وضاحت موجود تھی۔
 
بعد میں انھوں نے امریکہ میں رہائش اختیار کر لی تھی جہاں اگست 1939 میں انھوں نے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ 'یورینیم کی ایک بہت بڑی مقدار میں سلسلہ وار جوہری ردِعمل' بلاشبہ ممکن ہے اور اس سے 'نئی قسم کے انتہائی طاقتور بم' بنائے جا سکتے ہیں۔
 
image
زیلارڈ
 
انھوں نے خبردار کیا کہ جرمنی شاید اب ایسا کوئی ہتھیار تیار کر بھی رہا ہو۔
 
انھوں نے لکھا: 'ایسا ایک بھی بم اگر کشتی کے ذریعے بھیج کر کسی بندرگاہ میں دھماکہ کیا جائے تو پوری بندرگاہ اور آس پاس کا کچھ علاقہ تباہ ہو سکتا ہے۔'
 
اس خط پر زیلارڈ اور البرٹ آئن سٹائن نے دستخط کیے تھے۔ جب تک یہ خط روزویلٹ تک پہنچا، تب تک جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا تھا۔ اب جنگ یقینی تھی اس لیے صدر روزویلٹ کو احساس تھا کہ تاخیر نہیں کی جا سکتی۔
 
فوراً ہی ایک کمیٹی بنائی گئی تاکہ اس حوالے سے کام شروع کیا جا سکے۔ اس کمیٹی کے نتیجے میں مین ہٹن پراجیکٹ شروع ہوا۔ اس پراجیکٹ کے مقاصد بلند تھے اور اس کے لیے بھاری فنڈز مختص کیے گئے تھے تاکہ کم سے کم وقت میں ایٹم بم تیار کیا جا سکے۔
 
مگر چھ سال سے بھی کم عرصے بعد سنہ 1945 میں زیلارڈ اسی جذبے کے ساتھ امریکی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ ایٹم بم کو عام شہریوں کی آبادی پر استعمال نہ کیا جائے۔
 
ایسے کسی ہتھیار سے کتنی تباہی ہو سکتی ہے، وہ یہ بات کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ سمجھتے تھے۔ مگر اُن کی دستخط کردہ یہ پٹیشن جس پر کئی دیگر نیوکلیئر فزکس کے ماہرین کے بھی دستخط تھے، کبھی بھی صدر تک نہیں پہنچی۔
 
زیلارڈ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بموں کے حملے روک پانے میں ناکامی پر اتنے دلبرداشتہ ہوئے (مجھے بچپن میں سنائی گئی کہانی کے مطابق) کہ انھوں نے نیوکلیئر فزکس پر مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔
 
اس کے بجائے انھوں نے اپنی تحقیق کا شعبہ مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے مالیکیولر بیالوجی پر کام شروع کر دیا، وہ شعبہ جس میں زندگی تباہ کرنے کے بجائے اس کے آغاز کے متعلق کام کیا جاتا ہے۔
 
میرے والد کے نزدیک یہ بہادرانہ قدم سائنسی اخلاقی ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔
 
مگر میں آج جانتی ہوں کہ یہ کہانی جتنی اثر انگیز ہے، اس کے ساتھ مسائل بھی اتنے ہی ہیں۔
 
image
جنرل لیسلی (تصویر میں) کو خدشہ تھا کہ زیلارڈ روس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں
 
تاریخ کے معاملے میں اکثر ہمیں اُن بیانیوں کے بارے میں احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے جو تحریر کے وقت کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
 
جس وقت مجھے یہ کہانی سنائی جا رہی تھی، اس وقت برطانیہ سرد جنگ میں گہرائی تک پھنسا ہوا تھا۔ جنگ کے بعد کے برسوں میں یہ ہوا کہ زیلارڈ (اور میرے اپنے والد) کو بھی نیوکلیئر فزکس سے متعلق کسی سائنسی پراجیکٹ پر کام ملنا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔
 
ویسے تو وہ خود اپنی بدنامی سے واقف نہیں تھے، مگر واقعہ یہ تھا کہ نوجوانی میں کمیونسٹوں کے لیے ہمدردی کے باعث انھیں ضروری سکیورٹی کلیئرنس نہیں مل پا رہی تھی۔
 
چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ زیلارڈ نے اپنی مرضی سے فزکس چھوڑی۔ جنگ کے اختتام پر اُنھیں مین ہٹن پراجیکٹ سے اس کے فوجی سربراہ جنرل لیسلی گرووز نے اچانک برطرف کر دیا۔
 
گرووز کو ہمیشہ سے لگتا تھا کہ روسی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور اب وہ انھیں بہت بلند سکیورٹی خطرہ سمجھنے لگے تھے۔
 
زیلارڈ کو اپنا شعبہ تبدیل کرنا پڑا مگر مالیکیولر بیالوجی کا انتخاب کر کے اُنھوں نے مستقبل کی پیش بینی کا ثبوت دیا تھا کیونکہ صرف ایک دہائی کے دوران ہی 'زندگی کے راز' یعنی ڈی این اے کی ساخت سے پردہ اٹھنے والا تھا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: