کسی نے نکالا ریکٹ پر غصہ تو کوئی جیت کر بھی ہوگیا ایونٹ سے باہر... ٹوکیو اولمپکس 2020 کو یادگار بنانے والے چند دلچسپ واقعات

image
 
جاپان کے شہر ٹوکیو میں سجے اولمپکس کے میلے میں جہاں دنیا کے بہترین ایتھلیٹ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایکشن میں نظر آرہے ہیں وہیں چند ایتھلیٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے کچھ ایسا کر دکھایا جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ تئیس جولائی سے شروع ہونے والے اولمپکس کے مقابلے میں کسی کھلاڑی نے اپنا غصہ ریکٹ پر نکالا تو کسی نے شکست کا ذمہ دار ان کھلاڑیوں کو قرار دیا جو اولمپک ولیج میں ہی موجود نہیں تھے۔ رنگا رنگ ایونٹ آٹھ اگست تک جاری رہے گا اور اب تک کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے ٹوکیو اولمپکس کو خصوصی میڈیا کوریج بھی دی گئی۔ ایسے ہی چند کھلاڑیوں کے بارے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں جنہوں نے 'اولمپکس 2020' کا میلہ یادگار بنا دیا ہے۔
 
نواک جوکووچ
سربین ٹینس اسٹار نواک جوکووچ جب جیت رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہوتی ہے لیکن ٹوکیو اولمپکس میں انہوں نے کانسی کے تمغے کے میچ میں شکست کا سارا غصہ ریکٹ پر نکال دیا۔ نواک جوکووچ جو مینز ایونٹ میں تیسری پوزیشن کے لیے اسپین کے پابلو کرینو بُسٹا سے مقابلہ کر رہے تھے، میچ کے دوران انہوں نے ایک ریکٹ کو کورٹ سے باہر پھینک دیا اور دوسرے کو نیٹ پر دے مارا۔ اس شکست کے ساتھ وہ اولمپکس میں نہ صرف کانسی کے تمغے سے محروم ہوئے بلکہ ساتھ ہی مکسڈ ڈبل کے مقابلوں سے انجری کا کہہ کر دست بردار بھی ہو گئے۔ اور یوں انہیں ٹوکیو سے خالی ہاتھ ہی واپس آنا پڑا۔
image
 
ماحور شہزاد
دنیا بھر میں کسی بھی کھلاڑی کے لیے اولمپک گیمز میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ اولمپک گیمز میں شرکت کرنے والی بیڈمنٹن کھلاڑی ماحور شہزاد نے دو میچز میں شکست کے بعد اپنی کارکردگی کا تمام ملبہ ساتھی کھلاڑیوں پر ڈال دیا تھا جو پاکستان میں ہی تھے۔شکست کے بعد جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں ماحور شہزاد کا کہنا تھا کہ وہ 'پٹھان کھلاڑی' جو اولمپک گیمز میں جگہ نہ بنا سکے، وہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث رہی جس کے بعد ماحور شہزاد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پہلے ایک پوسٹ اور پھر ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے اس معاملے پر وضاحت پیش کی۔
image
 
مارسل جیکبس
رواں برس ٹوکیو اولمپکس میں مردوں کی 100 میٹر ریس ایک ایسے ایتھلیٹ نے جیتی جو پیدا تو امریکہ میں ہوئے تھے لیکن انہوں نے اٹلی کی نمائندگی کی۔ اطالوی ٹریک اسٹار مارسل جیکبس 1994 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہوئے لیکن اٹھارہ ماہ کی عمر میں وہ اپنی اطالوی والدہ کے ہمراہ اٹلی منتقل ہو گئے تھے۔ مارسل جیکبس نے اولمپکس میں ’مینز 100 میٹر ریس‘ میں مقررہ فاصلہ نو اعشاریہ آٹھ صفر سیکنڈز میں طے کر کے یوسین بولٹ کی یاد تازہ کر دی۔ یاد رہے کہ تین اولمپکس کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب 100 میٹر ریس عالمی ریکارڈ یافتہ یوسین بولٹ کے بغیر ہوئی۔ اولمپک گیمز کا یہ ریکارڈ اب بھی جمیکن ایتھلیٹ کے پاس ہے۔ یہ اولمپک کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ مینز 100 میٹر ریس اٹلی سے تعلق رکھنے والے کسی ایتھلیٹ نے جیتی ہو۔
image
 
سیفان حسن
ڈچ ایتھلیٹ سیفان حسن نے اولمپکس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ 1500، پانچ ہزار اور دس ہزار میٹر کی ریس جیت کر ریکارڈ بنائیں گی لیکن پہلی ہی ریس میں ان کا آغاز خاصا آئیڈیل نہ تھا۔ اٹھائیس سالہ ایتھلیٹ ریس جیتنے کے لیے میدان میں اتری ہی تھیں کہ ان کے آگے بھاگنے والی کینین ریسر ریس کے آغاز میں ہی گر گئیں اور ان کے ساتھ ہی سیفان حسن بھی زمین پر گر پڑیں۔ لیکن سیفان حسن نے ہمت ہارے بغیر ریس جاری رکھی اور باقی ایتھلیٹس سے 30 میٹر پیچھے ہو جانے کے باوجود بھی آخر میں انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ڈچ ایتھلیٹ نے یہ ہیٹ چار منٹ اور پانچ اعشاریہ ایک سات سیکنڈ میں جیتی۔ علاوہ ازیں دوسرے نمبر پر آنے والی آسٹریلوی ایتھلیٹ جیسیکا ہل سیفان حسن سے ایک قدم کی دوری پر تھیں۔
image
 
معتز عیسیٰ برشم، گیان مارکو
ٹوکیو اولمپکس میں اس وقت ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی جب ہائی جمپ کے فائنل میں قطری اور اطالوی ایتھلیٹ کے پوائنٹس برابر ہو گئے۔ قطر کے معتز عیسیٰ برشم اور اٹلی کے گیان مارکو ٹمبیری نے مقابلہ تو خوب کیا لیکن ٹائی ہونے کی وجہ سے منتظمین پریشان ہو گئے۔ دونوں ایتھلیٹس نے دو اعشاریہ تین سات میٹر ہائی جمپ لگائی جس کے بعد اولمپک منتظمین کی پیشکش پر انہوں نے مشترکہ اولمپک چیمپئن بننے کا فیصلہ کیا۔ اس اعلان کے بعد دونوں ایتھلیٹ بغل گیر ہوئے اور سوشل میڈیا صارفین نے ان کی 'اسپورٹس مین اسپرٹ' کو خوب سراہا۔
image
 
ایڈن والش
آئرش باکسر ایڈن والش کا اولمپک گیمز میں سفر اس وقت ختم ہو گیا تھا جب وہ مینز ویلٹر ویٹ کی کیٹیگری سے انجری کی وجہ سے باہر ہو گئے تھے۔ ایڈن والش کو یہ انجری میچ کے دوران نہیں بلکہ میچ جیتنے کے بعد اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنی کامیابی کا جشن اچھل کود کر منا رہے تھے۔ سیمی فائنل میں پہنچنے کی وجہ سے ایڈن والش کو کانسی کا تمغہ تو مل گیا تھا لیکن سونے اور چاندی کے تمغے جیتنے سے پہلے ہی وہ ایونٹ سے باہر ہو گئے۔
 
بوبی فنک
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ریس جیتنا ہے تو اس کے لیے آغاز اچھا کرنا ہوگا لیکن امریکی سوئمر بوبی فنک نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ مَردوں کی 800 میٹر فری اسٹائل ریس میں بوبی فنک کا آغاز اچھا نہ تھا اور آخری لیپ سے قبل ان کی پوزیشن چوتھی تھی۔ بوبی فنک نے آخری 50 میٹر میں اتنا تیز فاصلہ طے کیا کہ ان سے آگے تینوں سوئمرز ان سے پیچھے رہ گئے۔ اکیس سالہ سوئمر نے اپنا پہلا طلائی تمغہ حاصل کرنے کے لیے آخری 50 میٹر کا فاصلہ صرف 26 اعشاریہ تین نو سیکنڈز میں طے کیا تھا۔
 
Partner Content: VOA Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: