روبرو ہے ادیب: تنزیلہ یوسف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ۔۔۔۔!

تحریروملاقات: ذوالفقار علی بخاری

آپ جانتے ہیں کہ ہر انسان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے اوریہی سوچ اُس کی پہچان کرواتی ہے کہ اُس کا ظاہر و باطن کیسا ہے۔اسی وجہ سے بیشتر افراد براہ راست گفتگو سے کتراتے بھی ہیں کہ اُن کی گفتگو اُن کے اندر چھپے اصل انسا ن کو پہچاننے میں مدد دیتی ہے، دوسری ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ افراد اپنی سوچ کو لفظوں کی شکل میں بیان کرتے ہیں اوریہی رائے اُن کی شناخت کا جہاں سبب بنتی ہے وہیں ان کے اندر کے لکھاری کو بھی سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آج ادب اطفال میں کئی ایسے لکھاری ہیں جن کی رائے کو پڑھ کر جب لکھنے کا کہا گیا تو انہوں نے بے حد عمدہ کہانیاں اورمضامین لکھنا شروع کر دیئے ہیں۔ انہی باصلاحیت لکھاریوں میں سے ایک تنزیلہ یوسف صاحبہ بھی ہیں جو کہ اپنا کام بھرپور ستائش نہ ملنے کے باوجو دبھی کیے جا رہی ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ ایک ذمہ داری ہے جو کہ بنا لالچ کے ادا کرنی ہے۔تنزیلہ یوسف بہت ملنسار، کھری اورحساس لیکن ذمہ داری خاتون ہیں، یہی خوبی ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔

ان سے ہونے والی ایک ملاقات کی روداد آپ کے سامنے پیش ہے، ملاحظہ کیجئے۔


سوال:آپ کا لکھنے کی جانب رحجان کیسے ہوا؟
جواب: فیس بک پر احباب کی نظر سے میری \''دانش وری\'' کمنٹس کی صورت میں گزری تو لکھنے کا مشورہ ملا۔
٭٭٭٭٭



سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ زیادہ مطالعہ کرنے والے ایک دن لکھنے کی جانب مائل ہوتے ہیں؟
جی بالکل۔
٭٭٭٭٭



سوال:بچوں کے لئے کیا سوچ کر لکھنا شروع کیا؟
جواب: یہ کہ جس پر عمل نہیں کرتی اس کی نصیحت نہیں کرنی۔ اسی لیے میری کہانیوں میں نصیحت کی کڑوی گولی یا تو ہوتی نہیں اور اگر ہوبھی تو الفاظ کی چاکلیٹ میں چھپا کر۔
٭٭٭٭٭



سوال:آپ کے خیال میں قلم کی نوک کسی بھی آتشی ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہے؟
جواب: جیسے زبان سے نکلے الفاظ خنجر کی کاٹ سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں،ایسے ہی قلم سے نکلے قرطاس پر بکھرے لفظ مرہم یا نشتر کا کام کرتے ہیں۔ یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ اس کے لفظ قارئین کے لیے مرہم کا کام کرتے ہیں؟ یا نشتر کا؟
٭٭٭٭٭



سوال: والدین نے ادبی میدان میں آگے بڑھنے میں کس قدرساتھ دیا ہے؟
جواب: میرے ابو حیات نہیں۔ مزدور بندے تھے، حالات کی سختی نے پڑھنے لکھنے کی اجازت نہ دی۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر افسر بنیں اور بہت کامیابیاں سمیٹیں۔ وہ اگر ہوتے تو یقیناً خوش ہوتے۔
٭٭٭٭٭



سوال: پہلی تحریرکی اشاعت نے آپ کو کس قدر مسرت دی تھی؟
جواب: مجھے اس پر دوسرا انعام ملا تھا جس کی اطلاع \''پھول بھائی\'' نے دی تھی۔ اچانک ملنے والی اس خوشی نے حیران کردیا تھا۔
٭٭٭٭٭



سوال:کیا آپ سمجھتی ہیں کہ قلمکاروں کے بھی دوہرے چہرے ہوتے ہیں؟
جواب: جی بالکل قلم کار پہلے انسان اور بعد میں قلم کار ہوتا ہے۔ اب تو عادت ہوگئی ہے ایک جسم پر دو چہرے دیکھنے کی۔
٭٭٭٭٭



سوال: آپ کو پہلی مرتبہ سراہنے پر کیا محسوس ہوا تھا، اس خوشی کو آج کیسے دیکھتی ہیں؟
جواب: میں اپنے لیے لکھتی ہوں سراہے جانے کی خواہش سے پرے، پھر بھی اللہ کا بڑا کرم ہے کہ مدیران کی جانب سے ہمیشہ اپنے لکھے پر حوصلہ افزا ردعمل ملا ہے۔
٭٭٭٭٭



سوال: کیا ادیبوں کے ذاتی معاملات ادبی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں؟
جواب: بالکل کرسکتے ہیں۔ یہ ادیب پر منحصر ہے کہ وہ ذاتی اور لکھنے کے معاملات کو علیحدہ رکھے۔
٭٭٭٭٭



سوال: ایک اچھے ادیب کی تعریف کن الفاظ میں کرنا چاہیں گی؟
جواب: وہ جس کے عمل اور لکھے میں تضاد نہ ہو۔
٭٭٭٭٭



سوال: بچوں کو کتب بینی کاشوق کیسے دلوایا جا سکتا ہے؟
جواب: موبائل ٹیبلٹ کے دور میں جب بچوں کے پاس خود کو محظوظ کرنے کے ڈھیروں ذرائع ہیں، وہیں بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے یہ کام خوب صورت تصاویر، جیسے کامکس ہوتی ہیں، کے ذریعے بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
یہاں اپنے بچوں کی مثال دوں گی \''ضیاء اللہ محسن\'' کی \''الٹے میاں \'' سیریز شمارہ ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلے پڑھتے ہیں۔آہستہ آہستہ دل چسپ بیانیے کی جانب مائل کیا جائے اور پندونصائح نصابی کتب میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ ان سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے، بچے محظوظ ہونا چاہتے ہیں اور ہم قلم کار ان پر نصیحتوں کا وہ انبار لادنے کے درپے ہیں،جسے شاید ہی ہم نے کبھی اٹھایا ہو۔
٭٭٭٭٭


سوال: ناقابل اشاعت تحریر اوراعزازی شمارہ نہ ملنے پر آپ بھی دل گرفتہ ہوتی ہیں،کیا کچھ سوچتی ہیں؟
جواب: ناقابل اشاعت تحاریر کی تعداد بہت کم ہے شاید اسی لیے کبھی دل برداشتہ نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭



سوال:آپ کی اب تک کتنی تحریریں شائع ہو چکی ہیں؟
جواب: کبھی گنتی نہیں کی۔
٭٭٭٭٭



سوال:آپ کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ کونسا ہے؟
جواب: بہت سارے ہیں کیا کیا بتاؤں؟

٭٭٭٭٭

سوال:آپ کے خیال میں لڑکیاں کس طرح سے خود کو بہادر بنا کر اپنے خوابوں کو پورا کر سکتی ہیں؟
جواب: آج سے بیس بائیس سال پہلے یہ سوال ہوتا تو شاید میں اس سوال کا جواب خاموش رہ کر دیتی۔ لیکن وقت اور حالات نے یہی سکھایا کہ چھوٹی سی اس زندگی میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ڈٹ جائیے۔ حالات آپ کی مرضی کے مطابق ڈھلتے جائیں گے۔
ویسے بھی لڑکیاں جاگتی آنکھوں سے خواب بہت دیکھتی ہیں، لیکن یہی خواب ٹوٹ جائیں تو ان کی کرچیاں اپنی ہی آنکھوں کو لہو رنگ کرتی ہیں۔

٭٭٭٭٭

سوال: آپ کے مشاغل کیا کیا ہیں کس طرح سے فراغت کے لمحات گزارتی ہیں؟
جواب: بہت سارے ہیں۔ مطالعہ، ڈائری لکھنا (آج کل کم ہوگیا ہے) کہانیاں لکھنا، بیٹی کے کپڑے سینا، بچوں کی پسند کے کھانے بنانا۔۔۔۔۔بہت لمبی فہرست ہے بھئی۔



٭٭٭٭٭

سوال: آپ کے والدین کی کوئی ایسی بات جو ہمیشہ کام آئی ہو؟
جواب: رزق حلال کو ترجیح دینا۔



٭٭٭٭٭

سوال: ادبی ریکارڈز کے مرتب کرنے اور”آپ بیتیاں“ کتاب جیسے اقدامات کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
جواب: اچھا کام ہے۔



٭٭٭٭٭

سوال: قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: زبان نرم رکھنی ہے یا سخت یہ طے کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے لیکن اپنی تلخ زبانی سے ہم درحقیقت اپنے ہی لیے تنہائی کے کانٹے بورہے ہوتے ہیں۔ سو دیکھ لیجیے کہ پہلے والی مشکل سے گزرنا ہے؟ یا بعد والی سے؟



آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522788 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More