یقینا ہندو پاک ہمیشہ سے بے شمار نابغہ ء روزگار شخصیات،
اصحاب قلم اور مفکرینِ ادب کا مسکن رہا ہے،متعدد اہل علم و فن نے اپنی ہمہ
گیر خدمات سے اس دنیائے رنگ و بو کی عطر بیزی کی ہے لیکن ایسی شخصیتیں بہت
کم رونما ہوتی ہیں جو مردم ساز اور عہد آفریں ہوں نیز جن کے علم و ادب کی
وسعت ،فکر و فن کی گہرائی اور ان کی گونا گوں خصوصیات و کمالات کی جامعیت
اپنے اندر دور رس اور گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ انہی اہم شخصیات میں سے ایک
قابل قدر شخصیت جناب حسنین عاقب صاحب کی ہے ۔ آپ نہایت فعال اور باصلاحیت
شاعر ہیں،آپ ایک ایسے غزل گو شاعر ہیں جن کے اندر بےپناہ انفرادیت ہے اور
اپنی اس انفرادیت پہ اعتماد کی وجہ سے آپ اوروں سے کہیں آگے نکلتے ہوئے
دکھائی دے رہے ہیں ،آپ کا شمار ایسے شعرا میں ہوتا ہے جس کی غزل گوئی میں
رنگ بھی ہے اور رس بھی یقیناً آپ کی شاعری میں زندگی اور زندگی سے وابستہ
اشیاء کے بارے میں بہت خوبصورت اشعار ملتے ہیں۔ قول محال کی قوت بخش مجودگی
بھی ملتی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کا اقرار بھی ملتا ہے آپ نے زندگی کی
نفسیات سے ایک بڑی وسیع لغت ترتیب دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نےاردو شاعری
کے سنجیدہ حلقوں میں بہت جلد اپنی ایک الگ پہچان اور اعتماد بنالی ہیں۔ہم
جب محترم حسنین عاقب صاحب کو پڑھتے اور سنتے ہیں تو انکی انفرادیت کا احساس
ہوتا ہے۔
قارئین کرام آج ہم محترم حسنین عاقب صاحب سے کچھ خصوصی گفتگو کریں گے۔
*ابوشحمہ انصاری*
۔السلام علیکم
*حسنین عاقب*
و علیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
*ابو شحمہ انصاری*
۔آپ اپنی ولدیت، جائے پیدائش اور خاندانی پس منظر کے متعلق مختصر جائزہ
قارئین کو پیش کریں۔
*حسنین عاقب*:
عزیزِ من، بہت شکریہ کہ اس دورِ ناشناس میں آپ کی نظریں مجھ جیسے قلندر پر
پڑیں جو اپنے ادب کو چورن کے اشتہار کی طرح جا بجا پیش کرنے کے بجائے
خاموشی کے ساتھ ادب کے مختلف شعبوں میں اپنا کام کئے جارہا ہے۔ اسے خود
ستائی نہ سمجھئے کہ اگر یہ خودستائی ہوتی تو میں آج کل ہر دوسرے اخبار اور
ہر تیسرے رسالے میں نظرآتا ۔ بہر حال، آمدم برسرِ مطلب، ولادت میری ریاستِ
مہاراشٹر کے ضلعی مقام آکولہ میں 8 جولائی 1971 کو ہوئی۔ بس، تب سے لے کر
آج تک سانسوں کی ڈور کو سنبھالے ہوئے زندگی کی کشمکش اور جدوجہد سے
نبردآزما رہا ہوں۔ ہمارا خانوادہ شہر کے تعلیم یافتہ اور معزز طبقات میں سے
ایک تھا اور میرے دادا حضرت مرحوم میر باز خان صاحب ملک کی تحریکِ آزادی کے
لیے کام کرنے والی علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے وابستہ تھے۔ وہ ایک ولی
صفت عالم اور صؤفی تھے جن کے مریدین ملک کے طول و عرض میں موجود تھے۔ فارسی
زبان اوراردو و فارسی شعریات سے انہی کی وجہ سے ذوق پیدا ہوا۔ والد صاحب
تعلیم کے معاملے میں خود مکتفی تھے لہٰذا عربی اور اردو کا اکتساب انہی سے
کیا۔
*ابوشحمہ انصاری*
۔آپ کی تعلیم کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور آپ نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی
مختصر بتائیں؟
*حسنین عاقب*:
رسمی تعلیم شہر ہی کے سرکاری اسکولوں میں حاصل کی۔ پہلی تا چوتھی جماعت تک
نگر پریشد اردو پرائمری اسکول، نواب پورہ، آکولہ، پانچویں سے دسویں جماعت
تک ضلع پریشد ارد و ہائی اسکول، رتن لال پلاٹ آکولہ اور گیارہویں تا
بارھویں جماعت تک ضلع پریشد آگرکر اردو جونئر کالج، ریلوے اسٹیشن روڈ،
آکولہ میں حاصل کی۔ گریجویشن پرائیویٹ طور پر کیا ۔ پھر بی۔ایڈ خان محمد
اصغر حسین کالج آف ایجوکیشن، آکولہ سے کیا۔ اردو، انگریزی اور تاریخ میں
ایم ۔ اے کیا۔ ماسٹر اِ ن سوشل ورک کیا۔ ایم۔ایڈ بھی کیا اور ایل۔ایل۔بی
بھی فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔
*ابوشحمہ* ۔
آپکے لکھنے کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب سے ہوئی؟
*حسنین عاقب*:
دیکھئے، میرے لکھنے کی ابتداء تو پڑھنے سے ہوئی۔ یعنی جس وقت میرے شعور کے
کسی گوشے میں یہ بات نہیں تھی کہ میں کبھی لکھوں گا بھی، اس سے بہت پہلے ہی
سے مجھے پڑھنے کا شوق تھا جو بڑھتے بڑھتے جنون میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے بچوں
کے اردو رسائل مثلا ماہنامہ کھلونا، ماہنامہ نور، ہلال وغیرہ اور کہانیوں
کی کتابیں پڑھتا تھا۔ پھر احاطہءانعکاسِ توجہ بڑھا تو ہندی اور پھر انگریزی
زبان کی کتابیں شامل ہوگئیں۔ مقامی نجی لائبریریوں سے کتابیں کرائے پر لاتا
تھا اور فی دن کرایہ دوگنا نہ بھرنا پڑے اس لیے ایک کتاب ایک دن اور رات
میں ختم کرکے اگلے دن دوسری کتاب لاتا تھا۔ کھانا کھانے بیٹھتا تو دائیں
ہاتھ سے لقمے بناتا اور بائیں ہاتھ میں کوئی کتاب ہوتی نیز نظریں کتاب پر
گڑی ہوتیں۔ یہ عالم تھا مطالعے کا۔ اب حال یہ ہے کہ میرے اپنے گھرکا ایک
کمرہ لائبریری بنا ہوا ہے لیکن لکھنا ایک ایسی ضرورت بن گیا ہے کہ پڑھنے کی
مہلت بہت کم ملتی ہے۔
اب رہی بات لکھنے کی تو بھائی۔۔ لکھنا اکتسابی فن نہیں ہے عطائی فن ہے۔
ہاں، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی تزئین کاری کے لیے کسبِ فن کریں
لیکن بنیادی طور پر لکھنا میرے لیے الہام کی طرح ہے۔ پھر چاہے وہ ادب کی
کوئی بھی صنف ہو۔ میں نے سب سے پہلے زمانہء طالبِ علمی ہی سے انگریزی نظمیں
لکھنے کی شروعات کی تھی۔ گھر کے بزرگوں سے چھپا کر لکھتا تھا کہ انہیں خطرہ
تھا کہ کہیں بچہ شاعر بن کر بگڑنہ جائے اس لیے شاعر بننے کی حوصلہ افزائی
نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی جاتی تھی البتہ شاعری کا ذوق گھروالوں ہی نے پیدا
کیا تھا۔
*ابوشحمہ* ۔
کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا؟ جیسے بچوں کو ڈاکٹر
اور انجینئر وغیرہ بننے کا شوق ہوتا ہے ؟
*حسنین عاقب*:
نہیں برادرم، ہماری ذہنی معصومیت کی وجہ سے ہمیں شاعر یا ادیب بننے کا شعور
ہی کہاں تھا؟ اور گھر میں ادبی ماحول ہونے کے باوجود سوچا بھی نہیں جاسکتا
تھا کہ ہم قلم کے سپاہی بنیں گے۔ ہاں، البتہ والدہ مرحومہ کا خواب ہمیں
ڈاکٹر بنانا تھا اور والد صاحب کا خواب وکیل بنانا تھا۔ ہم ڈاکٹر تو نہیں
بنے ، معلم بن گئے اور پھر والد صاحب کا خواب پورا کرنے کے لئے دورانِ
ملازمت وکالت یعنی ایل ایل بی بھی کرلیا لیکن پریکٹس نہیں کی۔ البتہ ہمارا
ذہن تحسیبی سرگرمیوں کا متحمل نہیں تھا، اتنا شعور تو بہت پہلے ہی سے تھا
اس لیے ادب کی دنیا میں پہنچ گئے۔ حساسیت حد درجہ موجود تھی یعنی اتنے ذکی
الحس تھے کہ جس بات کا احساس نہیں کرنا چاہیے، اس پر بھی گھنٹوں سوچا کرتے
تھے۔
*ابوشحمہ*
۔آپ کو ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے؟
*حسنین عاقب*:
اب آپ ادبی صنف کی پسندیدگی کی بات کررہے ہیں تو پہلے یہ بتادیجئے کہ آپ کی
مراد میرے پڑھنے سے ہے یا مطالعے سے ؟
*ابو شحمہ*
: جی، پہلے تو مطالعے ہی کی بات کرتے ہیں۔
*حسنین عاقب*:
تو پھر ٹھیک ہے، سنئے۔ ادبی اصناف میں مجھے نثری اصناف نسبتاً زیادہ پسند
تھیں اور اب بھی ہیں۔ بچپن میں کہانیاں، پھر افسانے، ناول اور آپ بیتیاں
پڑھنا بہت پسند تھا۔ شاعری پڑھنا بھی پسند تھا لیکن اس تناسب کے ساتھ نہیں
جس تناسب کے ساتھ نثری اصناف پڑھا کرتا تھا۔ پھر لکھنے کی باری آئی تو
خواہشِ اظہار نے شعری اصناف کا جامہ زیبِ تن کرلیا۔ اس طرح ابتدا ہم نے
شاعری سے کی۔ پھر نثر میں تحقیقی مقالات، تنقیدی مضامین اور پھر تخلیقی نثر
میں ڈرامے ، چند افسانے گو کہ افسانہ نگاری ترجیح میں شامل نہیں ہے اور
انشائیے لکھے ۔ لیکن شاعری کے علاوہ میرا دوسرا بڑا کام ترجمہ نگاری ہے۔
*ابو شحمہ*
: اوہ ہاںِ ، مجھے خوب یاد آیا کہ کچھ برس پہلے اور پھر ان دنوں دوبارہ
ترجمہ نگاری میں آپ کی وضع کردہ اصطلاح معکوس ترجمہ نگاری کے بارے میں ادبی
حلقوں میں بحث ہورہی ہے۔ معکوس ترجمہ نگاری کے بارے میں کچھ بتائیے۔
*حسنین عاقب*:
جی یہ اچھا یاد آیا آپ کو ۔۔ میں نے برسوں پہلے معکوس ترجمہ نگاری کی
اصطلاح وضع کی تھی اور نہ صرف وضع کی بلکہ اسے ترجمہ نگاری کا ایک علیحدہ
زمرہ بنانے پر بحث کی تھی۔ عام طور پر ترجمہ نگار کسی بیرونی زبان کے ادب
پارے کا ترجمہ اپنی مادری زبان میں کرتا ہے۔ جب کہ اس کا عین الٹ معکوس
ترجمہ نگاری میں ہوتا ہے جس میں مترجم اپنی مادزی زبان کے کسی شہ پارے یا
ادب پارے کو بیرونی زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔ چونکہ یہ ایک معکوس عمل ہے اس
لیے میں نے اس قسم کی ترجمہ نگاری کو معکوس ترجمہ نگاری کا نام دیا جو اردو
ادب میں ایک نیا نظریہ ہے۔ میرا اصرار اس بات پر ہے کہ ہمیں اس طرح کی
ترجمہ نگاری کے لیے الگ زمرہ قائم کرنا چاہیے۔ کیونکہ معکوس ترجمہ نگاری کے
تقاضے فطری ترجمہ نگاری سے بہت الگ اور زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں۔
*ابوشحمہ*:
خود آپ نے معکوس ترجمہ نگاری میں کیا کاوشیں انجام دی ہیں؟
*حسنین عاقب*:
ایسا نہیں ہے کہ معکوس ترجمہ نگاری کوئی نیا کام ہے۔ بہت سے مترجمین ہیں جو
اپنی مادری زبان سے انگریزی یا دیگر کسی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں۔ وہ تمام
معکوس ترجمہ نگار ہیں۔ میں نے معکوس ترجمہ نگاری میں علامہ اقبال سے لے کر
سیماب اکبرآبادی، ظفر گورکھپوری، ندا فاضلی، زبیر رضوی، گلزار وغیرہ جیسے
شعراء کی غزلوں اور نظموں کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے ۔ اس
کےعلاوہ جو بڑا کام اللہ نے مجھ سے کروایا ہے وہ ہے قرآن کریم کے تیسویں
پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی منظوم ترجمہ جو فی الوقت اپنی نوعیت کا
منفرد اور اچھوتا کام ہے۔ یہ سب معکوس ترجمہ نگاری کے زمرے میں شمار ہوتے
ہیں۔
*ابوشحمہ*
: ایک اور بات مجھے یاد آرہی ہے۔ آپ نے نعت کے لیے انگریزی میں اصطلاح وضع
کی ہے ۔ اس کے بارے میں بھی کچھ بتائیے۔
*حسنین عاقب*:
دیکھئے، نعت ہمارے تقدیسی ادب کی اہم صنف ہے۔ مسلمان دنیا کے ہر گوشے میں
موجود ہیں اور تقریباً دنیا کی ہر بڑی زبان بولنے والوں میں مسلمان بھی
ہیں۔ وہ اپنی اپنی زبانوں میں نعت بھی تخلیق کرتے ہیں لیکن ان زبانوں میں
تو چھوڑیے انگریزی جیسی عالمی زبان میں نعت کے لیے کوئی اصطلاح ہمیں نہیں
ملتی جب کہ انگریزی عسائیوں کی زبان ہے جو حضرت عیسیٰ کو پیغمبر مانتے ہیں
لیکن ان کے یہاں اپنے پیغمبر کی توصیف و ثناء کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اس
لیے میں نے انگریزی زبان میں نعت کے لیے 'پروفیمٗ لفظ وضع کیا۔ چونکہ میں
انگریزی زبان و ادب کا مزاج آشنا ہوں اس لیے میں نے انگریزی میں پروفیم
تخلیق بھی کیں۔ میری اس اصطلاح کو کئی مغربی ملکوں کے اہلِ زبان و ادب نے
خوشدلی سے قبول بھی کیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں بھی اب پروفیمس پر کام
ہورہا ہے۔ لیکن ہمارے اپنے ملک میں اس سلسلے میں زیادہ پیشرفت نہیں ہوپائی
ہے۔ دیکھیں، اگر آپ جیسے ادبی صحافت کے نمائندے کسی وقت اپنے اخبار کے
ذریعے پروفیم اور معکوس ترجمہ نگاری پر خصوصی ضمیمہ شائع کریں تو شاید اہلِ
ادب میں اس سے متعلق بیداری پیدا ہوسکے۔
*ابوشحمہ*۔
آپ نظم یا غزل میں کس سے متاثر ہوئے؟
*حسنین عاقب*:
میرا پہلا عشق غزل تھا گو کہ میں نے غزل اور نظم دونوں ایک ساتھ ہی لکھنے
کی شروعات کی لیکن میری زیادہ توجہ غزل پر ہی رہی ۔ غزل کا فارم میرے طرزِ
اظہار کے لیے زیادہ موزوں اور موافق تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں نے
نظمیں نہیں کہیں، میں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور پابند وآزاد ، دونوں فارمیٹ
میں کہی ہیں۔ غزل میں موضوعات کا تنوع ہوتا ہے اور کافی گنجائشیں ہوتی ہیں
۔ البتہ غزل سے میں زیادہ متاثر رہا بہ نسبت نظم کے ۔
*ابوشحمہ* ۔ شاعری کے بارے میں آپ کیا کہیں گیں شاعری کیا ہوتی ہے اور
شاعری کا ذاتی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے ؟
*حسنین عاقب*:
شاعری ایک الہامی کیفیت کا نام ہے۔ اگر کوئی شخص شاعری میں ریاضیاتی سرگرمی
انجام دیتا ہے تو وہ شاعر کے علاوہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ شاعری کا تعلق دماغ
سے نہیں دل سے ہوتا ہے۔ اچھی شاعری ، بلکہ شاعری بذاتِ خود ایک عطا اور
ودیعت ہے۔ اس موضوع پر میرا اپنا شعر ہے:
آپ اسے شاعری ہرگز نہ تصور کیجے
دل کی آوارگی شعروں میں جگہ پاتی ہے
شاعری انسانی زندگی کی گھیرابندی کرتی ہے۔ پہلے شاعری کے موضوعات خمریات،
عشق و محبت وغیرہ ہوا کرتے تھے لیکن بیسویں اور اکیسویں صدی میں شاعری کا
موضوعاتی کینواس بہت وسیع ہوگیا اور زندگی کے مسائل پر شاعری گفتگو کرنے
لگی۔ اب ایک عام شعری ذوق رکھنے والے انسان کی زبان پر بھی اپنے روزمرہ
مسئلے پر سلیقہ مندی کے ساتھ بات کرنے کے لیے ایک نہ ایک شعر میسر آہی جاتا
ہے۔ اسے آپ شاعری کا زندگی پر اور زندگی کا شاعری پر اثر سمجھ لیجئے۔
*ابوشحمہ*۔
آپ کا کوئی تازہ کلام ۔
*حسنین عاقب*:
جی، چند اشعار ملاحطہ کریں۔
بولیاں گر لگیں ہم جیسے گنہ گاروں کی
بھیڑ بازار میں لگ جائے خریداروں کی
کشتیاں تھیں کئی اور ہم کہ مسافر تنہا
کشیتاں کھیتے ہوئے عمر وہ گزری ہے کہ بس
دولت پہ کچھ گھمنڈ نہ شہرت پہ ناز ہے
مجھ کو اے دوست تیری محبت پہ ناز ہے
اگر کچرا دکھائی دے تو پانی چھان لیتے ہیں
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں وہ غلطی مان لیتے ہیں
ڈری سہمی ہوئی یہ رات ہے کیا
اجالا بن کے اب تو ساتھ ہے کیا
ہمارے بیچ دیواریں اٹھادے
سیاست! تیری یہ اوقات ہے کیا
غرض مندوں میں کیوں بانٹیں اسے ہم
محبت ہے، کوئی خیرات ہے کیا
پڑی ہیں سب کے چہروں پر نقابیں
میاں ! یہ بزمِ مستورات ہے کیا
ہزار سمت سے نکلا تھا مصلحت کا جلوس
بدلتے آپ جو اپنا نہ رنگ کیا کرتے
کچھ تکلف بھی ضروری ہے محبت کے لیے
کچھ محبت کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
گھر کی تعمیر میں ہوتی ہے محبت پنہاں
کون کہتا ہے کہ دیواروں سے گھر بنتا ہے
پیش قدمی سے ہے مشروط حصولِ منزل
جنبشِ پا کے تسلسل سے سفر بنتا ہے
پکڑی نہ تھی کتاب کہ استاد ہوگئے
ہاتھ آگئی غلیل تو صیاد ہوگئے
لے ہم نے کھول دی ہیں یہ آنکھیں شعور کی
لے ہم ترے فریب سے آزاد ہوگئے
برسوں کی روانی پہ ہے موقوف یہ وسعت
دریا کوئی دو دن میں تو دریا نہیں ہوتا
فطرت میں ہے دریا بھی سمندر کے برابر
یہ بات الگ ہے کہ وہ گہرا نہیں ہوتا
رہتی ہیں مرے ساتھ تری یادیں بھی عاقب
میں روم میں اپنے کبھی تنہا نہیں ہوتا
یہ چند اشعار ہیں جو آپ کی خواہش پر میں نے حاضر کئے ہیں۔ امید ہے آپ کے
قارئین کو پسند آئیں گے۔
*ابوشحمہ*۔
آج کے دور میں شعرا بھی ہیں اور ادیب بھی ، کتابیں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن
تہذیب کم ہوتی جارہی ہے کیوں؟
*حسنین عاقب*:
دیکھئے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پڑھنے والے غائب ہوگئے اور لکھنے
والوں کی باڑھ آگئی۔ لکھنے والوں کی اکثریت پڑھنے کی عادی نہیں ہوتی اس لیے
جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے وہ سوائے لفاظی کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ مطالعہ
یعنی پڑھنے کا عمل تو دراصل جذب کرنے کا عمل ہوتا ہے ۔ ہر لفظ ہمارے اندرون
میں جذب ہوجاتا ہے تو اس میں تاثیر بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور جب کوئی تحریر
پرتاثیر ہو تو اس کے اثرات سماج پر بھی اور تہذیب پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
تہذیب کا تعلق ہمارے رویوں سے ہے۔ لکھنے اور پڑھنے والے تہذیب سے دور ہوگئے
ہیں اس لیے ہمارا معاشرہ عمومی طور پر ایسا معاشرہ بن گیا ہے جس میں
اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ مشاعرے ہماری تہذیب کا ایک
اہم حصہ تھے لیکن اب وہ خالص تجارتی ادارے بن گئے ہیں۔ تو پھر تہذیب کہاں
رہی؟
*ابوشحمہ*
کیا ایک فنکار اپنے فن سے کبھی مطمئن ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ؟
حسنین عاقب:
فنکار وہی ہوتا ہے جو اپنے فن اور اپنی تخلیق سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ آپ
نے کسی مصور کو دیکھا ہوتا کہ وہ آخری وقت تک اپنی تصویر کی نوک پلک درست
کرتا رہتا ہے۔ یہی ایک حقیقی فنکار کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ کبھی مطمئن نہیں
ہوتا۔ فنکار ہمیشہ بہتر سے بہتر کی جستجو میں رہتا ہے۔ فنکار کی اسی کیفیت
پر اقبال کا مصرعہ صآدق آتا ہے :
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
ابوشحمہ ۔آپ کا کوئی پیغام قارئین کے نام ۔
حسنین عاقب:
قارئینِ نوائے جنگ کےلیے میرا یہی پیغام ہے کہ اردو پڑھئے ، گھر میں اردو
کا ماحول بنائیے اور اپنی اگلی نسلوں کو اردو سے متعارف کروائیے اور انہیں
دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی اہمیت سے بھی واقف کروائیے ۔ یاد رکھئے،
اردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ اردو ایک تہذیب ہے ۔ اردو بولنے اور لکھنے
میں فخر محسوس کیجئے۔ |