میڈیا کوگوں تک خبریں یا معلومات پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ
معلومات انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے یا موضوع کے متعلق ہوسکتی ہیں ۔ قدیم
زمانے میں عوام کی معلومات تک رسائی کا کوئی باقاعدہ ذریعہ نہیں تھا لیکن
وقت کے ساتھ ساتھ اخبارات 'رسائل اور اب الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا نے
معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ عوام تک پہنچایا ہے ۔ آج کل ہر شخص بآسانی ہر
قسم کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا
ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو معلومات انھیں فراہم کی جارہی ہیں وہ کس حد تک
درست اور قابل بھروسہ ہیں؟ آیا وہ معلومات حقیقت پر مبنی ہیں یا صرف عوام
کو مغالطہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا ذرائع ابلاغ معاشرے کی سماجی اور
مذہبی اقدار کا تحفط کرتے ہیں یا انھیں کچلا جارہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو
میڈیا کی افادیت اور مقاصد کو جاننے کے لئے بار بار آٹھائے جا رہے ہیں ۔ ہم
اس کالم میں انہی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرینگے ۔ چند روز قبل
میڈیا پر ایک تنقیدی کتاب میری نظر سے گزری جس میں مصنف نے میڈیا پر تنقید
کرتے ہوئے اسے آگ سے تشبیہ دی تھیجس سے میں پوری طرح متفق ہوں ۔ جس طرح آگ
روشنی کا کام دیتی لیکن اگر اسکا منفی استعمال کیا جائے تو جلانے کے کام
بھی آتی ہے بالکل اسی طرح اگر میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو علم و
آگاہی کے نور سے معاشرے کو روسن کیا جاسکتا ہے مگر آج کا میڈیا سرمایہ دار
طبقے کے مفادات کے تحفظ کا آلہ بن چکا ہے۔ سرمائے کو فروغ دینے کے لئے
اخلاقی قدروں سے متصادم اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں ۔ سیاسی افراد بھی
میڈیا سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے عوام کو اپنے کھوکھلے نعروں سے سنہرے
خواب دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کے لئے میڈیا کو استعمال کرتے ہیں مگر بعد میں
نتیجہ صفر جمع صفر مساوی صفر ہوتا ہے۔میڈیا مالکان سرمایہ حاصل کرنےکے لئے
اچھائی یا برائی کے پہلو کو ترک کرکے غلط معلومات ، بھتان بازی، جعلسازی کو
میڈیا کے ذریعے فروغ دے رہے ہیں
اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ حکومت پر میڈیا کے کئی ارب روپے
واجب الادا ہیں جو ظاہر ہے حکومتی اشتہارات چلانے کی مد میں وصول کیے
جاینگے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بذریعہ میڈیا جتنی اسلام کی توہین کی گئ ہے
شاید ہی کسی اور پلیٹ فارم میں ہوئی ہوگی ۔ مغربی میڈیا نے تو باقاعدہ
"اسلامک ایکسٹریمیزم " کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسلام کو تشدد اور
دہشتگردیسے جوڑ دیا ہے۔ آج زیادہ تر مغربی میڈیا ہاوسسز میں اسلام کا ایک
منفی اور بدنما چہرہ دکھایا جاتا ہے جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ میڈیا
ہاوسسز میں دو طریقوں سے اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ ایک بلواسطہ اور
دوسرا بلاواسطہ ۔ مقامی لبرل میڈیا عموما بلواسطہ طریقہ اپناتا ہے جبکہ
مغربی میڈیا کو آزادی اظہار رائے کے نام پر سب کچھ کرنے کی اجازت ہے۔ ہمارے
میڈیا میں کسی کا مزاق اور تمسخر اڑانا نہایت سہل اور آسان کام سمجھا جاتا
ہے۔ کبھی کبھی یہ کام انٹرٹینمنٹ کے نام پر کیا جاتا ہے تو کھی تنقیدی حق
کے نام سے۔ سیاسی شخصیات کی ڈمیز کے علاوہ قدآور علمی اور مزہبی شخصیات کا
بھی انٹرٹینمنٹ اور فن کے نام پر تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات
کریں تو جہاں ایک طرف میمینیزم کے نام پر ملک میں مغربی عریانیت پھیلانے کی
کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب مذہبی طبقے کو عورتوں کے خلاف سمجھا جاتا
ہے ۔ آجکل جتنے بھی لوگ میڈیا شوز میں بیٹھ کر خود کو بڑا فلسفی ظاہر کرانا
چاہتے ہیں ان میں سے اکثر مذہبی طبقے کو زہنی پسماندگی کا شکار قرار دیتے
ہیں ۔ انکے نزدیک مذہبی طبقے کے ازہان چند چیزوں کے گرد گھومتے ہیں لہذا ان
میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی اسی لئے مذہبی طبقے سے کوئی
ڈاکٹر یا انجینئرنہیں بنتا ۔ جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ مسلمانوں کے
قدیم عہد میں ایک عالم دین ریاضی دان، طبیب، فلسفی، نجوم اور کئی شعبہ جات
میں ماہر ہوتا تھا۔ کچھ حلقے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مزہب کا سیاست سے
کیا تعلق۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں لہذا ہرادارے کو اپنا کام کرنا چاہیے
لیکن بقول اقبال"جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی "۔ روشن خیالی
کا نام دے کر دین کو پسے پشت ڈالنے کا کام بھی میڈیا انجام دے رہا ہے ۔ اگر
ہم اسلام کے نظریئے ابلاغ پر نگاہ ڈالیں تو اسلام کسی فاسق اور غیر متصدقہ
شخص کی خبر پر بلا تفتیش یقین کرلینے سے منع فرماتا ہے۔ لہذا کسی خبر کو
قبول کرنے سے پہلے خبر دینے والے کے متعلق معلوم کرلینا چاہیے کہ آیا وہ
صادق ہے یا جھوٹی کہانیاں سنا رہا ہے۔ جھوٹی خبریں بڑے سانحات کو جنم دینے
کا باعث بنتی ہیں اور ایسا ہوا بھی ہے۔ امریکہ نے عراق پر حملہ ایک جھوٹی
رپورٹ کی بنیاد پر کیا تھا جسے میڈیا نے خوب اچھالا اور پھر حملہ بھی ہوا
لیکن بعد میں تمام تر دعوے غلط ثابت ہوئے ۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و
تعالی کا ارشاد ہے کہ "قولو قولا سدیدا "جس کا مطلب ہے سیدھی اور سچی بات
کرو؛ تاکہ کسی بھی شک و شعبے اور مغالطے کی گنجائش نہ ہو۔ ہمارا میڈیا اسکے
برعکس خبریں توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے جس سے ذومعنویت کا تاثر پھیلتا ہے۔ آج
دور جدید میں سوشل میڈیا کی وجہ سے جھوٹی خبریں نہایت سرعت کیساتھ پھیلتی
ہیں لہذا ایسی خبروں سے اجتناب اور مکمل تحقیق بہت ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ
اب ہمیں کیا کرنا چاہیے جس سے میڈیا معاشرے کے لئے مثبت کردار ادا کرے۔ تو
اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی قدم صحیح اور مستند خبروں کا عوام تک
پہنچانا ہے۔مزہب کے خلاف بات کرنے والوں کو جگہ دینے کے بجائے مذہبی اور
معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لئے کام کرنا چاہیے۔ اسکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا
سے پھیلنے والی بہتان بازیوں اور الزام تراشیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر کتاب
اللہ کو پیمانہ بنایا جائے تو میڈیا کا کردار مثبت پیرائے میں ڈھل سکتا ہے۔
ہم جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو درج بالا اصولوں کے مطابق استعمال کرتے
ہوئے اپنے معاشرے کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو سچی بات
کرنے اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے (آمین)۔۔۔ |