ایڈاپشن' اور 'گارڈین شپ۔ ایڈاپڈٹ / متنبیٰ بچے کے حقوق ؟صورتحال گھمبیر ہے

اِس موضوع پر قلم اُٹھانے کا محرک یہ خط ہے جو مجھے ایک سرخواست کے ساتھ موصول ہوا ہے ـ۔ـ"بخدمت جناب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر گوجرنوالا. درخواست برائے بازیابی عبد اﷲ اعجاز ذہنی و جسمانی محبوس بمقام واپڈا ٹاون مکان نمبر 374 بلاک A-2 گوجرانوالہ ۔گزارش ہے کہ درخواست گزار عبداﷲ اعجاز کی حقیقی والدہ ہے ۔ درخواست گزار کی شادی مورخہ16-11-1997 کو محمد اعجاز ولد لال خان کے ساتھ انجام پائی شادی کے بعد درخواست گزار کو اﷲ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا جبکہ درخواست گزار کے حقیقی جیٹھ ریاض احمد رانجھا اولاد سے محروم تھے۔ اور اُن کی درخواست گزار کی اولاد سے شدید جذباتی وابستگی تھی اور وہ اکثر عبداﷲ اعجاز کو گو د لینے کی خواہش کا اظہار کرتے تھے آخر کار اُن کی شدید خواہش پر درخواست گزار اور اُس کے شوہر محمد اعجاز نے اپنے لخت جگر عبداﷲ اعجازکو اِس کے تایا ریاض احمد رانجھا کے سپرد کردیا۔ عبداﷲ اعجاز کو لیتے وقت اُس کے تایا نے درخواست گزار اور اسُکے خاوند کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ عبداﷲ اعجاز کی پرورش مثلِ اولادکرئے گا۔ اسے دینی وعصری تعلیم سے بہرہ ور کرئے گااور اس کے روشن مستقبل کے لیے تن من دھن قربان کردے گا اور کسی چیز کی کمی نہ ہونے دے گا۔ریاض احمد رانجھا نے وعدہ کیاکہ عبداﷲ اعجاز کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنائے گااور اُسے دُنیا کے لیے قابلِ رشک انسان بنائے گا۔ریاض احمد رانجھا اور اُسکی بیوی نسیم اختر کے عہد و پیمان پر اعتبار کرکے درخواست گزار نے اپنی ممتا کی قربانی دے دی اور عبداﷲ اعجاز کو پرورش کے لیے اِن دونوں کے حوالے کردیا۔ مزید یہ کہ ریاض احمد رانجھا اور اُسکی بیوی نسیم اختر کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ وہ ریکارڈ میں عبداﷲ اعجاز کی ولدیت تبدیل کرنے کے مجاز نہ ہو ں گے ا ور عبداﷲ اعجاز کو اپنے حقیقی والدین سے ملنے سے منع نہیں کریں گے۔

وقت کا پہیہ چلتا گیا اور عبداﷲ پرائمری تعلیم کے بعد ہائی کلاسز کا طالب علم بن گیا لیکن نسیم اختر کی جانب سے بھر پورتوجہ نہ دینے کے باعث عبداﷲ اعجاز کی تعلیمی حالت خراب ہوتی چلی گئی اور یوں عبداﷲ نہم کے امتحان میں فیل ہوگیا۔ اِس پر جب درخواست گزار اور اُسکے حقیقی والد نے نسیم اختر اور ریاض احمد رانجھا سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے عبداﷲ اعجاز کی کوئی پرواہ نہیں کی اور وہ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور ڈاکٹر بننے کا خواب اب کیسے پورا ہوگا۔تاہم نسیم اختر اور ریاض احمد رانجھا اِس بات پر شدید برہم ہوگئے اور اُنھوں نے کہاجب ہمارے درمیان معائدہ ہوچکا ہے تو اِسی پر عمل ہوگا اور ہم عبداﷲ کو ڈاکٹر بنائیں گے۔ معائدہ کی پاسداری کرتے ہوئے درخواست گزار نے خاموشی اختیار کر لی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاض احمد رانجھا اور اُس کی بیوی کے من میں نہ جانے کیا کیا سازشیں پنپنے لگیں۔ اُنھوں نے عبداﷲ کو حقیقی والدین سے ملنے سے منع کردیا اور حقیقی والدین سے گذشتہ چار سال سے ملنے نہیں دیا گیا۔

عبداﷲ اعجاز کو تعلیم کی محرومی تو مل ہی چکی تھی اب نیا شاخسانہ یہ ہوا کہ عبداﷲ اعجاز کو نشے پر لگادیا گیا۔اور اُس کی برین واشنگ کردی گئی کہ تمھارے حقیقی والدین تمھاری جان کے دُشمن ہیں۔ حقیقی والدین کے خلاف اُس کے دل و دماغ میں نفرت کے بیج بو دیے گئے۔

درخواست گزار کے چار بچے ہیں۔فضا اعجاز، عبداﷲ اعجاز، شانزے اعجاز، مصطفی اعجاز۔عبد اﷲ اعجاز چونکہ اپنے تایا کے پاس رہا ہے اس کی نہ توتعلیم پر توجہ دی گئی اور نہ ہی کوئی تربیت کی گئی ہے۔ جبکہ درخواست گزار کے جو بچے اُس کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ شاندار تعلیم ریکارڈ کے حامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب درخواست دہندہ کو پتہ چلا کہ ریاض احمد رانجھا جو کہ عبداﷲ کا تایا ہے اُس نے عبداﷲ اعجاز کا نام اور تاریخ پیدائش غلط درج کروائی ہے اور نام عبداﷲ اعجاز کی بجائے عبداﷲ ریاض اور تاریخ پیدائش05-08-2000 کی بجائے14-08-2000 درج کروایا ہے تو درخواست دہندہ نے اِس پر احتجاج کیا اور کہا کہ وہ اِس ریکارڈ کو درست کراونا چاہتی ہے اور یوں درخواست گزار نے سول جج گجرات سے اِس بابت استقرار حق کی ڈگری بھی حاصل کر لی ہے۔ اِس کے باوجود عبداﷲ اعجاز تک رسائی نہیں دی جارہی ہے۔ دراصل عبداﷲ اعجاز کو حبس بیجا ء میں رکھ کر نفسیاتی مریض بنادیا گیا ہے ۔ریاض احمد رانجھا نے دوسری شادی کرلی اور اُس کے ہاں اپنے حقیقی بیٹے کی پیدائش ہوچکی ہے۔ نہ تو عبداﷲ اعجاز کے پاس اِس وقت کوئی تعلیم ہے اور نہ ہی ریاض احمد رانجھا نے اِس کے نام کوئی جائیداد لگائی ہے بلکہ ریاض احمد رانجھا نے اپنی ساری جائیداد وغیرہ اپنی پہلی بیوی نسیم اختر کے نام کر دی ہے۔ اندریں حالات جناب سے التماس ہے کہ عبداﷲ اعجاز کی ذہنی و جسمانی صحت کی نگہداشت اُس کی فلاع و بہبود اور بہتر مستقبل کے لیے اُسے بازیاب کروا کر درخواست گزار کے سپرد کیا جائے تاکہ اِس کی صحت اور تعلیم وتربیت کا مناسب انتظام انصرام کیا جائے اور اُسکی تما تر محرومیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔درخواست گزار غزالہ اعجاز۔

ایک آرٹیکل میری نظر سے گزرا جس میں کچھ حالات و واقعات کا تذکرہ ہے "نادیہ ڈھائی برس کی تھی جب اسے پڑوسی ہمارے گھر لے کر آئے۔ اس کے سر پر بال نہیں تھے۔ جلد جگہ جگہ سے خراب تھی اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ الفاظ ہیں عالیہ صارم کے جو صارم برنی ٹرسٹ کی وائس چیئر پرسن ہیں۔نادیہ اب سات برس کی ہو چکی ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے صارم برنی شیلٹر ہوم میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ صارم برنی ٹرسٹ کی چیئر پرسن عالیہ کے بقول انہیں ایک بے اولاد جوڑے نے کسی سے گود لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ عالیہ صارم نے بتایا کہ ایسے بچے جنہیں گود لیتے وقت کوئی کاغذی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے، بعد میں ان کی جانچ پڑتال کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ بہت سے جوڑے جب بچے گود لینا چاہتے ہیں اس وقت وہ جذباتی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ معمولی ذمہ داری نہیں تو وہ اس بچے سے جان چھڑانے کی راہیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔پاکستان میں بچے گود لینے کا کوئی قانون موجود ہے؟قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچے گود لینے کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں کیوں کہ اسلامی شریعہ قانون بچے کو گود لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم 'گارڈین شپ' کے مروجہ قانون کے ذریعے کسی بھی بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس وقت تک لی جاسکتی ہے جب تک وہ 18 برس کا نہ ہو جائے۔ ایک ماہر قانون مطابق 'ایڈاپشن' اور 'گارڈین شپ' دو مختلف چیزیں ہیں۔ چونکہ ملک میں بچے کو گود لینے کے حوالے سے کوئی قانون نہیں تو اسی وجہ سے بچے کو کوئی حقوق بھی نہیں مل پاتے۔انہوں نے کہا کہ گارڈین شپ کے تحت بچے کی کفالت کی ذمہ داری گارڈین کو مل جاتی ہے۔ لیکن اگر بچے کے حقیقی والدین زندہ ہیں تو اس کا نام اپنے والد کے نام سے منسلک رہے گا۔ ماہر قانون نے مزید کہا کہ اگر کسی بچے کے حقیقی والد بھی زندہ نہ ہوں یا کوئی بچے کو لاوارث چھوڑ گیا ہو تو ایسی بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ والد کا نام تبدیل کردیا جائے۔ انہوں نے عبدالستار ایدھی کا حوالہ دیا کہ ایسے بچوں کے نام کے ساتھ وہ اپنا نام یعنی 'ایدھی' لکھوا دیا کرتے تھے۔کیا بچوں کو گود لینے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟عالیہ صارم کا کہنا ہے کہ بچوں کو گود لینے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کے بقول شیلٹر ہوم میں موجود بچے کم ہیں لیکن انہیں گود لینے کے خواہش مند زیادہ ہیں۔عالیہ کہتی ہیں کہ یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بظاہر سمجھا جاتا ہے۔ ''بہت سے جوڑے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آئیں گے اور فوراً بچہ ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پوری جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔''ان کے بقول شیلٹر ہومز میں ایسے شادی شدہ جوڑے آتے ہیں جو طویل عرصے سے بے اولاد ہوتے ہیں۔ ایسے میں خاندان اور معاشرے کا دباؤ ان پر بڑھنے لگتا ہے اور وہ بچہ گود لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی رہنماء کے مطابق کراچی کی رہائشی صفیہ بیگم نے آج سے 50 برس قبل اپنی بہن سے ان کے بیٹے کو گود لیا تھا۔ صفیہ کہتی ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد ان کی بہن اور بہنوئی نے اپنے بیٹے کو واپس لے لیا جس کی عمر اس وقت 15 برس تھی۔ وہ اسے واپس اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے اور اس کے بعد اسے یہاں اپنے ان بہن بھائیوں سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں دی جہاں وہ پیدائش کے کچھ گھنٹوں کے بعد سے 15 برس تک رہا۔انہوں نے کہا کہ ''میں نہیں جانتی تھی کہ میری بہن اس طرح کرے گی، جب اس نے میرے شوہر کے انتقال کے کچھ دنوں کے بعد تمام بچوں کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ فاروق ہمارا بیٹا ہے۔ یہ خبر فاروق سمیت میرے دیگر چھ بچوں کے لیے بھی کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔ صرف میری بڑی بیٹی اس راز سے واقف تھی۔''صفیہ کہتی ہیں کہ جب وہ اسے اپنے ساتھ لے جارہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میرے جسم کا کوئی حصہ الگ کردیا گیا ہو۔ وہ روتا بلکتا، شکوے کرتا لندن چلا گیا اس کے جانے کے بعد سارے محلے کو علم ہو گیا کہ وہ ہمارا حقیقی بیٹا نہیں تھا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کے تمام رابطے ہم سے ختم کرا دیے گئے۔اس واقعے کے بعد سے ہم بہنوں کا رشتہ بھی متاثر ہوا۔ صفیہ کے بقول کئی برس بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی بہن بھائیوں کا سلوک اس کے ساتھ برا تھا یہاں سے دوری اور رشتوں سے اعتبار اٹھ جانے کے باعث اس نے وہاں نشہ شروع کر دیا۔صفیہ بیگم کے مطابق جب بھی کسی بچے کو گود لیا جائے تو اسے یہ حقیقت وقت کے ساتھ بتا دینی چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے اردگرد لوگ پھر اس بچے کے ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو پہلے ہی حساس طبیعت کا ہوتا ہے حقیقت جاننے کے بعد اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔سماجی ادارے بچے کن شرائط پر گود دیتے ہیں؟ انسانی حقوق کی رہنما کے مطابق ان کا ادارہ بچے کو گود لینے والے جوڑے سے کچھ شرائط طے کرتا ہے۔ جس کے تحت جوڑے کی شادی کو 10 سال کا عرصہ گزر چکا ہو اور وہ بے اولاد ہوں۔ ان کی پہلے کوئی اولاد نہ ہو جس بچے کو وہ گود لے رہے ہوں اس کے تحفظ کی ضمانت کے طور پر وہ عدالت میں 10 لاکھ مالیت کا کوئی بانڈ یا جائیداد لکھ کر دستاویزات عدالت میں جمع کروائیں گے۔ جو اس بچے کو 18 سال کی عمر میں پہنچنے کے بعد اسے بذریعہ عدالت مل جائے گی۔عالیہ کے بقول جو جوڑے بچے کو گود لیتے ہیں ان کے کوائف ادارے کے پاس رہتے ہیں۔ بچہ ان پاس کے کس طرح رہ رہا ہے۔ اس کا خیال رکھا جا رہا ہے یا نہیں وقتاً فوقتاً والدین اس سے بھی آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔ انسانی حقوق کی رہنماکہتی ہیں کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ والدین نے گود لیے گئے بچوں کی بہترین پرورش کی اور انہیں اچھے ماحول میں رکھا۔ لیکن ایسا بھی ہوا کہ بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا، ایسے بچوں کو ادارے نے واپس لے لیا۔ان کے بقول بچہ گود لینے کی سب سے زیادہ درخواستیں ایدھی سینٹر کو موصول ہوتی ہیں، یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ بعض اوقات جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہونے میں ایک سے دو سال بھی لگ جاتے ہیں۔ایڈاپشن کو مشکل کیوں بنایا جارہا ہے؟پاکستان میں بچے کو گود لینے کا کوئی قانون نہیں۔ اس لیے بغیر کسی کاغذی کارروائی کے خاندانوں یا اداروں سے بچے کو گود لیے جانا معمول ہے۔ عالیہ کے بقول بعض اوقات بچے کو گود لینے والے جوڑے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے عزیز و اقارب مسائل پیدا کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی رہنماکہتی ہیں کہ کچھ بچوں کو جھوٹ کی بنیاد پر گود لیا جاتا ہے۔ جوڑوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بچہ چند دن یا چند ماہ کا ہو تاکہ ان بچوں کو خاندان میں ان کے حقیقی بچے کے طور پر متعارف کرایا جا سکے۔ ایسے میں درخواست گزار جوڑے خوبصورت بچوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی رہنماکہتی ہیں کہ اگر ایسا کوئی تاثر مل رہا ہو تو ہم بچہ گود لینے کے عمل کو موخر کر دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی رہنما کا کہنا ہے کہ شیلٹر ہومز میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو بچوں کو گود لے کر بعد ازاں ان سے گھریلو کام کاج کراتے ہیں۔ جیسا کہ نادیہ کے ساتھ ہوا۔ نادیہ اب سات برس کی ہو گئی ہے لیکن اب بھی نئے آنے والے افراد کو دیکھ کر ڈر جاتی ہے یا کہیں چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔شیلٹر ہومز میں بچے کیسے پہنچتے ہیں؟ملک کے بہت سے فلاحی اور سماجی اداروں میں پہنچنے والے بچے یا تو گمشدگی کے بعد یہاں پہنچتے ہیں یا پھر انہیں جھولے میں ڈال کر یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد ایدھی سینٹرز میں موجود ہے جس میں 80 فی صد لڑکیاں ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کچھ والدین غربت اور بھوک افلاس کے سبب اپنے بچے ان اداروں میں خود چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کسی کو گود نہ دیے جائیں۔سماجی اداروں کے مطابق ان کے شیلٹرز میں یوں تو بہت سے بچے ہیں جو محبت کرنے والے والدین کے منتظر ہیں۔ لیکن اداروں کو تلاش ان کی ہے جو ان بچوں کو اولاد کی طرح محبت اور توجہ دے سکیں تاکہ ان کا مستقبل ان کے ماضی سے کہیں زیادہ بہتر ہو سکے۔اِس حوالے سے قانون سازی کیجانی چاہیے تاکہ جن بچوں کو کوئی بھی شخص ایڈاپٹ کرئے اُس کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت دے۔ پاکستان میں لوگ شوق سے بچوں کو ایڈاپٹ تو کر لیتے ہیں لیکن بعد میں اگر اُن کی اپنی اولاد پیدا ہوجائے یا کسی اور وجہ سے اُن کی توجہ ایڈاپٹ کیے ہوئے بچے سے کم ہوجائے تو ایسے بچے کا حال اور مستقبل دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اِن حالات میں انسانی حقوق کی تنظیموں، ممبران اسمبلی ،وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 429914 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More