میں بہت تکلیف میں ہوں کوئی اچھا ڈاکٹر میرا علاج کر دے ۔۔ معصوم بچے کی انتہائی ہمت و حوصلے کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سے دکھ بھری فریاد

image
 
ریاست ہوگی ماں کے جیسی ، کسی بھی ملک کو چلانے والوں کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی عوام کو اپنی رعایا سمجھنے کے بجائے ان کی دیکھ بھال ایک ماں کی طرح کرے جو بھوک میں بچے کو کھانا دیتی ہے ۔ بیماری میں اس کا علاج کرواتی ہے اور اس کے بے سایہ سر پر ایک شجر کی طرح سایہ بن جاتی ہے -
 
مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کی ریاست اس حوالے سے کافی حد تک ناکام ہے ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر کوئی اس ذریعے سے اپنی آواز ارباب اقتدار تک پہنچانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو اس کا انحصار ان کی مرضی پر ہوتا ہے کہ وہ اس کی مدد کرتے ہیں یا بھنگ پی کر سوتے رہتے ہیں-
 
گزشتہ روز لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک دس گیارہ سالہ بچے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اس بچے کا نام ہنزلہ جمشید ہے اور وہ کینسر کا مریض ہے اپنی اس ویڈیو میں اس کا کہنا تھا کہ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہے-
 
 
شدید کمزوری اور تکلیف کے ساتھ اس نے ویڈیو میں پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے گزارش کی ہے کہ وہ اس کے لیے سفارش کریں تاکہ اس کا علاج شوکت خانم یا کسی بھی بہتر ڈاکٹر سے ہوسکے-
 
کینسر کے مرض میں مبتلا یہ بچہ اس وقت شدید تکلیف اور درد کا شکار ہے اس وجہ سے اس نے اپنی کمزوری کے سبب تیز چلتی ہوئی سانسوں اور کمزور آواز کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان سے یہ اپیل کی کہ وہ اس کے بہتر علاج کا بندوبست کر دیں تاکہ اس کو اس درد اور تکلیف سے نجات مل سکے-
 
اس بچے کی یہ حالت تمام اولاد رکھنے والے افراد کے لیے ایک امتحان ہے۔ اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے اور ہر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کا علاج اپنے طور پر کروا سکے-
 
یہ بچہ اس ریاست کے لیے امتحان ہے جو ریاست مدینہ قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جہاں پر کسی فرد کے بھوکے سونے کی جوابدہی اگر قیامت کے دن حکمرانوں سے ہوگی اسی طرح اگر خدانخواستہ اس بچے کی یہ سانسیں بغیر علاج کے رک گئیں تو اس کا جواب دینا وقت قیامت ان حکمرانوں کے لیے بہت دشوار ہو جائے گا-
 
image
 
اس کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری ہم سب پر بھی ہے کہ اس بچے کی آواز کو ہم اتنا پھیلائیں اور اتنا شئير کریں کہ یہ آواز ارباب اقتدار تک پہنچ جائے اور وہ اس کے علاج کے لیے عملی اقدامات پر مجبور ہو جائيں ورنہ شائد قیامت کےدن ہم بھی اس کے وبال سے نہ بچ سکیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: