قُرآنِ مَھجُور اور تاریخِ قُرآنِ مَھجُور !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفرقان ، اٰیت 21 تا 34 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قال الذین
لا یرجون لقاءنا
لو لا انزل علینا الملٰئکة
او نرٰی ربنا لقد استکبروا فی
انفسھم و عتو عتوا کبیرا 21 یوم
یرون الملٰئکة لا بشرٰی یومئذ للمجرمین
و یقولون حجرا محجورا 22 و قدمنا الٰی ما
عملوا من عمل فجعلنٰه ھباء منثورا 23 اصحٰب
الجنة یومئذ خیرا مستقرا و احسن مقیلا 24 و یوم
تششق السماء بالغمام و نزل الملٰئکة تنزیلا 25 الملک یومئذ
الحق للرحمٰن و کان یوما علی الکٰفرین عسیرا 26 و یوم یعض الظالم
علٰی یدیه یقول یٰلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا 27 یٰویلتٰی لیتنی لم اتخذ
فلانا خلیلا 28 لقد اضلنی عن الذکر بعد اذ جاءنی و کان الشیطٰن للانسان خذولا 29
وقال الرسول یٰرب ان ھٰذالقراٰن مھجورا 30 و کذٰلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین و
کفٰی بربک ھادیا و نصیرا 31 و قال الذین کفروا لو لا نزل علیه القراٰن جملة واحدة کذٰلک لنثبت
بهٖ فؤادک و رتلنٰه ترتیلا 32 ولا یاتونک بمثل الّا جئنٰک بالحق و احسن تفسیرا 33 الذین یخشون علٰی
وجوھھم الٰی جھنم اولٰئک شر مکانا و اضل سبیلا 34
اے ھمارے رسُول ! جس زمانے کے جن مُتکبر و سرکش لوگوں کے دل ھماری مُلاقات کے خیال سے خالی تھے اُس زمانے کے اُن سرکش لوگوں نے اپنے رسُول سے کہا تھا کہ اگر ھم پر فرشتے نازل ہوتے یا ھم اپنی کُھلی آنکھوں سے اپنے رَب کو دیکھ لیتے لیتے تو ہمیں ایمان لانے میں کوئی تردد نہ ہوتا لیکن حقیقت یہ ھے کہ جس جس دن جن جن لوگوں کے سامنے فرشتے ظاہر کیۓ جاتے ہیں اُس دن کے اُن لوگوں کے لیۓ وہ دن کبھی بھی خوشی کا نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ ہی ایک خوف کا دن ہوتا ھے اور وہ اُس خوف کے دن کہتے ہیں کاش کہ ھمارے اور اِن فرشتوں کے درمیان ایک دیوار بَھر دُوری ہی پیدا کردی جاۓ کہ ھم کُچھ دیر اِن کو نہ دیکھ کر اپنے دل کے خوف کو کُچھ کم اور اپنے جسم کے لَرزے سے ہی کُچھ دیر کے لیۓ بَچ جائیں لیکن اُس دن اور اُس وقت اِن اہلِ جھنم کے سارے سوال و اعمال کو رَد کر دیا جاتا ھے جبکہ اُس دن جو لوگ وہاں پر اپنے اَعلٰی اعمالِ حیات لے کر پُہنچے اور پیش ہوۓ ہوتے ہیں اُن کے سوال کو بھی سُنا جاتا ھے اور اُن کے اعمال کو بھی دیکھا جاتا ھے اور اُن کو وہاں ٹھہرنے کے لیۓ اعلٰی ٹھکانے بھی دیئے جاتے ہیں ، یاد رکھو کہ زمان و مکان میں جب کبھی بھی یہ انقلاب برپا ہوتا ھے تو آسمان سفید بادلوں میں ڈھکا ہوا ہوتا ھے اور اُن سفید بادلوں کی اوٹ سے زمین پر فرشتے قطار در قطار ہو کر اُتر رھے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ہر مُجرم و مَحرم جان جاتا ھے کہ آج کا دن اللہ تعالٰی کی قُدرتوں اور قوتوں کے ظہُور کا دن ھے اور آج کا دن حق کے مُنکروں پر ایک بہت ہی بھاری دن ھے ، اُس روز حق کا ہر مُنکر اپنی اُنگلیاں چبا رہا ہوتا ھے اور یہ بھی کہہ رہا ہوتا ھے کہ کاش کہ میں نے اللہ کے رسُول کی بات سُن کر مان لی ہوتی اور کاش کہ میں نے فلاں گُم راہ انسان کی دوستی قبول نہ کی ہوتی اور کاش کہ میں نے یہ گُم راہی اختیار نہ کی ہوتی جس نے اُس وقت مُجھے گُم راہ کیا تھا جب حق کی روشنی بھی میرے سامنے آچکی تھی اور اِس انقلابِ عالَم کے جس دن جو انسان یہ کہہ رہا ہوتا ھے اُس دن اللہ تعالٰی کا کوئی رُسول بھی اُس قوم کے خلاف یہ گواہی دے رہا ہوتا ھے کہ میری اِس اُمت نے قُرآن کو خود سے دُور اور قُرآن دُشمن کتابوں کو خود سے قریب کر لیا تھا اور اسی طرح ھم نے حق کے ہر دُشمن کے بُرے عمل پر اُس کے رسُول کے بیان کو ہی فیصلہ کُن دلیلِ شہادت بنایا ھے اور انقلابِ عالَم کے اُسی زمانے میں انسان نے یہ بھی کہا ھے کہ اِس قُرآن کو ہر زمان و مکان میں بار بار اُتارنے کے بجاۓ کسی ایک زمان و مکان میں صرف ایک بار ہی کیوں نہیں اُتار دیا جاتا اور اُسی زمانے میں انسان کو یہ بتایا گیا ھے کہ قُرآن کے نزول کا مقصد نزول براۓ نزول ہر گز نہیں ھے بلکہ اِس کا مقصدِ نزول ہر زمان و مکان کے ہر انسان کے دل پر اِس کے اَحکام کو نقش کرنا ھے اور اسی بنا پر اِس کی اِس تنزیل کو مُختلف زمان و مکان کے ساتھ مُنسلک کیا گیا ھے ، اے ھمارے رسُول ! قُرآن کے یہ مُنکر لوگ جتنی بار بھی آپ کے پاس اپنے سوال لے کر آئیں گے ھم اتنی ہی بار آپ کی زبان سے اِن کو ایک سَچی دلیل کے ساتھ اِس کی ایک سَچی اور سُچی تفسیر سُنائیں گے اور اِس کے بعد بھی جو لوگ اِس پر ایمان نہیں لائیں گے تو ھم اُن سب کو ایک جگہ پر جمع کریں گے اور پھر ھم اُن سب کو وہاں سے کھینچ تان کر وادیِ جھنم میں لے جائیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ھم قُرآن کریم کی مُتعدد سورتوں کی مُتعدد اٰیات کی توضیحات کے درمیان مُتعدد مقامات یہ بات ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ عرض کر تے چلے آرھے ہیں کہ معلوم زمانے کے پہلے نبی آدم علیہ اسلام کے اُس پہلے زمانے سے لے کر ھمارے زمانے اور ھمارے زمانے کے بعد کے سارے زمانوں کے آخری نبی سیدنا محمد علیہ السلام کے اِس آخری زمانے تک انسانی ھدایت کا واحد ذریعہ یہی قُرآنِ کریم رہا ھے جو قُرآنِ کریم ھمارے زمانے کے انسانوں کے ہاتھ میں موجُود ھے ، اِس کتابِ ھدایت کے آخری نزول سے پہلے اِس کتابِ ھدایت کے جن کم یا زیادہ اَحکام کی جن اَنبیاء و رُسل کی جن اَقوام کو جس وقت ضرورت رہی ھے اُس وقت اِس کتابِ ھدات کے وہ سب اَحکام اُن سب اَقوام کو یکے بعد دیگرے ملتے رھے ہیں لیکن اُن سب اَقوام نے ہمیشہ ہی اپنے اپنے زمانے میں اِس کتابِ ھدایت کے اَحکامِ ھدایت کو ترک کر کے اپنے وقت کے شاہانِ وقت یا اپنے وقت کے رُہبانِ وقت کے اَحکام کو اختیار کرکے گُم راہی اختیار کی ھے ، گزشتہ اُمتوں کی اِس تاریخی گُم راہی کی پہلی تاریخی مثال قومِ مُوسٰی کی کتابِ مُوسٰی ھے جو تکوین و خروج ، اَحبار و عدد اور تثنیہ نام کی صرف پانچ سُورتوں کی ایک قانونی کتاب تورات پر مُشتمل تھی اور اُس قوم نے پانچ سُورتوں کی اُس قانونی کتاب پر اپنی حدیث کی درجنوں کتابوں کا اضافہ کر کے عمل کی اُس کتاب کو ناقابلِ عمل بنادیا تھا ، دُوسری تاریخی مثال انجیلِ مسیح کی ھے کہ جس کو اُس قوم نے پہلے اپنے مرضی کے چار راویوں کے ناموں سے موسُوم کر کے اُس کے چار حصے بخرے کیئے تھے اور پھر اُس پر بھی اپنی حدیث کے اضافے کرکے اُس کی تعلیم میں ترمیم کر دی گئی تھی اور اِس گُم راہی کی تیسری تاریخی مثال اِس آخری اُمت کی یہ آخری گُم راہی ھے کہ اِس اُمت نے اللہ تعالٰی کی اِس آخری کتاب پر اپنے اماموں کی بے شمار کُتبِ احادیث کی بے شمار احادیث کے اضافے کرکے اللہ کی اِس کتابِ عظیم کی عظیم اٰیات کو اپنے اماموں کی روایات کی گرد میں گُم کردیا ھے ، قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں دین کے نام پر انسان کو دین سے دُور کرنے والے اِنہی مذہبی قذاقوں کی قذاقی کی تاریخ بیان کی گئی ھے ، سُورَةُالفُرقان جو دینِ اٰیات و دینِ روایات میں فرق قائم کرنے والی ایک سُورت ھے اِس سُورت کی اٰیت 4 میں آنے والا پہلا ماضی کا صیغہِ واحد"قال" اٰیت 5 میں آنے والا دُوسرا ماضی کا صیغہ جمع "قالوا" اٰیت 7 میں آنے والا تیسرا ماضی کا صیغہ جمع "قالوا" اٰیت 18 میں آنے والا چوتھا ماضی کا صیغہ جمع "قالوا" اٰیت 21 میں آنے والا پانچواں ماضی کا صیغہِ واحد "قال" اٰیت 30 میں آنے والا چَھٹا ماضی کا صیغہِ واحد "قال" اور اٰیت 32 میں آنے والا ساتواں ماضی کا صیغہِ واحد "قال" ماضی کے اُنہی سات زمان و مکان کی دُھرائی جانے والی ایک دُھرائی گئی تاریخ ھے جس تاریخ میں ماضی کے جس فرد یا جس جماعت نے قُرآن کے بارے میں جو کُچھ کہا ھے قُرآن نے اُس کو بیان کردیا ھے اور اٰیت 6 اور اٰیت 15 میں اُن لوگوں کو اللہ تعالٰی کے جس نبی نے اللہ تعالٰی کے حُکمِ "قل" کے مطابق جس فرد یا جس جماعت کو جواب دیا ھے وہ جواب بھی اسی سلسلہِ کلام میں درج کر دیا گیا ھے ، قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات کے مطابق انسانی تخلیق اور تدفین کی تاریخ کوئی ساکت و جامد تاریخ نہیں ھے بلکہ ایک ایسی مُتحرک و فَعّال تاریخ ھے جس میں انسان پیدا ہو کر مرتے بھی ہیں اور مرنے کے بعد جلاۓ اور اُٹھاۓ بھی جاتے ہیں ، اُن کے اعمالِ نیک و بَد کا حساب بھی ہوتا رہتا ھے اور اُن کو اپنے اپنے وقت پر اپنے اپنے کیۓ کی جزا و سزا بھی ملتی رہتی ھے لیکن قُرآن کے روایتی دُشمنوں نے قُرآن کی اٰیات کو اپنی ایک وضعی شانِ نزول کے تحت اپنی وضعی تراجمانی و تفہیم دے کر قُرآن کو اِس عالمینی کے مقام سے اُتار کر مکے اور مدینے کے روز مرہ اَیام کی ایک تاریخی ڈائری بنا رکھا ھے اور اِن اٰیاتِ فہم و عمل کے عملی ظہور کو بھی قیامت پر اُٹھا رکھا ھے کیونکہ اِن کے نزدیک ماضی کے یہ تمام صیغے اللہ تعالٰی نے مُستقبل بعید کے ایک نامعلوم زمانے کے لیۓ استعمال کیۓ ہیں ، یہی وجہ ھے کہ اُن کے روایتی ترجموں اور اُن کی روایتی تفسیروں میں قُرآن کا یہ بین الاقوامی اُفق نظر نہیں آتا بلکہ مکے اور مدینے کا ایک مقامی اُفق ہی نظر آتا ھے اِس لیۓ لازم ھے کہ قُرآن کی اٰیاتِ بالا کو قُرآن کے اُسی وسیع پس منظر کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جاۓ جس وسیع پس منظر کے ساتھ قُرآن کی اِن اٰیات کو قُرآن نے خود پیش کیا ھے ، اٰیاتِ بالا کے سلسلہِ کلام میں آنے والی اٰیت 30 کے قُرآنِ مھجُور اور اٰیت 31 کے جُملہِ واحدة کو بھی قُرآن کے اسی وسیع پس منظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیۓ کیونکہ یہی اِس کا تاریخ و تحقیقی اور تصدیقی پس منظر ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457095 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More