کیا لکھوں؟

تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
گزشتہ چند ایک ماہ کے دوران میرے قارئین مسلسل مجھ سے بذریعہ مو بائل فونز ایک سوال پو چھتے آ رہے ہیں کہ کیا آپ نے صحافت جیسے مقدس پیشے جسے آپ ہمیشہ عبادت سمجھ کر ادا کرتے آ رہے ہیں کو خیر باد کہہ دیا ہے چونکہ آپ کی کوئی تحریر جو ملک وقوم کی بقا بالخصوص سفید پوش مظلوم اور بے بس طبقے جو موجودہ معاشرے کے ظلم و بر بریت اور ناانصافیوں کی زد میں آ کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے کی داد رسی کیلئے لکھی ہوئی ہوتی تھیں ہماری نظروں کے سامنے سے نہیں گذری یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بھی اس پر آ شوب معاشرے کی طرح جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر اور انسا نیت کو سہولیات کی سیج پر لٹا کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر نہ صرف اپنے ایمان اور ضمیر کو فروخت کر کے کم ظرف افراد کی صف اول میں آ کھڑا ہوا ہے کی طرح بے حسی کا شکار ہو کر صحافت برائے فروخت کا بورڈ لگا کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہے اپنے معزز قارئین کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں پریشانی کے عالم میں اکثر سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ جس ملک کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے اپنے تن من اور دھن کی قر بانیاں دی تھیں آج اُسی ملک کی پچا نوے پرسنٹ آ بادی جس میں ہر خاص و عام شامل ہیں دولت کی ہوس کے پجاری بن کر ملک وقوم کو دیمک کی طرح چاٹ کر ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی تذلیل کر نے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں لوٹ مار ظلم وستم اور ناانصافیوں کے اُٹھنے والے دھواں سے لاتعداد سفید پوش طبقہ کے افراد کی آ نکھیں اشکبار ہو کر رہ گئی ہیں اس گھناؤ نے معاشرے کے ماحول میں شرم و حیا پیارو محبت عزت و احترام اعتماد بھائی چارے عدل و انصاف کا نام و نشان نہیں ملتا ایسے ناسور معا شرے میں جس میں سچائی کا دامن تھام کر چلنے والے کو اس ملک کے بڑے بڑے ٹھیکیدار جن کا کردار ہی اُن کے خون کی عکاسی کرتا ہے حقیر اور اُن کی تحریروں کو ردی کی ٹو کری میں محض اس لیے پھینک دیں کہ اُن کی کردار کشی منظر عام پر نہ آ جائے کوئی یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے اس گھناؤ نے معاشرے میں نوے پر سنٹ تا جر سیاست دان اعلی افسران علمائے دین ڈاکٹرز اساتذہ میڈیسن فروخت کر نے والے لیبارٹری مالکان وغیرہ وغیرہ ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب اور بے بس افراد کا خون چو س رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک وقوم بے بسی و لا چارگی کی تصویر بن کر خون کے آ نسو رو رہے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے جو آج ہم انسانوں کے روپ میں زندگی گزار رہے ہیں تو یہ سب خداوند کریم کے پیارے محبوب حضور اکرم کی دعاؤں کا اثر ہے ورنہ ہمارا یہ کردار تو سابقہ انبیائے کرام کی اُمت سے کئی گنا بد تر ہے جو اپنے کردار کی وجہ سے ریچھ بن مانس وغیرہ کی شکل اختیار کر گئی تھی تو آج میں اپنے معزز قارئین سے بس ایک سوال کرتا ہوں کہ میں لکھوں تو کیا لکھوں اس غلیظ کم ظرف اور بے ضمیر معاشرے میں جس میں لا تعداد والدین کاغذ کے چند ٹکڑوں کی خاطر اپنی جواں سالہ بہو بیٹیوں کو عصمت فروشی جیسے گھناؤ نے دھندے میں ملوث کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں گلیوں اور محلوں میں فحاشی جیسا مکروہ دھندہ عروج پر پہنچ گیا جہاں پر حوا کی بیٹیوں کی عزتیں سر عام اس ملک کے بااثر معزز بھیڑیے تار تار کرنے میں مصروف عمل ہیں اور تو اور اس ملک کے معزز تاجرز اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر ذ خیرہ اندوزی اور اشیائے خورد نوش کو ذخیرہ کر کے بعد ازاں منہ مانگے داموں فروخت کر کے غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں ڈاکٹرز صاحبان جہنیں کبھی عوام اپنا مسیحا سمجھتے تھے آج مسیحا کے نام پر ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے ہیں وہ بھی صرف دولت کی ہوس کے پجاری بن کر اور تو اور گزشتہ روز میں اپنی فیس بک دیکھ رہا تھا کہ اسی دوران ایک بزرگ روتے ہوئے موجودہ حکومت سے فریاد کر رہا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کو دن رات مزدوری کر کے محض یہ سوچ کر پڑ ھایا کہ ایک دن وہ بڑا آ فیسر بن کر ملک وقوم کے ساتھ ساتھ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گا بالآ خر ہماری انتھک کاوشوں کے نتیجہ میں ہمارا بیٹا سول جج بن کر ملتان میں تعنیات ہو گیا جس کی اطلاع پا کر میری بیوی خو شی خوشی اپنے بیٹے کو ملنے اس کی کو ٹھی پر پہنچی تو میرے بیٹے نے اپنی جھوٹی شان و شوکت کو بحال رکھنے کیلئے اُسے اپنی کوٹھی سے محض اس لیے دھکے مار کر نکال دیا چونکہ اُس نے در میانے درجے کے کپڑے اور جو تے پہنے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں میری بیوی نے دلبر داشتہ ہو کر خود کشی کر لی ہے جبکہ میں دو وقت کی روٹی کی خا طر در بدر کی ٹھو کریں کھا رہا ہوں مذید اُس بزرگ شخص نے روتے ہوئے کہا کہ جو جج بیٹا اپنے بوڑھے والدین کو انصاف مہیا نہیں کر سکا وہ بھلا مظلوم اور بے بس افراد کو انصاف کیسے مہیا کرے گا بالکل یہی کیفیت میرے ملک کے اعلی افسران کی بھی ہے جو ہر ماہ بھاری تنخواہیں پانے کے ساتھ ساتھ اے سی رومز کوٹھیاں بڑی بڑی گاڑیاں پٹرول نو کرز بجلی و گیس اور ادویات کی فری سہولیات پانے کے باوجود لا قانو نیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ دوسری جانب ماتحت عملہ دن رات محنت مزدوری کرنے کے باوجود ان تمام سہولیات سے محروم ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے تو یہاں مجھے ایک ریٹائرڈ ایس پی اسلم خان نیازی کی وہ بات یاد آ گئی آپ اکثر کہتے تھے کہ اگر اعلی افسران رشوت خوری کے نظام کو حرام سمجھے تو ماتحت عملہ کی جرات نہیں کہ وہ رشوت خوری کے نظام کو فروغ دے سکے لہذا جس ضلع میں رشوت خوری کا نظام ہر ادارے میں فروغ پا رہا ہو تو عوام کو یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ اُس ضلع کا حاکم ضمیر فروش ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج بھی اس ملک میں بعض خاندانی آ فیسر ایسے بھی ہیں جو اپنے فرائض و منصبی کو صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کا شمار ملک کے اُن چند ایک ایماندار افسران میں ہوتا ہے جو اپنے فرائض و منصبی کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں جن کا کردار جو نہ صرف ان کے خون کی عکاسی کرتا ہے بلکہ بے ضمیر اعلی افسران کیلئے مثل را ہ ہے تو آج میں یہاں ایک ایسے آ فیسر جو میو نسپل کارپوریشن جھنگ میں بطور چیف آ فیسر تعنیات ہے جس کا نام آ صف قریشی ہے جو لوٹ کھسوٹ ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی اس غلیظ کیچڑ میں بھی کنول کے پھول کی حیثیت رکھتا ہے جو ظلم و بر بریت کی اس اندھیر نگری میں قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی چمک سے میو نسپل کارپوریشن جھنگ جگمگا رہا ہے مذکورہ آ فیسر مظلوم افراد کیلئے سایہ شجر کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ٹاؤٹ مافیا کیلئے ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو میو نسپل کارپوریشن جھنگ کی روز بروز بڑھتی ہوئی آ بادی کے تناسب عملہ صفائی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ آ فیسر دن رات اپنے علاقے کی عوام کو صاف ستھرا ماحول دینے کیلئے کوشاں ہے جس کے اعلی کردار کو دیکھ کر ٹاؤٹ مافیا جھوٹ پر مبنی اور بے بنیاد الزام لگانے میں مصروف عمل ہو کر رہ گیا ہے تو یہاں مجھے ایک بزرگ کی وہ بات یاد آ گئی جو اکثر کہا کرتے تھے کہ اس غلیظ معاشرے می جو آ فیسر اپنے فرائض و منصبی عبادت سمجھ کر ادا کرے گا اُس کے دشمن زیادہ ہونگے اور جو آ فیسر کرپٹ ترین ہو گا اُس کے دوست اور خوشامدی زیادہ ہو نگے بہرحال مذکورہ آ فیسر کو دیکھ کر نہ صرف ٹاؤٹ ما فیا بلکہ کرپٹ ترین عملہ ایسے سہم جاتا ہے جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ آ خر میں بس یہی کہوں گا کہ مذکورہ آ فیسر لوٹ مار کی اس اندھیر نگری میں روشنی کی وہ کرن ہے کہ جسکی روشنی پا کر مظلوم اور بے بس عوام اپنے بنیادی حقوق کی منزل کی طرف رواں دواں ہے

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.