رائیڈر ……

(ثاقب حمید)

ہم اکثر آن لائن کوئی چیز منگواتے ہیں تو رائیڈر وہ چیز ہمیں فراہم کرنے لیے ہم تک پہنچتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے ہم رائیڈر سے فقط اپنی چیز کے لیے انتظار میں ہوتے ہیں، چیز پکڑتے ہیں، رقم کی ادائیگی کرتے ہیں اور اندر آ جاتے ہیں۔ اب ذرا ایک لمحے کے لیے ہم رائیڈر کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور ہم تک کیسے پہنچتا ہے؟ ۔ رائیڈر کو معلوم نہیں ہوتا کہ جہاں پہنچنا ہے وہ میرے قریب ہے یا نہیں۔ اکثر رائیڈر حضرات متعلقہ جگہ سے دور ہوتے ہیں۔ اکثر کو تو کئی میل دور سے آنا ہوتا ہے۔ کئی ادارے رائیڈرز کو مکمل طور پر چیک کرتے ہیں کہ کب وہ آرڈر اٹھانے کے لیے پہنچا، کب اس نے آرڈر کو وصول کیا اور کتنی دیر میں آرڈر پہنچایا گیا۔ میں نے اکثر رائیڈرز کو سڑک پر کھڑے پیٹرول چیک کرتے یا اپنی موٹر سائیکل کو ٹھیک کرواتے دیکھا ہے۔ اکثر کی موٹر سائیکل کی حالت نہایت کمزور دیکھنے میں آئی ہے۔ مثلاً لاہور میں زیادہ رائیڈر فوڈ پانڈہ اور چیتے کے نظر آتے ہیں۔ کبھی گزرتے ہوئے راستے میں ان پر نظر ڈالیے اور ضرور غور کیجئے۔ ہمیں ان کا تاخیر سے آنا برداشت کرنا چاہیے۔ آرڈر کی حالت میں کمی کوتاہی پر رائیڈر کو نہیں کمپنی سے پوچھنا چاہیے۔ میری پچھلے دنوں ایک رائیڈر سے کسی موقع پر ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے الجھ پڑا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی ایسا کیا ہے کہ یہ رائیڈر غصے میں ہے، میں نے اس کی پریشانی کی وجہ جاننے کی کوشش کی ۔ اس نے میرے استفسار پر بتایا کہ میں ایک جگہ دو ہراز کا کھانا لے کر پہنچا تو کسٹمر نے میرے چند منٹ تاخیر سے پہنچنے پر وہ آرڈر منسوخ کر دیا جس سے وہ دو ہزار کا جرمانہ مجھے ادا کرنا پڑا۔ مجھے یہ سن کر تکلیف ہوئی اور رویوں پر ندامت، کہ ایک تو اﷲ کا دیا رزق، اس کے بعد اس رزق کو امانت کے طور پر پہنچانے والا وہ رائیڈر اﷲ کے ہاں اس کا کیا مقام ہوگا۔ رائیڈر امانت دار ہیں، ان کا احترام کیجئے، ان کی تاخیر کو برداشت کر لیجئیے۔ ان سے پانی کا پوچھیے، کھانے کا پوچھیے ہو سکے تو گھر بار کا احوال بھی جان لیجیے۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ میں نے جب بھی کسی رائیڈر سے فقط حال ہی پوچھا وہ بہت خوش ہو کر گیا۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں رائیڈر کا احترام کرنا چاہیے۔ وہ سردی ہو گرمی ہو دن ہو یا رات ہو، ہمیں دوائی منگوانی ہو یا کھانا منگوانا ہو اور یا پھر ڈاک ہو یا پھر سودا وغیرہ یہ سب رائیڈر اپنی امانت سمجھ کر مطلوبہ چیز ہم تک پہنچاتے ہیں۔ رائیڈر کرونا وبا کے دنوں میں بھی اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہم تک پہنچتے ہیں۔ وہ آندھی ہو یا بارش انہیں وقت پر متعلقہ چیز کو پہنچانا ہوتا ہے۔ ان کو بہرصورت احترام دیجئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم ہزار ، دو ہزار کی کوئی شے منگواتے ہیں تو اس ’’عیاشی‘‘ کے عوض اگر سو، پچاس روپے رائیڈر کو بھی دے دیں گے تو ہماری جیب پر بھاری نہیں گزرنا چاہئے ۔ ہمیں خندہ پیشانی سے انہیں اضافی پیسے دینے چاہئیں۔ کیا معلوم ان پیسوں کی اسے کس قدر ضرورت ہو ۔ کیونکہ وہ نام نہاد تنخواہ اور پٹرول کے نام پر ملازم رکھے گئے ہوتے ہیں ۔ان پیسوں سے تو اس کے گھر کا راشن بھی پورا نہیں ہوتا ۔ لہذا یہی سوچ کر رائیڈر کو سو ، دو سو ضرور دے دیا کریں ۔ ممکن ہے ہمارے چند روپے اس کی کوئی ضرورت پوری کرنے کا باعث بنیں ۔

 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 85 Articles with 83158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.