ہمارے گاؤں میں سب سے پرانا قبرستان تھا اسکے
بلکل برابر میں دو منزلہ ایک مکان کافی عرصے سے خالی تھا ، مقامی لوگوں اور
آس پاس رہنے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس مکان میں کسی جن کا
بسیرا ہے جو رات کو پورے مکان میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے جو ایک پیر سے
لنگڑا ہےاور وہ کسی کو بھی اپنے مکان میں برداشت نہیں کرتا۔
جب میں چھوٹا تھا تو اس زمانے میں دادی اکثر منع کرتیں تھیں کہ رات کے وقت
اس مکان کے پاس مت جایا کرو ، اس وقت تو میں بچہ تھا اس لئے مان جاتا تھا
کہ دادی نے منع کیا ہے اور کھیل کود کر مغرب سے پہلے ہی گھر پہنچ جاتا تھا
۔ یہ مکان ہمارے گھر سے بہت قریب تھا ، وقت گزرتا گیا میں نے انٹر کے بعد
ابا کی دکان سنبھال لی ۔
اس مکان کے بکل سامنے والی سڑک پر ہم سب دوست کرکٹ کھیلا کرتے تھے-
اکثر بول اس مکان میں بھی چلی جاتی تھی تو ہم میں سے دو تین لڑکے دیوار کود
کر اندر جاتے اور جنوں کی آوازیں نکاتے اور بول لے آتے۔ ہم سب دوستوں کا یہ
خیال تھا کہ یہ سب صرف بھوت پریت کی باتیں ہیں اور یہاں جن وغیرہ نہیں
ہیں۔یہ سب فرضی باتیں ہیں۔
پھر ایک دن ہم سب دوستوں نے نائٹ میچ کا ارادہ کیا اور میچ رات 11 بجے سے
شروع ہوگا اور تقریباً ڈھائی تین بجے تک ختم ہوگا۔ کھیل شروع ہوئے کافی دیر
ہو چکی تھی ، وقاص بیٹنگ کررہا تھا اور سلمان بولنگ کروا رہا تھا، اچانک
وقاص نے زوردار شوٹ لگایا اور بول سیدھا اس مکان میں جا کر گر گئ۔
"اووو۔۔۔۔۔۔۔وقاص تم نے بول اس بھوت بنگلے میں پھینک دی ، اب کھیل کیسے چلے
گا۔۔۔۔۔۔۔"علی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
" ذوہیب تم جاکر بول لے کر آؤ۔"
احمد نے مشورہ دیا۔
میں نے صاف انکار کردیا۔
" او۔۔۔۔۔۔نہیں بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں جا رہا اس خالی مکان میں، جس نے
بول پھینکی ہے وہ لے کر آئے۔" یہ بُول کر میں ایک طرف کھڑا اس خالی مکان کی
طرف دیکھنے لگا۔
علی نے وقاص کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا:
" جاؤ، وقاص ،تم بول لے کر آؤ، تم نے بھیجی ہے تم ہی لے کر آؤ، ورنہ دیر ہو
جائے گی".
وقاص بیزاری سے بولا:
" کیا میں اکیلے جاؤں گا، اتنا اندھیرا ہے اس مکان میں کچھ تو میرا بھی
خیال کرو"۔
سلیم نے فوراً وقاص کا مذاق اڑانا شروع کردیا:
" وقاص تم یقیناً اس لنگڑے بھوت سے ڈر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔جاو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ڈرپوک"
اتنا کہنا تھا کہ ہم سب دوستوں نے سلیم کی بات سے اتفاق کیا اور وقاص کا
مذاق اڑانے لگے۔
وقاص نے غصے سے بیٹ پھینکا اور بولا:
چلو میں تو ڈرپوک ہوں تم لوگ کون سے شیر ہو، تم میں سے بھی کوئی نہیں جا
رہا"
علی نے وقاص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
"وقی، تم اکیلے نہیں جارہے ، میں تمھارے ساتھ جارہا ہوں".
" اب تم دونوں چلے بھی جاؤ، پہلے بھی بہت وقت برباد ہوچکا ہے۔" میں نے کہا۔
علی اور وقاص تیزی سے اس مکان کی طرف جانے لگے۔
علی پریشانی سے بولا:
" اس گھر کے باہر بھی اتنا اندھیرا ہے،، کہاں ملے گی بول".
وقاص گیٹ سے اندر جھانکتے ہوئے بولا:
" اندر گری تھی بول۔۔۔۔۔۔۔۔موبائل کی ٹارچ جلاؤ".
" موبائل نہیں لایا ہوں" علی نے جواب دیا اور گیٹ سے اندر جھانکا تو بول
نظر آگی۔
" ارے وقاص وہ رہی بول" ۔اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔
" وہ رہی صحن میں کمرے کے دروازے کے سامنے" علی نے کہا۔
وقاص نے بھی جھنکا:
" کہاں؟؟؟؟؟؟"
" ارے وہ رہی۔۔۔۔۔۔چلو اندر چلتے ہیں" علی نے گیٹ پر چھڑتے ہوئے کہا۔
دونوں اندر آگئے وقاص نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا:
"یار علی کیا واقعی میں یہاں لنگڑا جن رہتا ہے؟"
علی نے بال ہاتھ میں اچھلتے ہوئے کہا:
"ارے بھئی تم بھی اب ان فضول باتوں پر یقین کرنے لگے چلو سب انتظار کررہے
ہونگے"
یہ کیے کر علی گیٹ پر چڑنے لگا وقاص بھی چڑھا۔ جب دونوں باہر آئے اور سامنے
کی سڑک پر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔علی وقاص سے بولا:
"یار ۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟ یہ سب کہاں گئے؟"
وقاص نے بھی ہر طرف دیکھا تو سامنے سے فراز بھاگتا ہوا ایا اور دونوں سے
مخاطب ہوا:
"یار علی،وقاص پچھچلی گلی میں جو امجد انکل ہیں نا بیکری والے انکے گھر میں
ڈکتیتی ہوئی ہے، سب اٌدھر ہی گئے ہوئے ہیں میں بھی وہیں جا رہا ہوں، تم
دونوں بھی آجاؤ اور ہاں۔۔۔۔۔۔۔ذوہیب کہہ رہا تھا کہ باقی میچ کل ہوگا". یہ
بول کر فراز تیزی سے بھاگا۔
علی نے جلدی سے اپنی بائیک اسٹاٹ کی اور وقاص سے کہا:
" چلو وقاص ساتھ چلتے ہیں"
وقاص نے ٹائم دیکھنے کیلئے جیسے ہی اپنی کلاھی پر دیکھا تو وہاں گھڑی نہیں
تھی۔
" او۔۔۔۔۔۔۔علی ۔۔۔۔۔۔۔۔میری گھڑی کہیں گر گئی ہے". علی نے جلدی سے کہا۔
" تو اب چلو، چھوڑو گھڑی کو" ۔علی نے بیزاری سے کہا۔
وقاص فکرمندی سے بولا:
" یار ۔۔۔۔۔۔۔وہ میری گھڑی نہیں ہے، پاپا کی گھڑی ہے، وہ کل صبح دفتر جائیں
گے تو وہی گھڑی پہنتے ہیں، وہ بہت مہنگی گھڑی ہے.......... مجھے لگ رہا ہے
کہ وہ اس مکان میں گری ہے ،چلو واپس چل کر ایک بار دیکھ لیتے ہیں"
علی نے بُرا سا منہ بنایا اور کہا:
" تم دو منٹ یہاں رکو، میں بس امجد انکل سے مل کر آتا ہوں، پھر ساتھ چلیں
گے۔۔۔۔۔ بس میں دو منٹ میں آیا"۔
علی نے بائیک اسٹاٹ کی اور چلا گیا۔
وقاص نے سوچا کہ جب تک میں علی کا انتظار کر رہا ہوں ، جب تک میں گھر سے
ٹارچ لے آؤں یا موبائل لے آؤں۔
وقاص گھر پہنچا، سب سو رہے ہیں، سوائے خدیجہ کے، وہ اپنے کمرے میں امتحان
کی تیاری کر رہی تھی، وقاص نے اس کو کمرے کی کھڑی سے آواز دی:
" خدیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں آؤ".
وقاص نے سرگوشی کی۔
خدیجہ جلدی سے باہر آتی ہے اور پوچھتی ہے:
" کیا ہوا بھائی؟؟؟؟ آپ جلدی آگئے؟؟؟؟ کیا میچ ختم ہوگیا ؟؟؟؟"
" ارے وہ امجد انکل کے گھر ڈکیتی ہوئی ہے، میں وہیں جا رہا ہوں بس تم میرا
موبائل لا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی سے".وقاص نے دھیمے لہجے میں کہا۔
" اچھا اچھا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ابھی لائی" ۔ خدیجہ بول کر اندر چلی گی اور
موبائل لے کر واپس آئی۔
" یہ تو بتائیں کہ ڈکیتی کب ہوئی؟ اور کس وقت آئے تھے چور؟؟؟"
خدیجہ نے سوالات پوچھے۔
" یہ وقت سوالات پوچھنے کا نہیں ہے، میں اسی طرف جارہا ہوں، دیر ہو سکتی
ہے، گیٹ بند کرلو۔" وقاص نے کہا۔
اتنا کہ کر وقاص اس خالی مکان کی طرف جانے لگا۔
---+++++------+++++-------++
" اوئے۔۔۔۔۔۔ زوہیب ! " علی دور سے ہی مجھے آواز دیتا ہوا آیا۔
" سن زوہیب۔۔۔۔۔۔۔" علی نے پھر آواز دی۔
میں نے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا:
" کیا ہوا؟؟؟؟ چیخ کیوں رہے ہو؟"
" یار وہ اپنا وقاص اس خالی مکان میں اپنی گھڑی ڈھونڈنے جا رہا ہے، تم زرا
اس کے ساتھ چلے جاؤ".
" اُف، اتنی رات میں اسے کیا پڑی ہے گھڑی تلاش کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا تھوڑی
دیر میں جاتا ہوں۔" میں نے بیزاری سے کہا۔
"کدھر گری تھی"
وقاص اپنے آپ سے بولا۔۔۔
وہ گھر کے صحن میں موبائیل کی ٹارچ سے کاڑ کباڑ کو پیر سے ہٹاہٹا کر دیکھ
رہا ہوتا ہے وہ پھر تھوڑا جھک جاتا ہے اور یکادم اسے گھڑی نظر آ جاتی ہے
"او۔۔یس مل گئی جیسے ہی وہ اٹھ کر پالٹتا ہے تو وہ کسی بھاری سے وجود سے
ٹوکر کھا کر سر کے بل گر جاتا ہے اس کے ہاتھ سے گھڑی اور موبائل دونوں چھوٹ
جاتے ہیں۔
تھوڑا سنھبل کر وہ غور کرتا ہے تو اس کی آنکھیں خوف سے پھیل جاتیں ہیں اور
وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
تقریباً ڈیرھ گھنٹے بعد میں وہاں پہنچتا ہوں اور گیٹ کے باہر سے ہی آواز
لگاتا ہوں:
"کیا تم اندر ہو وقاص۔۔۔؟گھڑی ملی یا۔۔۔۔۔۔میں اندر آؤں۔۔۔!؟"
میں گیٹ سے جھنکتا ہوں تو وقاص مجھے اس صہحن میں کمرے کے دروازے کے قریب
گراہوا نظر آتا ہے میں گھبرا جاتا ہوں اور جلدی سے گیٹ کود کر اندر جاتا
ہوں میں ابھی وقاص کے قریب نہیں چہچا تھا کہ اچانک وقاص آدھا اٹھکر زورزور
سے ہسنے لگتا یےاور بولتا ہے:
"میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔میں یہیں رہوں گا۔۔۔۔۔یہ میرا گھر
ہے۔۔۔۔۔تم جاؤ۔۔۔۔"
پھر اس کی گردن ڈھل جاتی ہے
اور وہ میری طرف دیکھ کر بولتا ہے:
" یار زوہیب! دیکھو مھجے کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔مجھ سے۔۔۔۔۔۔اٹھا نہیں جارہا
ہےیار۔۔۔۔۔۔۔"
میں اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوۓ بولتا ہوں:
"یار وقاص یہ کیسا مزاق ہے۔۔۔؟جلدی سے اٹھومیں جارہا ہوں".
میں کمر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
پھر اچانک سے وقاص گر جاتا، جیسے بےہوش ہوگیا ہو، اور مکان کے اندر جو
اندھیری گلی تھی وہاں سے ایک لنگڑا کتا دوڑتا ہوا میری طرف آتا ہے اور
بہکنے لگتا ہے۔ میں ڈر جاتا ہوں اور بہت پریشان ہوجاتا ہوں، کہ وقاص کو کیا
ہوگیا ہے اور یہ لنگڑا کتا وقاص کے پاس کیوں کھڑا ہے۔مجھے کچھ سمجھ نہیں
ہوتا ہے، میں جلدی سے موبائل نکل کر علی کو کال کرتا ہوں۔
" علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی سے اس خالی مکان میں آجاؤ، جلدی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقاص کی
طبیعت بہت خراب ہے، سب لڑکوں کو بھی لے کر آؤ۔"
فون بند کرکے میں وقاص کو دوبارہ آواز دیتا ہوں۔
" وقاص۔۔۔۔۔۔۔وقاص۔۔۔۔۔۔۔۔ہوش میں آؤ۔۔۔۔۔۔۔وقاص کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔۔۔۔"
وقاص ایکدم اٹھ کر بیٹھ کر ہسنے لگتا ہے پھر زور زور سے رونے لگتا ، وہ
لنگڑا کتا گلی میں واپس چلا جاتا ہے، میں اب سمجھ گیا کہ کیا معاملہ ہے۔
اب مجھے شدت سے دادی کی باتیں یاد آنے لگیں کہ واقعی اس خالی مکان میں کوئی
جن ہے اور وہی جن اب وقاص کے اندر ہے۔۔۔۔۔۔۔اور وہ کتا بھی شاید لنگڑا جن
ہے"
میں گیٹ کے پاس کھڑا علی کا انتظار کررہا تھا، اتنے میں وہ سب اگئے اور ان
کو میں نے ساری باتیں بتائیں۔ جب ہم سب وقاص کو سہارا دے کر اٹھانے لگے تو
اس کا وزن اس قد بھاری تھا کہ ایسا لگا کہ ہماری ٹوٹ جائیں گی اور ہم اس کو
اٹھا نہیں پائیں گے۔
جب ہم سب بڑی مشکل سے اس کو اٹھا کر اس کے گھر پہنچے تو اس کی بہن اسکو
دیکھ کر رونے لگی اور جلدی انکل آنٹی کو اُٹھایا۔ سب بہت پریشان ہوگئے۔ یہ
رات کے کوئی تین ساڑھے تین کا وقت تھا۔ ہم سب خوفزدہ تھے۔ وقاص بلکل بھی
اٹھ نہیں پا رہا تھا۔
پھر اگلی صبح اس کے والدین اسے پہنچے ہوئے بابا کے پاس لے گئے، ان بابا نے
صرف یہ بتایا کہ اس نے کچھ خوفناک یا کوئی پرسرار چیز دیکھی ہے اس لئے یہ
دہشت سے بےہوش ہوگیا ہے، جب ہوش آتا ہے تو اسی وجہ سے اٹھا نہیں جارہا ہے۔
میں اس کے گھر اسکی عیادت کےلئے گیا اور میں نے کہا:
" وقاص تم کو کیا ہوا تھا؟؟؟؟؟ تم نے کیا کوئی جن دیکھا تھا؟؟؟؟ تمھیں کچھ
یاد ہے"؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
" زوہیب ، مجھے کچھ بھی یاد نہیں، بس مجھے ایسا لگا کہ جسے میں کسی بھاری
وجود سے ٹکرا کر گرا ہوں، اور جب میں نے غور کیا تو وہاں کوئی نہیں تھا".
یہ کہ کر اس نے آنکھ بند کرلی اور خاموش ہو کر لیٹ گیا۔
-----++++------+++++------++
انکل آنٹی بہت پریشان تھے کیونکہ وقاص اب اس خالی مکان میں جانے کی ضد کرنے
لگا، اکیلے میں ہسنے لگا اور بات بات پر بلاوجہ غصہ کرنے لگا۔
ایک بار تو حد ہوگی اس نے اپنے کمرے میں رکھی ہر چیز دیوار پر مار مار کر
توڑ دی اور یہی بولتا رہا وہ خالی مکان میرا گھر ہے ، مجھے وہاں جانے دو،
مجھے کیوں تنگ کرنے آئے تھے.
بس وقاص کی اس طرح کی فالتو باتیں اور حرکتیں اب معمول بنتے جارہے تھے۔میں
جتنا تعاون کر سکتا تھا میں نے کیا ، اب میں سمجھ گیا تھا کہ اس پر جن ہے
جس کا ذکر دادی کرتیں تھیں اور اب وقاص کبھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔
پھر اس بات کو کئی دن ہو گئے، ہم سب دوست وقاص کے گھر جاتے ، اس کی خیریت
دریافت کرتے رہتے ۔ مجھے کسی جاننے والے نے ایک بزرگ کے بارے میں بتایا کہ
وہ بہت پڑھے لکھے ہیں، کافی لوگوں کو جنوں بھوتوں سے آزاد کرواچکے ہیں۔ وہ
گاؤں سے دور ویران سے مکان میں اکیلے رہتے ہیں۔ میں نے ان بزرگ کا ذکر وقاص
کے والد سے کیا تو وہ فوراً تیار ہوگے اور اگلے دن ہی وقاص کو ان بزرگ کے
پاس لے گئے۔
ان بزرگ صاحب نے بہت کوشش کی تو جن وقاص کے اندر سے بولنے لگا۔
بزرگ صاحب نے پوچھا:
" تم کون ہو؟؟؟؟ اور اس لڑکے کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟؟؟؟؟"
وقاص کے اندر سے جن زور زور ہستا ہے اور پھر بولتا ہے :
جس وقت میں اپنے مکان میں ٹہل رہاتھا یہ اس وقت میرے مکان میں کیوں کودا
اور وہاں کیا کررہا تھا،
اس نے میرے راستے میں خلل ڈالا ہے، میں بھی اس کو تنگ کروں گا اور اب میں
اس میں ہی رہوں گا".
جن کو نکالنے کا کام ان بزرگ کےلئے مشکل نہیں تھا، انھوں نے وقاص کے والدین
کو اسے دم کرنے کیلئے کچھ سورتیں بتائیں اور چودہ دن تک یہاں لانے کو
کہا۔بزرگ کے حکم پر وقاص کے والدین اس کو بلا تاخیر ان کے پاس لے جاتے تھے۔
دعاؤں اور وظیفوں کی وجہ سے وقاص ٹھیک ہو گیا اور اس لنگڑے جن نے وقاص کا
پیچھا چھوڑ گیا۔ بزرگ نے وقاص کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی تاکید کی اور
ہر با وضو رہنے کو کہا۔ اور ساتھ یہ بھی نصحیت کی کہ ویرانے میں دیوار کود
کر نہیں جایا کریں، ابھی وہ جن مان گیا ہے اور تمھارا پیچھا چھوڑ دیا ہے
مگر اب تم نے اس کا راستہ رکوا تو وہ تمھاری جان لے لے گا".
اس واقعے کے بعد وقاص بھی لنگڑانے لگا تھا، اس کے لنگڑانے کی کوئی وجہ
سامنے نہیں آئی، ڈاکڑز کا بھی یہی کہنا تھا کہ وقاص بلکل ٹھیک ہے، مگر ہمیں
معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کچھ پرسرار معاملہ ہوا ہے۔
وقاص کو محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ لنگڑاتا ہے مگر دیکھنے والے کو صاف نظر
آتا تھا کہ وہ لنگڑا رہا ہے۔ اس کی وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہو سکی۔
وقاص کو بھی یاد نہیں کہ اس نے خالی مکان میں کیا دیکھ کر دہشت سے بےہوش
ہوگیا تھا اور اس لمحے اٹھ نہیں پاہ رہا تھا۔ وقاص کو کچھ یاد نہیں۔یہ
معاملہ ہمیشہ پرسرار ہی رہے گا۔
---+++++-----++++----+++----
میں اپنی تعلیم مکمل کرنے شہر چلا گیا اور پانچ سال بعد گاؤں واپس آیا اور
سب سے پہلے وقاص کے گھر گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وقاص امریکہ شفٹ ہو
گیا ہے۔ انکل نے زمین بیچ کر اس سے انھوں نے پوٹری فارم خرید لیا اور اس سے
کافی مالدار ہوگئے۔اور اچھی زندگی گزرانے کےلئے پوری فمیلی امریکہ چلی گئی۔
میں کافی اداس ہوگیا کیونکہ ہم سب دوست اب بچھڑ گئے تھے پھر مجھے اس خالی
مکان کا خیال آیا جس میں ایک لنگڑا جن رہتا تھا، اس مکان کی سامنے والی سڑک
پر ہم سب دوست کرکٹ کھیلا کرتے تھے ، وہاں پہنچا تو حیران رہ گیا، کیونکہ
وہ خالی مکان ایک خوبصورت مدرسہ بن گیا تھا، مجھے بےحد خوشی ہوئی، چلو اس
بہانے لنگڑے جن سے جان چھوٹی۔ میں مدرسے کے اندر گیا۔ وہاں کے استاتذہ مجھ
سے بہت اچھے سے ملے انھوں نے بتایا کہ یہاں اب کوئی جن نہیں، یہ جگہ اب
مکمل پر امن ہو چکی ہے۔ یہ سب سن کر مجھے بہت اچھا لگا۔
میں مدرسے سے جیسے ہی نکلنے لگا ایک لنگڑا " کتا " تیزی سے مدرسے میں داخل
ہوا، مجھے ایسا لگا کہ کسی کو بھی وہ لنگڑا کتا نظر نہیں آیا مگر میں نے اس
کتے کو دیکھا تھا ، خیر میں نے اس بات کو نظر انداز کردیا مگر دل میں
کھٹھکا ہوا کہ کیہی یہ وہی لنگڑا " جن" تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟؟؟؟
ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
|