جن لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔!

میں اس وقت قبرستان میں ہی تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک میت لائی جا رہی ہے، ان میں ایک لڑکا مسلسل رو رہا تھا، کچھ لوگ اس کو دلاسہ دے رہے تھے، میں نے غور کیا تو جنازے کے ساتھ بہت کم لوگ تھے، وہ سب اب قبر پر مٹی ڈال رہے تھے ، میں بھی دعا میں شامل ہونے کےلئے ان کے پاس چلا گیا۔

" چادر آرام سے ہٹا لو۔۔۔۔۔۔بس ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، اب مٹی ڈالو۔۔۔۔۔۔" ایک آدمی دوسرے سے بولا۔

مٹی ڈالنے کے بعد دعا ہوئی جس میں میں بھی شریک تھا، وہاں لوگوں سے معلوم ہوا کہ کسی مرد کی میت تھی ، ان کا جوان بیٹا بلک بلک کر رو رہا تھا، سب اس کو دلاسہ دے رہے تھے۔

" بیٹا صبر کرو، اللہ کی امانت تھی اس نے لے لی، بس تم دعا کرو کہ اللہ تمہارے ابو کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔" ایک بزرگ نے لڑکے کو سمجھایا۔

پھر کچھ دیر بعد سب لوگ چلے گئے ،وہ لڑکا بھی چلا گیا، مجھے اسی لمحے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آئی کہ جس میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ،
مردے کے ساتھ تین چیزیں ( قبرستان تک) جاتی ہیں، ایک اس کے گھر والے ،اس کا مال اور اس کا عمل، (پھر) دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال لوٹ آتے ہیں اور ایک باقی رہ جاتا ہے اور وہ اس کا عمل ہے۔"

اس حدیث نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ میں استغفار کرتا ہوا چلا گیا۔

-------+++++------+++++-------

دوسرے دن مجھے وہی نوجوان قبر کے پاس بیٹھا نظر آیا، میں تعزیت کے خیال سے اس کے قریب گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ ڈر کر اُچھل گیا۔

" کیا ہوا بیٹا، ڈر گئے؟"
میں نے کہا۔

" نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں انکل۔۔۔۔۔۔وہ اصل میں میں آپ کو جن سمجھا" ۔اس لڑکے نے جواب دیا۔

" قبرستان میں لوگ جن بھوت سے ہی ڈرتے ہیں، اپنے اعمال سے ڈریں تو کتنا اچھا ہو،۔۔۔۔۔۔"
میں اس کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا،
" ویسے بیٹا کہ تو تم صحیح رہے ہو، کچھ لوگ دوسروں کو تنگ کرنے کیلئے جن بھوت بن کر ڈراتے ہیں اور بعض تو ڈرا کر پیسہ بھی کماتے ہیں".
میں نے کہا۔

" جی انکل ، آپ نے بلکل صحیح کہا۔" اس نے کہا

"بیٹا تمھارا نام کیا ہے؟ اور یہ کس کی قبر ہے؟"
میں نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

" جی میرا نام کامران ہے, یہ میرے ابّو کی قبر ہے"
اس لڑکے نے جواب دیا۔

" کامران بیٹا، اللہ آپ کو صبر نصیب فرمائے، مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ایک نہ ایک دن ہم سب نے مرنا ہے، جو اس دنیا میں آیا اس کو مرنا ضرور ہے، ہم سب نے موت کا مزہ چکھنا ہے، اللہ تم کو صبر واستقامت نصیب فرمائے".
میں نے کہا۔

" جی ٹھیک کہا آپ نے ، ہم سب کو اپنی موت یاد رکھنی چاہیے، تاکہ ہم موت سے پہلے پہلے نیک عمل کر سکیں۔"
کامران نے کہا۔

ہم دونوں ساتھ ساتھ قبرستان سے نکلنے لگے تو اس نے پوچھا:

" انکل آپ کا کیا نام ہے؟"

"میرا نام ندیم ہے". میں نے کہا

"انکل آپ کی آواز میرے ابّو سے بہت ملتی ہے".

" ہاں۔۔۔۔۔ہاں بیٹا میں تمھارے والد کی طرح ہوں، تم مجھے اپنا اچھا دوست بھی کہ سکتے ہو"۔
میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

" آپ رہتے کہاں ہیں"؟

" جی قبرستان کے پیچھے" ۔اس نے گردن موڑ کر قبرستان کی طرف دیکھا۔

"اچھا بہت شکریہ ندیم انکل،۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم۔" یہ کہ کر وہ قبرستان سے نکل گیا۔
-----+++++-----+++++-------

آج مجھے بہت سردی زیادہ لگ رہی تھی، میرے ہاتھ سردی سے جم رہے تھے ،میں تیز تیز چلتا ہوا گھر کی جانب جا رہا تھا، تیز چلنے کی وجہ سے میرا سانس پھول رہا تھا، اچانک مجھے اپنے پیچھے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی، میں ایک طرف ہوگیا تاکہ گاڑی گز جائے مگر جب مسلسل ہارن ہوا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا، وہی قبرستان والا نوجوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا نام تھا اس کا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہاں۔۔۔۔۔۔۔کامران۔۔۔۔۔وہ میرے پیچھے کھڑا تھا، میں نے اپنا وہم سمجھا مگر جب غور کیا تو وہ واقعے کامران تھا۔

" انکل، آپ اتنی صبح ، اتنی سردی میں کہاں جا رہے ہیں؟"
اس نے ایک ساتھ بہت سارے سوالات کر دیئے۔

" میں واک کرنے نکلا تھا، میری عادت ہے، بس اب گھر ہی جا رہا ہوں"۔

" انکل آئیں ، میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں".

" ارے۔۔۔۔۔۔نہیں بہئ، میں خود چلا جاؤں گا، تم بلاوجہ تکلیف کر رہے ہو۔
میں نے کہا۔

انکل اس میں تکلیف کیسی، گاڑی سے ہی تو جانا ہے، پلیز آئیں، میں آپ کو چھوڑ دوں، آج بہت سردی ہے".
اس نے اپنے ہاتھ آپس میں ملتے ہوئے کہا۔

میں اس کی گاڑی میں آگے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ میرے برابر میں آکر بیٹھا۔ گاڑی اندر سے گرم تھی یا مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا، مگر اب میری حالت پہلے سے بہت بہتر تھی، اس نے گاڑی کا ہیٹر چلایا تو میری طبیعت اچھی ہوئی، ورنہ باہر تو میرے ہاتھ جم رہے تھے۔

ہم دونوں کے درمیان اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتیں رہیں مگر میں نے اس میں ایک عجیب بات محسوس کی ، اس کی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں، سرخ لال۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے عجیب سا خوف لگا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے یہ لڑکا رات دیر سے سوتا ہو اس لئے اس کی انکھیں اتنی لال ہو رہیں ہیں۔ مجھے اس کی آنکھوں سے ڈر لگا، پتہ نہیں کیوں۔ خیر میں ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ کامران نے پوچھا:

" انکل ، میری انکھیں کیا بہت زیادہ سرخ ہو رہیں ہیں".
اس نے میری طرف گردن گھما کر سوال کیا۔ کچھ دیر کےلئے میں بوکھل گیا ، میں نے جلدی سے اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے کہا:

" ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا۔۔۔۔۔تمھاری آنکھیں تو بہت لال ہو رہیں ہیں، کیوں کیا رات دیر سے سوئے تھے؟؟؟"

" نہیں انکل، میں تو ہمیشہ وقت پر ہی سوتا ہوں، بس کل ابو کو یاد کرکے بہت رویا تھا، پھر آنکھوں میں انفکشن بھی ہو رہا ہے".
میں نے اس پر اپنی کیفیت ظاہر نہیں ہونے دی مگر مجھے اس کا جواب کچھ عجیب سا لگا ، اس نے مجھ سے گھر کا ایڈریس پوچھا ، میں نے کہا:

" تم بس مجھے اکرم بیکری کے سامنے چھوڑ دو، آگے گلی کے اندر میں خود چلا جاؤں گا"


" جی ٹھیک ہے، جیسے آپ کی مرضی".

پھر اُس نے اچانک گاڑی کے داراز سے کوئی کیسٹ نکالی اور گاڑی کے ٹیب میں لگادی ۔ قرآن کی تلاوت چل پڑی ۔

" میں قرآن سن کر اپنی روح کو سکون پہنچاتا ہوں، مجھے اپنی موت بھی یاد رہتی ہے".
کامران نے کہا

میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پوری توجہ سے قرآن سننے لگا۔ بے شک قرآن سن کر بہت سکون ملتا ہے۔
مگر اچانک میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے جب میں نے یہ سنا

" کہ الے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے".

کامران بھی بہت غور سے تلاوت سن رہا تھا، مجھے اس سے خوف محسوس ہوا کہ کہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تلاوت ختم ہوئی تو میں نے کامران سے سوال کیا:

" کامران کیا تم جنوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہو؟"

اُس نے بہوئیں اُچکائیں اور اپنی سرخ آنکھوں کو مزید کھولتے ہوئے کہا، اس کی آواز بھی کچھ عجیب سی لگی۔

" میں جنوں بھوتوں پر یقین رکھتا ہوں، بلکہ میں تو پکا یقین رکھتا ہوں کیونکہ قرآن میں جنوں کا ذکر آیا ہے اور پھر یہ بھی اللہ کی ایک مخلوق ہیں"........مگر انکل ، آپ یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہےہیں؟" اس نے گردن گھما کر مجھ سے سوال کیا۔

ڈر کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میری آواز نہیں نکل رہی تھی، میں نے سنبھلتے ہوئے کہا:

" می۔۔۔۔۔۔می۔۔۔۔۔۔۔میں بس یوں ہی پوچھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کل کے نوجوان جنوں پر یقین نہیں رکھتے، میں نے سوچا تم سے بھی پوچھ لوں کہ کہیں تم بھی ان میں شامل نہیں ہو".

"اس نے پھر میری طرف گردن گھمائی اور ہستے ہوئے بولا:

" ہاہاہا نہیں انکل میں ان میں سے نہیں ہوں، مجھے جنوں پر سو فیصد یقین ہے اور یقین کیوں نا ہو، آخر وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں".

اُس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی، گاڑی اکرم بیکری کے سامنے رکی تو میں اس کا شکریہ کرکے اُتر گیا۔ اب میرے قدم گھر کی طرف تھے کہ میں نے اس کی گاڑی کو پھر قبرستان کے سامنے رُکتے دیکھا ، اب وہ قبرستان کے اندر جا رہا تھا، میں پریشان ہوگیا کہ یہ پھر قبرستان میں کیوں جارہا ہے؟؟؟؟ اس کا کیا کام قبرستان میں؟؟؟؟؟ یہ تو قبرستان کے پیچھے رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر یہاں کیوں بار بار آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک میں نے ڈر محسوس کیا۔

-----+++++-------++++------++
میں مارکیٹ سے نکلا، تھوڑی دیر سستانے کےلئے قریبی پارک میں چلا گیا اچانک مجھے اپنے پیچھے کسی کے تیز تیز چلنے کی آواز آئی میں نے جوں ہی مڑ کر دیکھا میں حیران رہ گیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ کامران تھا۔ وہ جاگنگ کر رہا تھا، مجھے دیکھتے ہی میرے قریب چلا آیا۔

" اسلام علیکم ، انکل، کیسے ہیں آپ؟"

مجھے کامران عام نوجوانوں سے کچھ الگ لگنے لگا تھا، وہ ہر جمعے قبرستان آتا ہے، کبھی کہیں کبھی کہیں مجھے نظر آجاتا ہے، پتہ نہیں کیوں میں انسانوں سے اتنا ڈرتا ہوں۔

" میں مارکیٹ گیا تھا ، سوچا تھوڑی دیر پارک میں بیٹھ جاؤں، تم یہاں کیسے؟"
میں نے پوچھا

" کیوں انکل کیا میں اس وقت پارک میں نہیں آسکتا؟؟؟؟؟ کیا میں جن ہوں؟؟؟؟؟"
اس نے عجیب سے لہجے میں کہا

جن کا نام سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگے کہ آخر کامران نے یہ بات کیوں کی؟؟؟؟؟ کیا کہیں یہ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے سنبھل کر جواب دیا۔

" جنوں کو پارک میں آنے کون روک سکتا ہے، وہ اپنی مرضی آتے ہیں اپنی مرضی سے جاتے ہیں۔"
میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا:

" کیا جنات انسانی شکل میں آسکتے ہیں؟؟؟؟؟"
پتہ نہیں کیوں یہ سوال میرے منہ سے نکل گیا۔

کامران نے پر زور آواز میں کہا:

" جی جی انکل، جنات انسانی شکل میں آرام سے آسکتے ہیں، وہ ہمارے درمیان گھومتے پھرتے ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ اصل میں انسانی جسم میں ایک جن ہے" ۔

اس کا جواب سُن کر مجھے تقریباً چکر آگیا، اور میں خوف سے لڑکھڑا گیا کہ کہیں یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" کیا ہوا انکل ، آپ ٹھیک تو ہیں؟" کامران نے مجھ سے پوچھا


" آ۔۔۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔۔۔ہاں بیٹا ، میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بلکل ٹھیک ہوں، بس کبھی کبھی چکر آجاتا ہے"
میں نے بات بنائی۔

" میں سمجھا آپ جنات کا ذکر سن کر ڈر گئے۔" کامران نے کہا

" نہیں میں ڈرا نہیں ہوں، بس یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کافی معلومات رکھتے ہو جنات کے بارے میں، کافی تجسس ہے تمھارے اندر جنات سے متعلق".
میں نے اپنا ڈر ظاہر کیا۔

" ہاہاہا، انکل جنات میں مجھے بہت تجسس ہے" ۔
وہ میری طرف گردن گھما کر بولا:
" اور جنات میں مجھے تجسس کیوں نا ہو، آخر وہ بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں".

میں نے الجھن محسوس کی اور واپسی کےلئے اٹھ گیا تو کامران نے مجھ سے کہا:

" انکل، کبھی آئیں میرے گھر، مل کر چائے پیتے ہیں ، کیا خیال ہے، اس اتوار کی شام یہی پارک میں چائے پیتے ہیں".

اس نے مجھ سے سوال کیا، مگر مجھے ڈر محسوس ہوا، پتہ نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔ جنات میں کامران کی غیر معمولی دلچسپی میرے لئے خوفناک بات تھی۔ میں انکار کرنا چاہ رہا تھا مگر اس نے خود ہی بات مکمل کرلی۔

" انکل بس ٹھیک ہے، اتوار کی شام ہم دونوں اسی پارک میں چائے پیئں گے، شام میں کھلی فضا میں چائے کا اپنا ہی مزا ہے"

وہ بات کرکے پارک سے نکل گیا مگر مجھے سوچوں میں گم چھوڑ گیا۔

-----+++++------++++-----+++


اتوار کو میں اور کامران پارک میں چائے پیتے ہوئے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے، پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے پارک سے نکل گئے ،اچانک ایک کالا کتا کہیں سے آیا اور ہم دونوں کو دیکھ کر بُری طرح بھوکنے لگا، وہ اتنی زور زور سے بھوک رہا تھا جیسے کسی خوفناک مخلوق کو دیکھ کر ڈر رہا ہو، ویسے کتے کی حس بہت تیز ہوتی ہے میں نے ڈر محسوس کیا، کامران بلکل مطمئن نظر آیا، میں نے کامران سے پوچھا:

" یہ کتا کس سے ڈر کر اتنا بھوک رہا ہے، یہاں سڑک پر ہم دونوں کے سوا کوئی بھی نہیں، پھر یہ کیوں ڈر رہا ہے؟؟"


" کتا جب کسی جن کو دیکھتا ہے تو بھوکتا ہے، کتے کو شیطان وغیرہ بھی نظر آتے ہیں"
کامران نے پرسرار انداز میں کہا۔

جنات کا ذکر سُن کر مجھے جھٹکا لگا کہ آخر یہ کیوں بار بار جنات کا ذکر کرتا رہتا ہے، اس کا بھلا جنات سے کیا تعلق؟؟؟؟

خیر کتا بھوکتا ہوا چلا گیا۔ ہم دونوں بھی اپنے اپنے گھرچلے گئے۔ مگر میں اب کامران سے بہت محتاط ہوگیا تھا ، پتہ نہیں کیوں؟؟؟؟؟؟

------+++++------+++++-------

آج جمعہ کو کامران صبح سے اپنے والد کی قبر پر بیٹھا دعاؤں میں مصروف ہے، میں نے درخت پر سے اُسے دیکھا، سوچا وہی سے اس کو سلام کروں، حال احوال پوچھوں مگر یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ اگر اس نے مجھے یوں درخت پر بیٹھا دیکھ لیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ڈر جائے کیونکہ میں تو اکرم بیکری کے سامنے والے قبرستان کے ایک درخت پر رہتا ہوں، کامران کو نہیں معلوم کہ میں ایک " جن " ہوں، آپ بھی خاموش رہے گا۔

---++++----++++----++++-----

پلوشہ نیلم

ختم شد
 

Palvisha Neelam
About the Author: Palvisha Neelam Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.