سلطان محمود شاہین
قرآن حکیم میں اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے۔
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
اور میں نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
اﷲ تعالٰی نے اس آیت کریمہ میں زیست انسانی کا حقیقی مقصد بتا دیاہے۔اب
عبادت کے دائرہ کار میں انسانی زندگی کے تمام امور شامل ہیں یعنی انسان
اپنے خالق کے ہر حکم کو بجا لا کر عبد کامل بنے۔ اور اپنی جان، مال اور وقت
اﷲ تعالٰی کی بندگی میں صرف کرے ۔اور کسی صورت بھی شیطان لعین کا آلہء کار
نہ بنے۔ ورنہ وہ عبد رحمٰن کی بجائے عبد شیطان بن جائے گا۔ خود کو سیدھے
راستے پر لانے اور اﷲ کا صحیح بندہ بننے کے لیے انسان کو خالق کل کائنات کے
بنائے اور بتائے ہوئے زندگی کے لائحہ عمل پر چلنا ہوگا۔
مری نوائے شوق سے رحمت بے انتہا کردے۔
بھٹکے ہوئے مسافر کو ساحل آشنا کردے۔
مال و زر کی حرص و ہوس اور جاہ و منصب کے حصول کے لئے انسان چوبیس گھنٹے
میں نہ جانے کتنے رنگ و روپ بدلتا ہے اور عالم انسانیت کو دھوکہ فریب میں
مبتلا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کا چہرہ مسخ کرتا ہے ۔جبکہ
حقیقت میں وہ خود اپنی کارستانیوں اور مکاریوں کے سبب صداقتوں کی منزل تک
پہنچنے میں فاصلے بڑھا رہا ہوتا ہے۔ وہ سراب کی مصنوئی ضیاء ناپائیدار کو
آب حیات سمجھ کر اسے پانے کی دوڑ میں ہلکان ہوتا رہتا ہے اور بزعم خود دنیا
کا بہت بڑا مدبر، سیاست دان ، دانشور، عالم ، فاضل ، ہوشیار اور چالاک بنے
والا شخص ایک پرکشش زندگی پانے کی جدوجہد میں تھک ہار کر خالی ہاتھ راہی
ملک عدم ہوجاتا ہے پھر اس کے وارثین اس شکست خوردہ مرحوم کو دنیا کا بڑا
ہیرو اور پیشوا بنا کر بڑے کروفر اور فخر سے نامرادی کی اس شاہراہ پر گامزن
سفر ہوجاتے ہیں جسے وہ ورثے کے طور پر چھوڑ جاتا ہے۔ اور آخر کار یہ وارثین
بھی ذلت و رسوائی اور عذاب مسلسل کی گھاٹیوں کے مستقل مکیں بن جاتے ہیں ۔
اب ایسے انسان کو حق الیقین کی منزل کا پتہ نشان کون بتائے جبکہ وہ اپنے
علاوہ دوسرے ہر شخص کو خود سے بڑھ کر اہمیت دینا تو کجا اپنے برابر بھی
سمجھنا اپنی توہین سمجھتا ہو۔ اور انسانوں کے جم غفیر کو حقیر اور اپنے
غلام سے زیادہ کچھ بھی تصور کرنے کی سوچ سے عاری ہو۔
انسانیت کے خون سے اپنا میک اپ کر لینے اور خود کو سب سے خوبصورت ، دانا و
بینا سمجھنے کی خود فریبی میں مبتلا ہونے سے زندگی کا چین و سکون کبھی نہیں
ملتا۔ انسانیت کی موت اور کیا ہوتی ہے۔ روح کا جسم سے علیحدہ ہو جانا
انسانیت کی موت ہرگز نہیں ہے بلکہ ضمیر کا مردہ ہوجانا زندگی کے شعور سے
نابلد ہونے اور ناکامی کے سنگریزے سمیٹنے کی روشن علامت ہے۔ جب معاشرے کا
بیشتر حصہ مردہ ضمیری کا پیرہن پہن لے تو ایسے معاشرے میں رہبری و رہنمائی
کا عنصر مفقود بلکہ ناپید ہوجانے کی وجہ سے ظالم، جابر، مکاراور خود غرض
ناسور ہی ہیرو اور مخدوم کا بہروپ اپنا کر قوم پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان کی
سیاہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں کی بدولت قوم دنیا میں تو عذاب جھیلتی ہی ہے
لیکن یہ مصنوئی اور بناوٹی ہیرو بھی ساری قوم سے دھوکے اور فریب کا ثمر
پاکر ہمیشہ کے لئے عالم آخرت کی آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
جب یہ جان کسی خطاط زیست کے نوک قلم سے جان جگر سوز کا روپ اپناتی ہے تو اس
بتکدہ صفات میں ایک ارتعاش پیداہو جاتا ہے جس سے اندرون ذات چار سُو جگنو
جگمگاتے نظر آتے ہیں تب انسان روحانی لذت و سرُور کی معراج میں گم ہو کر
خود سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ تشبیہات و استعارات کا جہان ناپائیدار
ہے لہٰذا یہاں مصنوئی جواز جنوں بھی بتدریج قبولیت کے درجے کو پہنچ جاتے
ہیں اس لئے نہ صرف انہیں تسلیم کرنا دانشمندی ہے بلکہ مقدور بھر ان کی
حوصلہ افزائی اور حمایت کرنا اپنے لئے تعین منزل اور ادراک حقیقت کا پیش
خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر کسی نفس عجلت شعار میں مادہء تحمل و برداشت مفقود
یا کم تر درجے میں پایا جائے تو اسے کبھی اُمید کامرانی کا دامن نہیں
تھامنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ راہ عدم برداشت فطرت شیطان ہے جبکہ خالق کون و
مکاں کی معیت و مدد صرف صابرین و شاکرین اور پُر امید بندوں کے ساتھ ہے۔
کسی انسان کے احاطہ ء علم یا وہم و گمان میں بھی نہیں کہ لمحہء استقبال میں
اس عالم آب و گل میں کیا ظہور پذیر ہونے جارہا ہے کوئی بھی انتہائی اہم اور
ناقابل فراموش واقعہ رُونما ہوسکتا ہے جس کے ذریعہ پس منظر سے کوئی نیا
منظر اُجاگر ہوجائے ۔ اور وجود آدم خاکی مفقود و معدوم ہوکر کسی نئے پیکر
تخلیق کا عکس پیش کرنے لگ جائے ۔ حریم ذات سے یہ بندہء خاکی تین چیزیں جان،
مال اور وقت ایک محدود مدت کے لئے امانتاً دے کر عالم ارواح سے عالم ہستی
میں اُتارا گیا۔ اور اس کے سوچ و شعور میں یہ پیغام صدق پختہ کر دیا گیا کہ
تُو یہاں پر غیرمستقل اور ایک مسافر کی طرح ہے۔ اور یہ تینوں چیزیں
(امانتیں) ایک وقت مقرر پر تجھ سے واپس لے لی جائیں گی۔ ان تینوں چیزوں کے
درست استعمال سے یا تو یہ آدم خاکی ذات باری تعالیٰ کا منظور نظر بن کر
مقامات بلند پر متمکن ہوجائے گا اور یہ تینوں چیزیں جان ، مال ، وقت اسے
تحفہ میں دے دی جائیں گی یا پھر یہ اپنے نفس اور شیطان لعین کی پیروی کرکے
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راندہء درگاہ ہوجائے گا۔ تب اس کے جان، مال ، وقت ایک
مستقل عذاب اور جہنم کی صورت اختیار کرکے اس پر مسلط ہو جائیں گے۔ اور یہ
بندہء مردُود اپنے لئے کوئی جائے پناہ نہ پائے گا۔ روز اول سے یہ امر حقیقت
پایہء ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ حکم محکم پر سر تسلیم خم کرنے سے ہی بارگاہ
رب العزت میں شرف قبولیت اور انعام و اکرام کا حق دار قرار پائے گاجبکہ حکم
عدولی سے عز وشرف سے محرومی لازم ہے۔ حالات و واقعات اور لمحہ بہ لمحہ
تجربات و مشاہدات کے باوجود یہ نفس ناہنجار حلقہء ارادت پروردگار سے آزاد
ہونے کی بودی تاویلیں اور ناپختہ سبیلیں بنانے کی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف
ہے۔ خود تو نار جہنم کی راہ پر رواں ہوکر اپنے عبرت ناک انجام سے بیگانہ ہو
چکا ہے اپنے ساتھ دیگر انسانیت کو بھی ایک عذاب عظیم کی اذیت سے دوچار کر
رکھا ہے۔ طاقت اور غرور کے نشے میں اپنے سے کمزور پر ظلم کرنا، اس کے حقوق
غصب کر لینا، اسے بدامنی میں مبتلا کرنا، اس کے مال اور عزت و آبرو کو لوٹ
لینا، اس کی جان کا دشمن بن جانا، عدل و انصاف کو ناحق اپنے حق میں خرید
لینا،مظلوم کا جینا دوبھر کر دینا، چالاکی ، مکاری، دھوکے اور فریب سے
شرافت کا لبادہ اوڑھ کر خود کو دوسروں کا مصلح اور رہبرو رہنما ظاہر
کرنااور حق و صداقت سے چشم پوشی یہ سب مالک کل کائنات سے بغاوت اور
نافرمانی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔
کیا ایک سچی توبہ کے علاوہ کوئی راستہ ہو سکتا ہے جس سے انسانی شکل و صورت
کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک خونی بھیڑیا اپنی عقل و خرد میں واپس لوٹ آئے اور
اوصاف انسانی کا حامل بن جائے۔ جب انسان کو عقل و حکمت ملتی ہے تو پھر وہ
اپنی جان، مال اور وقت کو اﷲ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر مخلوق کی بھلائی اور
انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ جب یہ خود خادم بن کر دوسرے
انسانوں کی خدمت اور بھلائی کے کام کرتا ہے تو پھر ایک دن یہ خود مخدوم بن
جاتا ہے پھر نہ صرف اس کی خدمت کی جاتی ہے بلکہ عالم آخرت کی ہر کامیابی اس
قدموں میں ڈال دی جاتی ہے۔ لیکن قربانی کے جذبے کی عدم دستیابی کی صورت میں
یہ سب کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے دو چیزوں کا
درست استعمال ضروری ہے وہ اس کی نیت یعنی ارادہ اور دوسری اس کی زبان و
گفتار یعنی دوسروں کے ساتھ اس رویہ یاحسن سلوک ہے اگر یہ دونوں صفات ٹھیک
ہوجائیں تو اس کی زندگی کے تمام رُخ کامیابی کی سمت اختیار کر لیتے ہیں
ورنہ یہ شخص اپنی تمام تر چا لاکیوں اور مکروفریب کے باوجود مستقل سُرخروئی
کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنی نیت اور زبان کو ٹھیک کرنے کے لئے نہ تو
انسان کا مال خرچ ہوتا ہے نہ اعضاء و جوارح مشقت میں ڈالنے ہوتے ہیں اور نہ
ہی اس کے لئے کسی مخصوص وقت، جگہ یا پلیٹ فارم کی ضرورت ہے بس ابھی سے اپنی
نیت اور ارادے کے ساتھ اپنی زبان درست کر لیں اور کامیابی کی راہ پر گامز ن
ہوجائیں ۔ اب یہاں بات آتی ہے مصنوئی جواز جنوں کی کہ وہ کیسے پیش خیمہء
کامیابی و کامرانی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں نکتہء دانائی اور سر نہاں یہی
ہے کہ عالم کن فیکوں میں سرفرازی کا سفر مجاز سے شروع ہو کر آخر کار حقیقت
پر پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے انسان محبت ، امن اور دوستی کے راستے پر چلنے کی
نیت کرتا ہے۔ پھر اس پر متواتر چلتے رہنے سے یہ اس کی عادت بن جاتے ہیں اور
عادت بتدریج عبادت کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے جو اس کے ناقص کو خالص اور
مجاز کو حقیقت کا رنگ دے دیتی ہے۔ اس سے انسان اعلیٰ علیین کے مقام پر
متمکن ہو جاتا ہے جو اس کے راحت و آرام اور ابدی سکون کا پیش خیمہ ہے۔
چونکہ یہ مقام اصل میں مقام تسلیم و رضا ہے جو مطلوب و مقصود آدم خاکی ہے۔
اس لئے مرحلہ وار ذات انسان علم الیقین سے معرفت الہٰی اور عین الیقین کے
ذریعہ مناظر باطن کے حیران کُن معائنے کے بعد حق الیقین کی منزل پر پہنچتی
ہے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ حاضر و موجود کی ناپائیداری اور عدم ابدیت میں گم
ہونے کی بجائے اپنی سوچ و شعور اور علم و آگہی کے ذریعہ عملی طور پر مقام
تسلیم و رضا کے حصول کا راستہ اپنائے۔جس کا مطلب ہے کہ ایک تُس بھر بھی
احساس نہیں ہونا چاہیے کہ انسان اس جہان بے ثبات کی ظاہری چکاچوند اور
عارضی رنگوں، روشنیوں کا شکار ہوچکاہے۔ ایک انسان کی عزت و عظمت اس تمام
ارض و سماء سے زیادہ قیمتی ہے اس لئے فانی مال و دولت اور وسائل کے عوض نہ
تو انسان کی عزت و آبرُو کا قتل عام قابل قبول ہے اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کو
یہ منظور ہے کہ انسان اس فانی عالم آب و گل کا اسیر ہو کر اپنے مقام آخرت
کا زیاں کر بیٹھے۔ پھر کیوں نہ اپنے جان، مال اور وقت کو حکم باری تعالیٰ
کی روشنی میں انسانیت کی بقاء ، بھلائی اور سرفرازی کے لئے استعمال کیا
جائے۔ تاکہ درازیء کار جہاں کے پس پردہ عوامل اور ان کی حکمت و معرفت
انسانی قلوب و اذہان کو ضو فشاں کردے۔ جب انسان تمام وسائل اور طاقت کے
ہوتے ہوئے اپنے اختیار سے سر تسلیم خم کرتا ہے تو علم، حکمت، معرفت، روشنی،
نور، طاقت اور قدرت کی چین (chain) پس منظر سے پیش منظر پر اپنی واردات
شروع کر دیتی ہے۔ بس یہی وہ نکتہ آغاز ہے جہاں سے انسانی زندگی قفس بے
قراری سے آزادی حاصل کرکے نفس مطمئنہ کے حفاظتی حصار میں اپنا سفر شروع
کرتی ہے۔ اور آخر کار مقام عبودیت پر براجمان ہو جاتی ہے۔
|