لاہور سے اسلام آباد کا سینکڑوں کلو میٹرز پر محیط طویل
سفر کرنے کے بعد ہم لوگ اسلام آباد شہر کو کراس کرتے ہوئے آخر کار اُس سڑک
پر آگئے تھے جس کے اختتام پر میرا مرشد خانہ جو صدیوں سے اپنی باہیں
پھیلائے سسکتے سلگتے تڑپتے دکھوں کے مارے لوگوں کی خدمت میں شب و روز معرفت
کا نور بانٹ رہا ہے میں مشتِ خاکستر سیاہ کار بھی جیسے ہی کوچہ مرشد کی سڑک
پر آیا تو شدت جذبات عقیدت احترام سے میرا بے قرار تڑپتا پیا سا دل سینے کے
پنجرے سے باہر آنے کو تیز تیز دھڑکنے لگا ‘صبح سے جب سے میں لج پال سخی
مرشد سرکار ؒ کی طرف روانہ ہوا تھا ہر دھڑکن میرے لج پال میرے لج پال کی
صدا دے رہی تھی میری رگوں میں خون کی جگہ کوئی نشیلا سیال مادہ تھا جو اپنے
محبوب سے ملاپ کی خوشی میں محو رقص تھا جیسے ہی میں مرشد خانے والی سڑک پر
آیا تو میرے جسم کا انگ انگ دھمالی کیفیت میں ملاپ کی خوشی سے جھومنے لگا
کہ کرونا کی وجہ سے جب وطن عزیز کے مزارات کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا
تو میں بھی کوچہ مرشد کے دیدار سے محروم تھا اب جب حالات نارمل ہوئے کرونا
کی سختیاں کم ہوئیں مزارات کو زائرین عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا گیا تو
میں بھی بقرہ عید کے فوری بعد اپنے لج پال امام بری سرکارؒ کے کوچے کی خاک
کو بوسہ دینے دھندلی پیاسی آنکھوں کی پیاس بجھانے اُن کو روشن کرنے مرشد
خانے کی طرف روانہ سفر ہوا طویل مدت کے بعد جب سڑک پر دیوانوں پروانوں
عقیدت مندوں کو ٹولیوں کی شکل میں مزار اقدس کی طرف جاتے دیکھا جو آنکھوں
میں عقیدت کے دیپ اور چہروں پر پیار کے پھول کھلائے پر جوش انداز میں مزار
پر انوار کی طرف بڑھ رہے تھے بے پناہ رش کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ عقیدت
مندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا انہیں جیسے ہی اطلا ع ملی کہ مرشد
خانہ کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا ہے تو اپنی عید کی خوشیوں کو دوبالہ
کرنے دیوانہ وار مرشد خانے کی طرف دوڑ پڑے تھے اتنا زیادہ رش بہت سالوں کے
بعد نظر آرہا تھا شہنشاہ کو ہسار کا فیض ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح کناروں
سے اچھل رہا تھا دیوانے اپنی پیاس بجھانے ٹوٹ پڑے تھے دہشت گردی اور کرونا
کی پابندیوں کی وجہ سے بہت سالوں بعد پروانوں کا ہجوم بپھرے ہوئے دریا کی
طرح لہروں کی شکل میں مزار کی طرف بڑھ رہا تھا اتنا زیادہ رش دیکھ کر مجھے
بیس سال پہلے کا رش یاد آگیا جب شہنشاہ کوہسار ؒ کا سالانہ عرس مبارک منعقد
ہو تا تھا وطن عزیز بلکہ دنیا بھر سے لج پاک عبدالطیف کاظمی مشہدی المعروف
امام بری سرکار ؒ کے عقیدت مند عرس مبارک میں عقیدت و احترام سے حاضر ہوتے
تھے میں بھی کوہ مری سے ننگے پاؤں شہشناہ کے قدموں میں غلاموں کی طرح حاضر
ہو تا تھا میں اور ناصر کشمیری مرحوم فیض آباد اُترتے تو سائیں عارف فقیر
سلطان بابا مراد اور دوسرے ساتھی انتظار میں ہوتے پھر ہمارا یہ مختصر سا
قافلہ شوق ننگے پاؤں ہاتھوں میں پھولوں کے ہار خوبصورت ریشمی تاروں کی
چادریں لیے پید ل شہنشاہ سرکار ؒ کی طرف چلتے راستے میں دیوانے بری سرکار
کے نعرے شگاف انداز میں لگاتے پھر یہ قافلہ شوق لج پال کے نعرے مارتا مارتا
دربار اقدس کے قریب انسانوں کے سمندر سے ہو تا ہوا شہنشاہ کے قدموں میں جا
کر نذارنہ عقیدت پیش کر تے جہاں پر شہنشاہ کو ہسارؒ پہلے سے ہی پھول اوڑھے
آسودہ خاک ہو تے ۔جا کر ہم بھی چادر وں کے بعد پھولوں کی بارش کر دیتے اگر
بتیاں روشن کر تے چراغ روشن کرتے ہر طرف پھولوں اگر بتیوں کی خوشبو ہو تی
پھر کسی کونے میں بیٹھ کر سرکار ؒ کے مزار اقدس کو گھنٹوں دیکھتے رہنا انگ
انگ سے خوشی سرشاری پھوٹتی مرشد خانے پر بیٹھ کر لگتا جیسے ہزاروں ڈرم
پاکیزہ شراب کو پی لیا ہے خوشی سرشاری نشہ سرور کیف انگیز سرور آمیز لہریں
مزار اقدس سے نکل کر ہماری پیارسی بنجر روحوں کو سیراب کرتیں ہم دنیا مافیا
سے بے خبر شہنشاہ کے قدموں میں زیست آمیز لمحات کو ظاہری باطنی پر انجوائے
کرتے میں انہی خیالوں میں غرق تھا کہ اچانک مزار پر انوار کے سامنے والی
سڑک پر آگیا تو ماضی کے مدہوش کن خیالوں سے نکل کر حال میں آگیا سامنے
دیکھا تو کوہ مری سے آئے میرے میزبان جلیل اختر عباسی اور حافظ محسن صاحب
ہاتھوں میں خوبصورت دلکش ریشمی چادریں گلاب موتیے کے پھولوں کے ہار اور
گلاب کے تازہ سرخ پھولوں کے بھرے ہوئے شاپر جلیل عباسی کی نظر جیسے ہی میرے
اوپر پڑی اُس کی آنکھیں آشنائی کی چمک سے اور بھی روشن ہو گئیں تیزی سے
ہماری طرف لپکے میرے ہاتھ کو پکڑا چوما آنکھوں سے لگایا گلو گیر سرشار
عقیدت بھرے لہجے میں بولا آئیں جناب آپ ہی کا انتظار تھا کسی دوست نے محکمہ
اوقاف کے عملے کو کہہ رکھا تھا گاڑی کو روکا اور ہم پھر چادرو ں پھولوں کے
ساتھ سخی لج پال کی طرف بڑھنے لگے ہر قدم نشے مستی سرور میں مست میں کئی
مہینوں کے بعد اپنے آقا شہنشاہ مالک ؒ کی خدمت غلاموں کی طرح حاضری دینے
حاضر ہو گیا تھا تھوڑا چلنے کے بعد ٹہر گیا شہنشاہؒ کے سبز گنبد پر نظر پڑی
تو کافوری برف کی ڈلیاں میرے ظاہر باطن کو آسودگی ٹھنڈک سر شاری سے ہمکنار
کرنے لگیں میں خوب نظر بھر بھر کر شہنشاہ ؒ کے سبز گنبد کو دیکھ کر اپنی بے
نور دھندلی آنکھوں کو روشن کر نے لگا دائیں بائیں دیکھا تو عقیدت مند
پروانوں کا سیلاب مزار کی طرف رواں دواں تھا لج پال ؒکے عقیدت مندوں کو
دیکھ کر دل میں خیال کا شگوفہ پھوٹا کہ میں گلاب کی پتیاں بن کر اِن
دیوانوں کے قدموں سے لپٹ لپٹ جاؤں پر میرے شہنشاہ میرے لج پال ؒ کے مہمان
ہیں اِن کے ننگے قدموں کو آرام دوں سکون دوں یہ میرے لج پال ؒ کے دیوانے
پروانے روح خوشی سے جھومنے لگی جسم کا ایک ایک بال شراب طہور میں مست سرشار
ہونے لگا ۔میں سرکار ؒ کے کوچے میں ایک ایک سیکنڈ کو انجوائے کر رہا تھا
پھر آگے بڑھے جا کر مسجد میں نماز اور شکرانے کے نوافل ادا کئے پھر دھڑکتے
دل کے ساتھ شہنشاہ ؒ کے مزار کی طرف بڑھے قبر شریف کے قریب پہنچے تو دل
آویز منظر سرکار شیشے کی دیواروں کے اندر ہمیشہ کی طرح پھول اوڑھے سو رہے
تھے میرا جسم کا رواں رواں کشکول بن گیا نظروں سے عقیدت کے موتی جھڑنے لگے
اور میں بھاری نشیلے قدموں کے ساتھ سرکارؒ کے حجر ہ مبارک میں داخل ہو گیا
جا کر چوکھٹ کو چوما جلیل عباسی کے ساتھ لگ کر زری چادر کو قبر مبارک پر
پھیلایا پھولوں کے ہاروں سے چادر کو سجا دیا پھر بہت سارے پھولوں کی بارش
شروع کردی پھول برسانے کے بعد غلام بن کر ہاتھ جوڑ کر سخی لج پال کے در پر
کھڑا ہو گیا اور اِس مادی دنیا سے کٹ کر رنگ و نور کے سیلاب میں شامل ہو کر
دوسری دنیا میں غوطے کھانے لگا جہاں پر نشہ سرور مستی سرشاری تھی اور لج
پال ؒ کا فیض نور کی برسات اِس قدر کے آنکھیں کھل گئیں تو سرکار کی چادر کو
چوما اور سیدھا کیا تو لگا شاید روح جھومتے ہوئے جسم سے نکل جائے گی پھر
لمحے صدیوں میں اور صدیاں لمحوں میں خوب روحانی پیاس بجھانے کے بعد باہر
آکر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا اور درخواست کی اے میرے شاہا ؒ میرے شہنشاہ لج
پالؒ اگر آپ اِس کوئلے سیاہ کار پر نظر نہ کرتے تو میں آج بھی منکرین
روحانیت جیسی بنجر ویران زندگی گزار رہا ہوتا آپ میرے لج پال شہنشاہ ؒ
جنہوں نے ایک نظر سے باطن کے اندھیروں کو روشن اجالوں میں بدل دیا پھر شدت
جذبات اور عقیدت اور تشکر سے میری آنکھوں میں موتی جھلملانے لگے اور دل کی
دھڑکنوں سے آوازیں آنے لگیں میرے لج پال امام بری سرکارؒ جیسا اور کوئی
نہیں ہے ۔
|